پنجابی شاعری، عظیم شاعر اور مشاعرہ/عاطف افضل

مشہور شاعر انور مسعود کے داماد حاشر بن ارشاد نے شعرا ء کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انور مسعود حیات شعراء میں اس وقت سب سے “عظیم پنجابی شاعر” ہیں۔

ذکر ہے 02-2001ء کے موسمِ سرما کا، ماہ ہوگا پوہ یا ماگھ کا، کہ سردی خون جمائے دیتی تھی۔ اسلام آباد اور پنڈی بھٹیاں (ضلع حافظ آباد) سے بیک وقت شائع ہونے والے ہفت روزہ ”عوامی پنچایت“ نے، کہ جس کا میں ایگزیکٹو ایڈیٹر ہونے کا خطاوار تھا، پنڈی بھٹیاں کے ٹی ایم اے ہال میں ایک پنجابی مشاعرہ منعقد کرنے کا اہتمام کیا۔ نامور وکیل رہنماء عابد ساقی کی سرکردگی میں گاؤں بہاولپور بھٹیاں کے بھٹی برادران نے میزبانی کا بیڑہ اُٹھایا جبکہ بذات خود عمدہ پنجابی شاعر “حضرت شام” تقریب کے مدارالمہام قرار پائے۔

پچیس تیس مقامی اور گردونواح کے شعراء کے علاوہ اسلام آباد سے انور مسعود صاحب کو بطور صدر نشین جبکہ لائلپورسے افضل ساحر کو (ست ربٹی گیند کی طرح) اُبھرتے ہوئے شاعر کے طور پر مدعو کیا گیا۔ ایک صدی کے پانچویں حصّے سے بھی قبل کی بات ہے لیکن انور مسعود صاحب تب بھی ”پنجابی کے سب سے عظیم زندہ شاعر“ کے مرتبے پر فائز کردیئے گئے تھے جبکہ افضل ساحر چڑھدے پنجاب میں دسیوں مشاعرے (باقاعدہ) لُوٹنے اور عصرِ حاضر کا شیو کمار بٹالوی قرار دیئے جانے کے باوجود لہندے میں ہنوز غیر معروف تھا۔ مقامی سامعین مگر، تعداد جن کی ہڈیو ں کا گودا جماتی سردی کے باوجود ایک ہزار سے کم نہ تھی، عابد تمیمی، بالخصوص اسکی معرکتہ الآراء نظم ”سسی“ سننے آئے تھے۔
چنیوٹ کا عابد تمیمی، کہ چہار دانگ ساندل بار و کرانہ بار (لائلپور، جھنگ، سرگودھا، حافظ آباد اور نواحی اضلاع)  میں جس کا طوطی بولتا تھا۔ ”داڑھی مونڈ قلندر“ کے نام سے معروف عابد تمیمی اُس معروض میں پوجے جانے کی حد تک چاہا جانے والا شاعر تھا۔ ہاں، تھا، کچھ سال بعد ہی پچاس سال کی عمر میں چل بسا۔ قصّہ مختصر، روٹی کھلوائی و بوتل کشائی جیسی مشاعرے کا جزو لاینفک سمجھی جانے والی رسوم کی ادائیگی کے بعد شب نو ساڑھے نو بجے مشاعرہ شروع ہوا اور حضرت شام نے کمال چابکدستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تین چار گھنٹوں میں تیس سے زائد مقامی شعراء اس خوش اسلوبی سے”بھگتائے“کہ بقول شاعر، دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ۔

ایک سے بڑھ کر ایک، کوئی ایک بھی ہلکا شاعر نہ تھا۔ مجمع نے داد دینے میں بھی بُخل سے کام نہ لیا گو کہ منتظر وہ تمیمی کے تھے۔ دور دراز کے دیہات و قصبات سے ٹریکٹر ٹرالیوں میں لد پھند کر آئے یہ بظاہر“گنوار“ دیہاتی ایسا اعلیٰ ادبی ذوق رکھتے تھے کہ اپنی مادری زبان سے نابلد پنجاب کے شہری جس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ جی، پروازِ تخیل کی بلندی کے لئے مادری زبان میں مہارت شرطِ اولین ہے۔ ان میں درجن بھر سے زائد تو ”ہیر“ کے حفاظ ہوں گے۔ صرف ”ہیر وارث شاہ“نہیں بلکہ دیگر نسبتاً غیر معروف شعراء حتیٰ کہ ”ہیر دمودر“ کے حافظ بھی۔

قصّہ مختصر، پنجابی شاعری کے اعلیٰ ادبی ذوق سے ”مسلح“ یہ مجمع اب چارجڈ بھی تھا اور تعداد بھی باوجودیکہ سرما کی نصف شب، بڑھ کر دوگنی یعنی ڈیڑھ ہزار کے اریب قریب رہی ہوگی جب عابد تمیمی نے چارج سنبھالا اور حسب ہر توقع،  پِن پوائنٹ پر مشاعرہ لُوٹ لیا۔

دریائے چناب کے کناروں کی اپنی مخصوص رومانوی لپٹوں سے لبریز عابد کی شاعری نے اس گھور اندھیری رات میں مجمع پہ پہلے تو ناقابل بیان سحر طاری کیا اور پھر انہیں دادو تحسین کہ وہ ڈونگرے برسانے پر مجبور کیا کہ الامان و الحفیظ۔ عابد کا عارفانہ، صوفیانہ، عاشقانہ غرضیکہ تمام کلام سُنا گیا، ”سسی“ بار بار سنی گئی۔ منتظمین میں سے کسی کی جرأت نہ تھی کہ عابد کو مہمان شعراء کی ”باری“ کا باور کروا کے مائیک چھوڑنے کا کہتے۔ عابد نے خود ہی جذباتی تھکاوٹ سے چور ہو کر رات اڑھائی بجے مائیک چھوڑا تو مجمع گویا تتر بتر ہونے کو تیار بیٹھا تھا۔ بیک وقت درجنوں میسی فرگوسنوں کے سلف مارے گئے اور ٹرالیاں پھر سے لدنا پھندنا شروع ہوگئیں۔ بوکھلائے و گھبرائے حضرت شام کی اپیلوں نے بھی جب کوئی اثر نہ کیا تو باوقار، وضع دار اور مہمان نواز عابد تمیمی خود سٹیج پر آیا اور تمام سامعین کو مہمان شعراء کا کلام سنے بغیر نہ جانے کی ہدایت نما درخواست گزار ہوا۔ مجمع ٹرالیوں سے ہال کیطرف یوں پلٹا جیسے اقبال کا شاہین لپک جھپکنے کے بعد پلٹتا ہے۔ ویسے، کتنا ”اُجڈ“ مجمع تھاناں جس نے  افضل ساحر کو تو چھوڑیے ایک طرف، ”پنجابی کے عظیم ترین زندہ شاعر“ کو بھی درخوراعتنا نہ سمجھا اور صرف اپنے دیوتا سمان “مقامی“ شاعر کی خوشنودی کیلئے پلٹے

بہر حال، افضل ساحر نے اپنے مخصوص پولے پولے انداز میں ”جِندے“ سے سٹارٹ لیا اور راحت فتح علی خان کی گائی ہوئی (کافی سال بعد) نظم کے ختم ہونے سے پہلے پہلے جس طرح مجمع کو ”باندھا“ وہ ایک خطرے کی گھنٹی تھی۔ ایک ایسا خطرہ (تھوڑا آگے چل کر تفصیل) جسے میں اور مجھ سے زیادہ حضرت شام مکمل طور پر بھانپ چکے تھے مگر اب کر کچھ نہ سکتے تھے کہ افضل ساحر نام کا تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ ”جندے“ کے بعد دو نسبتاً ”ہلکی“نظمیں۔ اتنی ”ہلکی“ کہ مجمع پر اب ”پِن ڈراپ سائلنس“ طاری ہو چکا تھا۔ ڈیڑھ ہزار کا مجمع داد دینا بھول کر جینز جیکٹ میں ملبوس اس 27-28 سالہ خوبصورت نوجوان کو ٹکر ٹکر دیکھے جارہا تھا جو انکے دردوں اور انکی دھرتی ماں کے دکھوں کو ان ہی کی زبان میں منظوم کرکے بیان کررہا تھا۔

لدھیانے کے ساحر کی طرح لائلپور کا ساحر بھی اسم با مسمیٰ ہے جسکے منظوم دردوں نے مجمع مسحور کردیا تھا۔ میں اور حضرت شام مگر جانتے تھے کہ اصل پکچر تو ابھی باقی ہے۔ پھر وہی ہوا کہ جسکا ڈر تھا۔ چوتھے کلام کے طور پر افضل ساحر نے”وارتا“ شروع کی جو کبھی ختم نہ ہوسکی۔ ”اسی چھٹی چراون لے گئے، کنج بوہا نکلے“ تک پہنچتے پہنچتے عابد تمیمی ماضی بن چکا تھا۔ ساندل اور دُلے کی باروں کے ادب دوستوں کو نیا دیوتا مل چکا تھا۔ ”ساڈا گنا مل نے پیڑھیا، رو رتی نکلی“ پر آدھے سے زیادہ مجمع دھاڑیں مار مار کر رو دیا۔ محسن نقوی مرحوم نے کربلا گامے شاہ کی شام غریباں میں کبھی اتنے شیعہ نہ رُلائے ہوں گے جتنے ساحر نے اس رات ”جانگلی“ رلا دیئے۔ ”وارتا“ بار بار سنی گئی، اتنی بار کہ ساحر کو بھی عاجز آ کر کہنا پڑا کہ ”بابیو، میرا ہور وی کلام اے، او وی سن لوو“ وہ بھی سنا گیا، وہ بھی بار بار سنا گیا۔ پھر ”وارتا“ سنی گئی، پھر دوسری نظمیں سنی گئیں، پھر ”وارتا“ سنی گئی اور پھر افضل ساحر نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ دیئے۔ تب جا کر مجمع روتے دھوتے آنسو پونچھتے ٹرالیوں میں سوار ہوا۔ ”پنجابی کے عظیم ترین زندہ شاعر“ کا کلام سننے کی حضرت شام کی نیم دلانہ درخواست نہ کسی نے سنی نہ کان دھرے۔ کوئی تُک ہی نہیں بنتی تھی کسی بھی اور شاعر کے سخن سرا ہونے کی۔ شاید شیو خود یا وارث شاہ قبروں سے اُٹھ کر آجاتے تو یہ لوگ انہیں سن لیتے، کسی ”عظیم ترین مگر زندہ شاعر” کی کوئی گنجائش نہ تھی۔
کوئی ”بنیان“ خریدنے پہ آمادہ نہ ہوا۔ ویسے بھی ساندل اور دُلے کی باروں کے ”جانگلی“بنیان کہاں پہنتے ہیں!

انور مسعود صاحب کا آگ بگولہ ہونا بجا تھا۔ یہی وہ ”خطرہ“ تھا جسے ہم پہلے ہی بھانپ چکے تھے۔ اردو، پنجابی اور فارسی میں انور مسعود صاحب کی دشنام طرازیاں سن کر انکا غصہ کچھ ٹھنڈا کیا۔ باقی انکا کلام سن کر، شنیل کی رضائیوں میں دُبک کر اس دالان نما کمرے میں جہاں منتظمین نے مہمانوں کی شب گزاری کا بندوبست کیا تھا۔ ”بنیان“ توقع سے کہیں ارزاں نرخوں پر بکنے کے بعد انور مسعود صاحب مناسب سی حد تک نارمل ہوئے تو ساتھ کی شنیلی رضائی میں دُبک کر بائیں ہاتھ کی درمیانی پوری اور آدھی کٹی انگشت شہادت میں ”قابو“ کئے سگریٹ کا کش لگاتے افضل ساحر سے پوچھا، ”کاکا، اِک گل تے دس؟ تیرے اندر اینہی پیڑ کتھوں آئی“ (لڑکے، ایک بات تو بتاؤ؟ تمھارے اندر اتنا درد کہاں سے آیا؟) جواب میں ساحر نے ”اج پیڑاں وکنے آئیاں (آج دردیں بکنے آئیں)“ سنا دی۔ ہم سب صرف افسردہ ہوئے کہ پہلے بھی کئی بار سن چکے تھے۔ انہوں نے پہلی بار سنی تھی، انور مسعود رو دیئے۔

تین چار سال بعد حضرت شام نے اس حرکت کا اعادہ روزنامہ ”جناح“ اسلام آباد کے فورم ہال میں منعقدہ ایک اور مشاعرے میں کیا۔ عابد تمیمی نہ تھا اور سامعین اسلام آباد کی ”پڑھی لکھی“ مڈل کلاس کے مردوزن تھے۔ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات، ساحر کے بعد صدر مشاعرہ یعنی ”پنجابی کے عظیم ترین زندہ شاعر“ کو سننے والے یہاں بھی گنتی کے چند ایک منتظمین مشاعرہ ہی باقی بچے۔ ”بنیان“ اسلام آباد میں بھی نہ بک سکی۔ مشاعروں سے مشہور ہونے والا شاعر مشاعروں میں ہی اپنے سے آدھی سے بھی کم عمر کے نوجوان سے چاروں شانے چت ہوگیا گو کہ یہ ساحر کی یا ہماری منشا ہر گز نہ تھی۔ افضل ساحر نے یہاں بھی نہ صرف مشاعرہ لوٹ لیا بلکہ چند ایک جمیل ”سامعین“ بھی۔ حضرت شام کو ایک بار پھر تین زبانوں میں ہرزہ سرائی کا سامنا کرنا پڑا اور انور مسعود صاحب کے ساتھ اسکے دیرینہ تعلقات اپنے منطقی انجام سے دوچار ہوئے۔ قصّہ ختم شد۔

بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حاشر ابن ارشاد اچھے آدمی، بلکہ انسان، ہیں۔ بہت اچھے انسان ہیں۔ بس خبط عظمت میں اپنی بے پناہ علمیت کو دانش کے قالب میں نہیں ڈھال پاتے۔کچھ موضوعات پر جہاں ان کا اظہار خیال، خیال آفریں، منطقی اور سوچ کے نئے زاویئے وا کرنے والا ہوتا ہے وہیں کچھ دیگر موضوعات پر نہایت سطحی اور بودا۔ تیقن میں مگر تغیر واقع نہیں ہوتا۔ نیلے جاودانی آسمان کے نیچے جو کچھ بھی وقوع پذیر ہورہا ہے اس پر حاشر صاحب نے رائے زنی ضرور بالضرور کرنی ہے اور وہی حتمی اور آخری سچ ہے۔

ارے صاحب پنجابی شاعری کے حالیہ رحجانات کے بارے میں آپ جانتے ہی کیا ہیں؟ کسی ایک، صرف ایک، پنجابی کلاسیکل شاعر کا پورا نہ سہی نصف کلام پڑھا ہے آپ نے؟ چڑھدے لہندے میں کن موضوعات پر شاعری ہو رہی ہے اور کن پر ترک ہو چکی ہے، کچھ معلوم بھی ہے؟ کم از کم ایک سو سے زائد ایسے شعراء کے نام لکھ سکتا ہوں جن کی پنجابی شاعری کو کوئی بھی نجیب الطرفین پنجابی انور مسعود صاحب سے بہتر قرار دے سکتا ہے۔ صرف اسلام آباد پولیس کے ملازمین میں ایسے درجن بھر سے زائد شعراء ہوں گے۔ افضل ساحر تو ساحر ہے، یہ حضرت شام کی نظمیں کبھی سنی پڑھی ہیں آپ نے؟ میرے لائلپور شہر کی گلیوں اور متصل گاؤں دیہات میں چھوکرے، اور ان سے بھی بڑھ کر چھوکریاں (گوتم میرے نال دھڑ وٹا لے، سنیا تینوں بھکھ نئیں لگدی) بزگوار انور مسعود سے بہتر شاعری کر رہے/رہی ہیں۔ وہ آپ کے سسر محترم نہ بھی ہوتے تو اپنی بزرگی کے باعث قابل احترام ہی ہوتے۔ مگر کچھ خیال کیجئیے۔

میں دھرتی پنجاب کا نالائق بیٹا ہوں مگر اتنا نا خلف بھی نہیں کہ اسلام آباد کی ادبی اشرافیہ و مافیا کے مقابلے میں دھرتی سے جڑے اپنے دہقان مزدور شاعروں کا دفاع نہ کر سکوں۔

کوئی بات نہیں، کجیاں خامیاں تو ہم سب میں ہیں۔حتمیت رائے سے ہم سب کو اجتناب کرنا چاہیے۔ طنزو مزاح برطرف، سنجیدگی کے ساتھ میں نے صرف استاد نصرت فتح علی خان کو تمام وقتوں کا عظیم ترین موسیقار و گلو کار اور استاد غالب کو تمام وقتوں اور زبانوں کا عظیم ترین شاعر قرار دینے کی حماقتیں کی ہیں۔ اب نہیں کرتا۔ گو کہ اب بھی کوئی رات دیوانِ غالب کی تلاوت کئے بغیر اور نصرت کی موسیقی کی حلاوت کانوں میں گھولے بناء نہیں گزرتی مگر حتمیت رائے سے گریز ہی کرتا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

انور مسعود صاحب بھی اچھے شاعر و ادیب اور اچھے انسان ہیں۔میں دل سے انکا احترام کرتا ہوں، میرا لنگوٹی بدل یار ساحر بھی کرتا ہے۔ انکی عظمت کے ایسے سطحی اور کھوکھلے دعوے مگر ان کے ادبی قد کو بڑا نہیں بلکہ چھوٹا کرتے ہیں، بہت چھوٹا کرتے ہیں۔ اجتناب کرنا چاہیے۔اس قصّے میں ”بنیان“ کی تکرار بروزن ”دردڈسکو“ ہے۔ آپ کو بھی معلوم تو پڑے ناں کہ کیا گزرتی ہے جب کسی کی نصف صدی سے زائد پر محیط Body of work کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ایک ترکیب کو پھبتی بنا لیا جائے۔ اجتناب، جناب، اجتناب!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply