فاٹا کامستقبل، ایک تجزیہ

تحریک آزادی بر صغیر اور اس کی تقسیم کے لیے مختلف سیاسی اور قومی رہنماؤں نے اپنے طورپرالگ الگ منصوبے تشکیل دیے تھے۔تاریخ کی کتابوں میں ان سب کا ذکر ملتا ہے۔ اگرچہ فیصلہ تو قائد اعظم محمد علی جناح، سردار پٹیل اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی سوچ کے مطابق ہوا لیکن دیگر رہنماؤں کے منصوبے بھی اپنی جگہ سیاسیات کا ایک روشن باب ہیں۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے بھی اس دور میں ایک منصوبہ “فیڈرل ریپبلکن سٹیٹس”کے نام سے تشکیل دیا تھا۔ مولانا سندھی کا منصوبہ اگرچہ اس بنیاد پر تھا کی برصغیر تقسیم نہ ہو اور تقسیم ہو جانے کے بعد اس منصوبے کی چنداں اہمیت باقی نہیں رہتی کیونکہ پاکستان ایک انمٹ حقیقت بن کر ستر سال سے دنیا کے نقشے پر موجود ہے لیکن اگر مولانا سندھی کے منصوبے کے دیگر پہلوؤں کو مطالعے کا محور بنا کر اس سے پاکستان کے داخلی مسائل کا حل تلاشنے کی کوشش کی جائے توپاکستان کے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل میں کمی آ سکتی ہے۔ مولانا سندھی کے منصوبے پر تفصیل کے ساتھ بات کرنے کا موقع نہیں ہے لیکن چونکہ آج کل فاٹا اصلاحات کمیٹی اور فاٹا کے مستقبل کے بارے میں بات چل رہی ہے تو مناسب ہو گا کہ مولانا سندھی کے منصوبے سے صوبائی خود مختاری کا پہلو سامنے لایا جائے۔لیکن اس سے بھی پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جدید ریاست کی تشکیل میں صوبوں کی اہمیت کیا ہے۔
سیاسیات کے طالب علم جانتے ہیں کہ جدید معاشروں میں طاقت کی منصفانہ تقسیم ہی ان کی تعمیر و ترقی میں خشت اول کی حیثیت رکھتی ہے۔ طاقت کا محور اگر کوئی ایک ادارہ یا ایک فرد ہو گا تو سماج تقسیم اور منافرت کا شکار ہوتا رہے گا۔ اسی اصول کو مدنظر رکھ کر ماضی قریب میں صوبائی خودمختاری کا اعلان کیا گیا تھا۔ اور جاننے والے جانتے ہیں کہ اسی اصول سے انحراف کر تے ہوئے جب ون یونٹ کا تجربہ کیا گیا تھا تو گویا سقوط ڈھاکہ کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ ہمارا قومی المیہ رہا ہے کہ ہم تاریخ سے سبق لینے کے بجائے انہی غلطیوں کو دہراتے رہتے ہیں جن کی وجہ سے تاریخ میں کئی بارپہلے بھی زخم اٹھا چکے ہوتے ہیں۔ ون یونٹ کے ناکام تجربے کے باوجود ہم وہی رویہ فاٹا، سرائیکی بیلٹ، ہزارہ ڈویژن، دیہی و شہری سندھ اور بلوچستان کے مسائل میں اپنائے ہوئے ہیں۔
سردست دیگر سلگتے مسائل سے صرف نظر کر کے ہم فاٹا کو سامنے رکھتے ہیں کیونکہ ایف سی آر کے ستائے فاٹا کے عوام کی لازوال جدوجہد ایک لمبے عرصے کے بعد منزل کے قریب پہنچتی دکھائی دے رہی ہے۔ 2011 کی اصلاحات سے پہلے تک اس علاقے میں سیاسی جماعتوں کو کام کرنے کی اجازت نہیں تھی اور فاٹا کے ایم این ایز براہ راست آزاد امیدوار کی حیثیت سے منتخب ہوتے تھے۔ لیکن 2011 کی اصلاحات کے بعد وہاں سیاسی جماعتوں نے اپنا ووٹ بینک بنا کر عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے آنے سے فاٹا کے عوام کو اپنی بات مین سٹریم تک پہنچانے کی آزادی ملی، جو کہ خوش آئند ہے۔ 2011 کی اصلاحات کا مدعا بھی یہی تھا کہ آہستہ آہستہ فاٹا کے عوام کو ملکان (فاٹا کے وڈیرے اور جاگیردار) کی غلامی سے نکلنے کا موقع مل جائے اور وہ اپنے مستقبل کا تعین خود کر سکیں کیونکہ جمہوری اقدار اور فاٹا کے عوام کی قربانیوں کا تقاضا یہی تھا کہ انہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کی آزادی دی جائے۔
موجودہ حکومت نے 2014 میں جب فاٹا اصلاحات کمیٹی تشکیل دی تو درحقیقت اس بات کا اعلان تھا کہ یہ کمیٹی عوام کی امنگیں معلوم کرے گی، پھر ان کی امنگوں کو سفارشات کی صورت میں پارلیمان کے سامنے پیش کرے گی اور پارلیمان ان سفارشات کی روشنی میں فاٹا کو خیبر پختون خواہ میں ضم کرنے، فاٹا کو الگ صوبہ بنانے یا جوں کا توں رکھنے کا فیصلہ کرے گی۔لیکن فاٹا اصلاحات کمیٹی نے عوام کی امنگوں کو جانچنے کا جو طریقہ اختیار کیا وہ اتنا ناقص اور ناقابل اعتبار تھا کہ فورا ًہی اس پر سوال اٹھنے شروع ہو گئے۔ سب سے پہلے فاٹا کے گرینڈ قبائلی جرگے نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور پھر اس کے بعد بعض سیاسی جماعتوں نے بھی فاٹا اصلاحات کمیٹی کی سفارشات کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
المناک صورت مگر یہ ہوئی کہ ہمیشہ کی طرح گرینڈ قبائلی جرگے اور سیاسی جماعتوں کے تحفظات کو سنجیدگی کے ساتھ پیش نظر رکھ کر انہیں مذاکرے و مکالمے کا حصہ بنانے کے بجائے الزامات، اعتراضات اور منفی پراپیگنڈے کی دھول اڑائی گئی اور ان جماعتوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنا مؤقف لے کر عوام کے پاس جائیں اور اس تنازعے کا فیصلہ بھی سڑکوں پر ہو۔ روزانہ کی بنیاد پر عوامی جلسوں اور احتجاجی ریلیوں نے فاٹا کا مستقبل طے ہونے سے پہلے ہی عوام کو تقسیم کر دیا اور اب وہ مسئلہ جو نہایت سنجیدہ مکالمے کے ذریعے پارلیمان اور ذمہ دار لوگوں کے مابین طے ہو سکتا تھا میڈیا اور عوام کے ہاتھ آ گیا ہے۔ اس کا فائدہ تو معلوم نہیں کیا ہو گا لیکن نقصان یہ ہوا کہ خود فاٹا کے عوام اپنے مستقبل سے مایوس دکھائی دے رہے ہیں، جو انتہائی خطرناک صورتحال ہے۔
حیرت تو اس بات پر بھی ہے کہ ایک جمہوری ملک میں سراسر عوامی مفاد سے متعلق ایک فیصلے کے لیے عوامی ریفرنڈم جیسے سہل ترین راستے کے چناؤ کے بجائے کارنر مٹینگز کا طریقہ کیوں اختیار کیا گیا؟ آخر وہ کونسی مجبوری ہے جس کی وجہ سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے عوامی ریفرنڈم کا مطالبہ کرنے والا پاکستان فاٹا میں عوامی ریفرنڈم سے کنی کترا رہا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وزیراعظم نواز شریف جن کا ووٹ بینک پنجاب میں ہے فاٹا میں فقط اس لیے ریفرنڈم نہ کرانے چاہتے ہوں کہ اگر ریفرنڈم میں فاٹا کے عوام نے الگ صوبے کا مطالبہ کر دیا،جس کا قوی امکان ہے، تو کل کلاں جنوبی پنجاب بھی الگ صوبے کے قیام کی اپنی دیرینہ خواہش پوری کرنے کے لیے ریفرنڈم کا مطالبہ کرے گا اور اگر جنوبی پنجاب مرکزی پنجاب سے الگ ہو گیا تو نون لیگ کی سیاسی طاقت کے لیے زبردست دھچکا ہو گا۔
مولانا سندھی نے “فیڈرل ریپبلکن سٹیٹس” کا خاکہ بناتے ہوئے لکھا تھا کہ لسانی بنیادوں پر صوبے تشکیل دیے جائیں جو مکمل طور پر خود مختار ہوں سوائے دفاع، زبان اور کرنسی کے معاملات میں، کیونکہ یہ تینوں معاملات مرکز کے پاس ہوں گے اور مرکز کے فیصلے اس تناظر میں تمام صوبوں کو ماننے پڑیں گے.اب ذرا وطن عزیز میں چلنے والی مختلف صوبائی تحریکوں پر ایک نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ ہزارہ پختون خواسے کیوں جدا ہونا چاہتا ہے؟ کیونکہ اٹک آر اور اٹک پار کے باسیوں میں لسانی اختلاف ہے۔ دیہی اور شہری سندھ کی تقسیم کا مطالبہ بھی لسانی بنیادوں پر ہے۔ جنوبی اور مرکزی پنجاب بھی لسانی اختلاف رکھتے ہیں۔ بلوچستان میں بلوچی اور پختون جھگڑا بھی اسی اساس پر قائم ہے۔ ایسے میں مزید صوبے بنانے کے بجائے فاٹا کو بھی خیبر پختون خواہ میں ضم کرنے کافیصلہ لسانی تعصب کو بڑھاوا دینے اور ایک نئے مسئلے کو جنم دینے کے سوا اور کیا گل کھلائے گا؟
اس وقت جب ساری دنیا کے ممالک چھوٹی چھوٹی اکائیوں میں تقسیم ہو رہے ہیں یا ہو چکے ہیں، تاکہ ان میں رہنے والوں کے انتظامی امور آسان ہوں اور ان کا مرکز نا صرف یہ کہ مضبوط ہو بلکہ غیر جانبدار اور سب کے لیے قابل اعتماد بھی ہو، ہم پہلے سے موجود بڑے صوبوں کو مزید علاقے ان میں ضم کر کے مزید بڑا کیے جا رہے ہیں۔ہمارے پڑوس میں افغانستان اور چین میں 34 صوبے ہیں، بھارت میں 29 سٹیٹس اور 7 یونینز ہیں، بنگلہ دیش جیسے چھوٹے سے ملک میں 7 علاقائی یونٹ ہیں، نیپال بھی دو حصوں میں تقسیم ہے حالانکہ نیپال اکیلے کراچی سے بھی شاید چھوٹا ہو گااور ہم پاکستانی۔۔؟؟ ہندکو کی ایک کہاوت ہے کہ”سکھ نہ سکھ گوانڈو سکھ” یعنی اور کہیں سے نہ سہی کم از کم اپنے پڑوس سے ہی سبق سیکھ لینا چاہیے۔۔

Facebook Comments

وقاص خان
آپ ہی کے جیسا ایک "بلڈی سویلین"

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply