فوجی آپریشن اور اس کے ممکنہ نتائج __عمران بخاری_

 

کسی بھی فوجی کی ذہنی اور جسمانی تربیت سازی اس نہج پر کی جاتی ہے کہ دشمن کا انجام موت ہو، چاہے وہ کتنے ہی دردناک طریقے سے ہو۔ مقصد دشمن پر اپنا خوف اور دھاک بٹھانا ہوتا ہے۔ اسے نفسیات کی اصطلاح میں ٹیرر مینیجمنٹ (Terror Management) کہا جاتا ہے۔ روایتی جنگ میں  دشمن کا تعین علاقے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ لہٰذا دشمن کے علاقے میں ہلاک ہونے والے عام لوگوں کو بھی دشمن ہی تصور کیا جاتا ہے۔ اس لیے دشمن سے لڑنے والے فوجی کے دل میں اس کے علاقے میں بسنے والے عام لوگوں پر کسی قسم کا رحم یا ہمدردی کے جذبات نہیں پائے جاتے۔ کیونکہ وہ انہیں بھی اپنے دشمن کا ہمدرد اور سپورٹر تصور کرتا ہے۔ اور جدید دنیا میں کولیٹرل ڈیمیج (Collateral Damage) کے نام پر اس سفاکیت اور بے رحم رویے کو جائز قرار دے کر ضمیر میں پیدا ہونے والی کسی بھی ممکنہ خلش کو دبانے کا بندوبست کیا گیا ہے۔ اس نفسیاتی کیفیت کے ساتھ جب کسی سپاہی کو اندرونِ ملک کسی آپریشن کا حصہ بنایا جاتا ہے تو سپاہی سے اسی برتاؤ کی توقع رکھنا چاہئیے جس کی اسے تربیت دی گئی ہے۔ شکوہ اس سپاہی سے نہیں ہونا چاہئیے جو تمام فوجی حربے اپنے ہی لوگوں پر استعمال کر رہا ہے۔ اسکی تو تربیت ہی یہی ہے۔ سوال اُن پالیسی سازوں سے ہونا چاہئیے جو فوج کو اپنی ہی عوام کے مقابل لے آئے اور عوام میں فوج کو متنازع بنانے کا باعث بنے۔

کسی بھی ملک کی سپاہ اپنے بیرونی دشمن سے تب ہی مقابلہ کر سکتی ہے اگر اسے اپنی عوام کی سپورٹ حاصل ہو۔ جس خاندان کا بچہ آپریشن کے نام پر مار دیا جائے یا غائب کر دیا جائے گا کیا اس خاندان سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ان اداروں سے محبت کرے یا ان کا احترام کرے جن سے انہیں تکلیف پہنچی ہو؟ ہر انسان کا بنیادی حق ہے کہ اگر اس پر کسی جرم کا الزام لگے تو عدالت میں خود کو بے گناہ ثابت کرنے کا حق ملنا چاہئیے۔ جب یہ کولیٹرل ڈیمیج اپنے ہی ملک میں کیے گئے آپریشن سے ہو گا تو لڑنے والے سپاہی کے ممکنہ اندرونی ردِعمل کا بندوبست تو کر لیا جاتا ہے لیکن عوام میں اپنی ہی فوج کے خلاف جو ردِعمل کے منفی جذبات پروان چڑھتے ہیں ان کا تعین ایک فوجی ذہن نہیں کر سکتا کیونکہ ایک فوجی میدانِ جنگ میں ایک ہی مقصد لے کر اترتا ہے، یا دشمن کی جان لے لو یا اپنی جان دے دو۔ ان کی ذہنی اور جسمانی تربیت کا رخ ہی ون وے ٹریفک جیسا ہوتا ہے۔ ایک فوجی کی تربیت اس یک رخی نہج پر اس لیے کی جاتی ہے کہ فوج کا مقصد بیرونی سرحدوں پر کسی بھی دشمن سے اپنے ملک کی حفاظت کرنا ہوتا ہے۔ ایسا دشمن جس سے آپ کے ملک کی سالمیت کو خطرہ ہو اُس کے بارے میں ایک سپاہی سے رحم یا ہمدردی کی توقع خلافِ عقل ہو گی۔
میرا تعلق اس نسل سے ہے جس نے وہ دن بھی دیکھے ہیں جب کسی جگہ سے فوجیوں کی کوئی گاڑی گزرتی تھی تو لوگ ہاتھ اٹھا اٹھا کر انہیں سلام کرتے تھے، ان کے لیے تالیاں بجاتے تھے، ان پر پھول نچھاور کرتے تھے۔ میری تکلیف اور دکھ اس لیے زیادہ ہے کہ اپنی زندگی میں ہی میں اپنے ہی لوگوں سے لڑنے پر لوگوں کو فوج کے کردار اور امیج پر تنقید کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ میں اس کا ذمہ دار ہرگز اس فوجی کو نہیں سمجھتا جو لڑ رہا ہے۔ میں ان پالیسی سازوں کو ذمہ دار سمجھتا ہوں جو میری فوج کو بے توقیری کی اس نہج پر لے آئے ہیں کہ لوگ ان سے ڈرتے تو ہیں لیکن وارفتگی اور محبت دھیرے دھیرے گھٹتی جا رہی ہے۔ جب عام شہری یہ محسوس کرنے لگیں کہ ان کے حقوق کی حفاظت کرنے والی ریاست ہی ان کے لیے غیر محفوظ ہو گئی ہے تو ایسی صورتحال میں ملک دشمن قوتوں کو اپنے مضموم مقاصد کی خاطر مطلوب افرادی قوت کا میسر آنا نہایت آسان ہو جاتا ہے۔

میں اپنے ملک کے خلاف کارفرما قوتوں کی اس سازش کو بالکل بھی بعید از خیال نہیں سمجھتا کہ انہوں نے کمال مہارت اور چالاکی سے ایسے حالات پیدا کیے اور ہماری فوج کو اپنی ہی عوام کے سامنے لا کھڑا کیا۔ اور اس سازش میں کئی قابلِ فروخت اندرونی عناصر بھی شامل ہو سکتے ہیں۔عین ممکن ہے کہ وہ قوتیں اب اس فیصلہ کن گھڑی کے انتظار میں ہوں کہ جب پاکستان پر مشرق یا مغرب سے کوئی محاذ کھولیں اور ہماری فوج اندرونی طور پر اتنی نامقبول ہو چکی ہو کہ اس کے لیے اس بیرونی دشمن کا مقابلہ کرنے کی سکت ہی نہ رہے۔
ہمیں ہوش کے ناخن لینا ہوں گے۔ اس ابھرتے ہوئے تاثر کو زائل کرنا ہو گا کہ فوج اپنے ہی لوگوں کی دشمن ہے۔ اس تاثر کو زائل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اگر کسی بھی شخص کے بارے میں یہ شواہد ہوں کہ وہ ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے تو اسے پکڑ کر ثبوتوں کے ساتھ عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔ حضرت علی کا قول ہے کہ کوئی بھی معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہےلیکن ظلم پر نہیں۔ ہمیں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہو گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس وقت جس ہنگامی کیفیت سے ہم دوچار ہیں اس میں ہماری عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہئیے۔ سماجی سطح پر ہر فرد کو اپنی ماضی کی کوتاہیوں کا اعتراف کر کے آئیندہ کے لیے ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا ہو گا، چاہے وہ سیاستدان ہو، عدلیہ یا بیوروکریسی سے ہو یا پولیس سے جڑا ہو۔ چونکہ اس وقت ملک میں واحد منظم ادارہ فوج ہے تو تمام دوسرے اداروں کی نااہلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والا خلا فطری طور فوج کے زیرِ اثر چلا جاتا ہے۔ ان اداروں کی نااہلی کا بوجھ فوج کے کاندھوں پر ہرگز نہیں آنا چاہئیے۔ اپنی ہی فوج کا اپنے ہی لوگوں کے مقابل آن کھڑا ہونا ہرگز ملکی مفاد میں نہیں۔ جس ادارے سے ملکی سالمیت وابستہ ہو اس ادارے کی کمزوری ملکی سالمیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔ ہمیں بنگلہ دیش کی مثال نہیں بھولنی چاہئیے

Facebook Comments

عمران بخاری!
لیکچرار، قومی ادارہءِ نفسیات، قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply