تقدیر کا لبادہ اور این جی او برائے حقوق اللہ۔شاہد خان بلوچ

اس کی بات سن کر میں چونک گیا۔
”میں خدا کے حقوق کی این جی او بنانا چاہتا ہوں۔میں نہیں تو میرے کسی ڈرامے کا کوئی کیریکٹر ضرور ایسی این جی او بنائے گا۔”
میری خاموشی کا مطلب تھا کہ میں اس کی بات نہیں سمجھا۔وہ خود ہی بتانے لگا۔
”میرے خیال میں اس دنیا میں سب سے زیادہ مظلوم تو خدا ہے۔ تو اس کی حقوق کی این جی او بنانی چاہیے۔”
”مگر وہ تو قادر مطلق ہے۔ وہ کیسے مظلوم ہو سکتا ہے؟”
”یار تم مجھے بتاؤ  کہ اگر میں کسی جگہ یا کسی کام میں ناکام ہو جاؤں  اور اس کے  بعد اس کا ذمہ دار تمھیں ٹھہراوں تو یہ تم پر ظلم نہیں؟”
”ہے مگر اس بات کا اس سے کیا تعلق؟”
”ہم سب جب بھی ہمارے ساتھ کچھ برا ہو  یا  ہم ناکام ہوں تو کہتے ہیں کہ خدا کی مرضی یہی تھی۔یعنی اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں۔ تو یہ خدا کو ظالم بنا کر دکھاناخدا پر بہت بڑا ظلم ہے جو ہم روز کئی بار کرتے ہیں۔میں خدا پر ہونے والے اس ظلم پر این جی او بنانا چاہتا ہوں۔یار ہمیں خدا کا سافٹ امیج دکھانا چاہیے۔”
”مگر یہ تو سچ ہے کہ تقدیر کے فیصلے ہمارے اختیار میں نہیں ہوتے”
”تو تمہارے خیال میں ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا خدا تمھیں ناکام کرتا ہے؟”
”ہاں کئی بار جب ہم کسی غلط راستے پر جا رہے ہوتے ہیں تو وہ ہمیں ہمارے غلط ارادوں میں ناکام کر کے ٹھیک راستے پر لے آتا ہے”
”اور جو اپنے غلط ارادوں میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ؟”
” وہ سب کو تو نہیں روکتا۔ ہر انسان کی زندگی الگ سے ہوتی ہے اور اس کا مقدر بھی‘
’ماں کے لیے اپنی اولاد میں ناانصافی کرنا بہت مشکل ہے تو خدا سب کے ساتھ الگ سے برتاؤ  کیسے کر سکتا ہے؟”
اس بار میری طرف سے خاموشی رہی۔کچھ خاموشی کے بعد وہ دوبارہ مخاطب ہوا۔
”کیا تم مانتے ہو خدا کے ہر کام میں ایک تسلسل ہے؟چلو نیچر کی حد تک ہی سہی۔وہ سورج کبھی مغرب سے نہیں نکالتا۔کبھی بغیر بادل کے بارش نہیں ہوتی۔اوپر پھینکی ہوئی چیز کو گریوٹی ہمیشہ نیچے لے کر آتی ہے کبھی اوپر نہیں جاتی۔پانی ہمیشہ پستی کی طرف بہتا ہے۔جب خدا کے ان تمام باتوں میں واضح اصول ہیں تو انسان کے بارے میں ایسا تسلسل نہ ہونے کا آپ کیسے سوچ سکتے ہیں؟”
مجھ میں مزید بحث کی ہمت نہیں تھی۔بس پھر یہی پوچھا تمھاری کیا تھیوری ہے؟
”میرے خیال میں خدا نے انسان کو کچھ باتوں میں پابند کر دیا ہے۔وہ اس کی قسمت ہے۔جیسے کہ وہ کہاں کب کس جگہ اور کس دور میں پیدا ہوگا اور  اس میں کون کون سی حس ہو گی ۔مگر  پیدا کرنے کے بعد اسے دماغ اور دنیا دے دی کہ اب اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے گزارو۔ اس کے بعد خدا انسان کے کسی کام میں مداخلت نہیں کرتا اور بس انسان کے کام دیکھتا رہتاہے۔وہ اچھا کرے برا کرے سب اس کی مرضی اور وہ ہی ذمہ دار اور اس کا حساب بعد از موت ہی ہو گا‘
’مگر خدا خود کہتا ہے کہ عزت اور ذلت خدا کے ہاتھ میں ہے۔جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت دے”
”یہ ترجمہ تو ہم نے خود کیا ہے۔غلام پرویز احمد تو اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ تو چاہے تو عزت لے چاہے تو ذلت لے”
’یہ قدرتی آفات اور حادثات تو ہماری مرضی سے نہیں ہوتے۔ان میں بھی خدا کی مرضی نہیں ہوتی؟‘
”آج سے ہزاروں سال پہلے ملیریا سے ہزاروں لوگ مرتے تھے آج نہیں مرتے۔پہلے ہمیں سیلاب اور زلزلے کا پیشگی پتہ نہیں چلتا تھا اب چل جاتا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ خدا نے ہمیں جو دماغ دیا ہے اس کو استعمال کر کے آفات پر قابو پانا ہماری اپنی ذمہ داری ہے۔ان آفات اور حادثات کی وجہ بھی ہم خود ہیں جیسے کہ گلوبل وارمنگ سے جو بھی آفات آئیں گی اس کہ ذمہ داری ہماری اپنی ہے نہ کہ خدا کی  مرضی‘
’پھر تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان بھی خدا نے خود اپنی مرضی سے اسلام کی اشاعت اور تحفظ اسلام کے لیے نہیں بنایا تھا بلکہ یہ ہم انسانوں کا منصوبہ تھا؟اور یہ بھی کہ ۱۹۶۵ء کی  جنگ میں کافروں کے خلاف خدائی مدد شامل نہیں تھی؟”
”اگر تم اس پریقین رکھتے ہو توپھر تم یہ بھی سوچتے ہوگے کہ بنگلہ دیش اس لئے بنا کہ خدا کو ۱۹۷۱ء میں جا کر احساس ہوا کہ اشاعت اسلام اور تحفظ اسلام کے لئے جب پنجابی،سندھی اور لمبے لمبے صحت مند  پٹھان اور بلوچ موجود ہیں  تو  ۹ کروڑ  چھوٹے چھوٹے قد کے بنگالیوں کی کیا ضرورت ہے؟ ہاہاہاہا۔۔۔سوری سوری سوری۔۔مجھے کچھ اٹھا کر نہ مار دینا ۔آئی واز جسٹ کڈنگ۔ ایک کپ اور چائے پیو گے؟”
اس کی باتیں سن کر میرا سر،جسم اور جذبات بھاری بھاری ہو رہے تھے اور مزید بیٹھنے کی ہمت نہیں تھی مگر چائے کو کیسے انکار کرتا۔آخر اس سب میں چائے کا کیا  قصور!

Save

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

Shahid Baloch
شاہد اقبال خان پی ایچ ڈی بزنس ایڈمنسٹریشن کے طالبعلم ہیں اور سپیریر ہونیورسٹی لاہور کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پاکستانی سیاست، معاشرتی مسایل، معیشت اور کرکٹ جیسے ٹاپکس پر لکھتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply