صوفی غلام مصطفی تبسم ..ایک اجمالی جائزہ

بیسیویں صدی کے ایک نابغہءروزگار صاحب کلام صوفی غلام مصطفی تبسم کی آج سات فروری کو انتالیسویں برسی ہے.صوفی غلام مصطفی تبسم امرتسری کشمیری خاندان کے چشم و چراغ تھے…. 4 اگست 1899 کو امرتسر میں آنکھیں کھولیں.اوائل عمری میں لاہور چلے آئے پھر یہیں کے ہو رہے.ایم اے فارسی میں کیا اور معلم کا مقدس پیشہ اختیار کیا ۔امرتسرمیں ہی کالج میں تعنیات ہوئے .لاہور آنے کے بعد سینٹرک ٹریننگ کالج، سول سروسز اکیڈمی ، فنانس سروسز اکیڈمی میں اردو کے معلم رہے.گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہء اردو اور شعبہء فارسی کے سربراہ رہے.ریٹائر ہونے کے بعد خانہء فرھنگ ایران سے وابستہ ہوئے…
ان کی مختلف الجہت شخصیت کے بے شمار رنگ تھے..جن کی زمانے پر چھاپ لگی…بے شمار مظاہر تھے .سب میں ہی اپنی قابلیت کا لوہا منوایا.براڈ کاسٹر، تنقید نگار، کالم نگار، ڈرامہ نگار مترجم، قادر الکلام شاعر اور سب سے بڑھ کر ایک منفرد طرز کے معلم رہے جنہوں نے بے شمار ذہنوں اور نسلوں کی آبیاری کی.ان کے شاگرد صرف لاہور ہی نہیں بلکہ برصغیر کے طول و عرض میں اپنے کمال فن تک پہنچے ان میں کشور ناہید، آئی گوہر، قدرت اللہ شہاب، حنیف رامے، نسیم حسن شاہ، فیض احمد فیض، بانو قدسیہ اور اشفاق احمد وغیرہ شامل ہیں۔
صوفی تبسم کا اصل نام غلام مصطفی تھا. بہ طور شاعر ابتداء میں تخلص اصغر صہبائی اختیار کیا..دلچسپ بات یہ رہی کہ ان کے استاد حکیم فیروز الدین طغرائی نے ان کی باغ و بہار شخصیت کی مناسبت سے تبسم تخلص تجویز کیا گیا جو اصل نام کی جگہ مقبول عام رہا.صوفی غلام تبسم کی شاعری پہ کچھ تبصرہ کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے.ایک منفرد قادر الکلام شاعر کی حیثیت سے ان کا خاصہ رہا کہ انہیں بہ یک وقت کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا .اردو، فارسی، پنجابی اور انگریزی زبانوں میں بے شمار ادبی کارہائے نمایاں انجام دیئے…
.ایک منفرد اقلیم الفاظ کے مالک شاعر نے اردو شاعری کو جو نئے رنگ ڈھنگ میں پیش کیا وہ اپنی مثال آپ رہا…..
نمونہء کلام پیش خدمت ہے:

یہ کیا کہ اک جہاں کو.کرو وقف اضطراب
یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو
ایسا نہ ہو یہ درد بنے درد لا دوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو
تخیل کو کمال تغزل کے ساتھ غنائیت کی جادو گری سے پیش کیا گیا ہے…زباندانی کے جواہر نے کلام کو ثقیل نہیں بلکہ حد درجے کی سلاست اور روانی ءبیان عطا کی ہے…تشبہات اور استعارے شاعری کی جان ہوا کرتے ہیں…..صوفی تبسم کے کلام میں منفرد تراکیب نظر آتی ہیں ….

غم نصیبوں کو کسی نے تو پکارا ہوگا
اس بھری بزم میں کوئی تو ہمارا ہوگا
آج کس یاد سے چمکی تری چشم پر نم
جانے یہ کس کے مقدر کا ستارا ہوگا
ایک طوفاں میں قریب آگئی اپنی منزل
ہم سمجھتے تھے بہت دور کنارا ہوگا
چھوڑ کر آئے تھے جب شہر تمنا ہم لوگ
مدتوں راہ گزاروں نے پکارا ہوگا
مسکراتاہے تو اک آہ نکل جاتی ہے
یہ تبسم بھی کوئی درد کا مارا ہوگا

محبت کے دلنواز سر، کیف و مستی کا بیان، ہجر ووصال کے مضامین اپنی مترنم دلکشی کے باعثاپنی مثال آپ ہیں…..

یہ رنگینیء نو بہار اللہ اللہ
یہ جام مے خشگوار اللہ اللہ

اردو فارسی کی رومان پرور چاشنی اور گھلی ملی تراکیب نے اس غزل کو انفرادیت بخشی…
سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی
اک لحظہ بہے آنسو اک لحظہ ہنسی آئی
سیکھے ہیں نئے دل نے انداز شکیبائی
ہر دردِ محبت سے الجھا ہے غمِ ہستی
کیاکیا ہمیں یاد آیا جب یاد تری آئی
چرکے وہ دیے دل کو محرومئ قسمت نے
اب ہجر بھی تنہائی اور وصل بھی تنہائی
جلووں کے تمنائی جلووں کو ترستے ہیں
تسکین کو روئیں گےجلووں کے تمنائی
دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے
آغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائی
ان مدھ بھری آنکھوں میں کیا سحر تبسم تھا
نظروں میں محبت کی دنیا ہی سمٹ آئی

صوفی تبسم کو پنجابی زبان میں جو ایک الگ سی انسیت تھی وہ ان کی غالب کے کلام کی پنجابی میں منظوم شرح لکھنے سے واضح ہے …مزید یہ کہ پنجابی شاعری پہ فارسی روایات کا اثر کا مفصل جائزہ بھی پیش کیا …پنجابی کلام کا ایک نمونہ جو غلام علی کی آواز میں کمپوز ہو کر ملک کے کونے کونے تک پہنچا “; میرے شوق دا نئیں اعتبار تینوں”

اس دور میں معدوم ہوتی ہوئی فارسی زبان و ادب کی نگہبانی، اور فروغ کے ضمن میں ایک والہانہ لگاؤ رہامرزا اسد اللہ غالب کو بجا طور پر اپنے فارسی کلام پر ناز تھا …صوفی تبسم نے دیدہ ریزی کے ساتھ غالب کے فارسی کلام کامنظوم ترجمہ تحریر کیا اور شرح بھی لکھی ..
امیر خسرو کے فارسی کلام کا بھی منظوم ترجمہ تحریر کیا. حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے فارسی کلام کی بھی شرح تحریر فرمائی ..اقبال سے خاص عقیدت رہی .اقبالیات کو فروغ دینے میں علمی و تحقیقی امور انجام دیئے….اقبال اکادمی پاکستان سے وابستہ رہے…
….ریٹائر ہونے کے بعد خانہء فرہنگ ایران لاہور میں خدمات انجام دیں….اس کے علاوہ اردو زبان میں شکیسپیئر کے بھی متعدد تراجم تحریر کئے.
ایک اور منفرد ادبی کارنامہ یہ رہا ہے کہ بے شمار زبانوں پر عبور رکھنے، تراجم شرحیں تحریر کرنے ، معلمی کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ نونہالان وطن کے لئے بھی کلام کہا……بچوں کی ذہنی سطح کے عین مطابق سادہ و سریلے نغمات پیش کئے ….جھولنے، ٹوٹ بٹوٹ اور ٹال مٹول کے گیت کئی نسلوں کو محبوب رہے ہیں …متعدد نظمیں ..تعلیمی مدارج کے نصاب میں شامل کئے گئے…ٹوٹ بٹوٹ کا لافانی کردار تخلیق کیا جس کا اردو ادب میں کچھ ثانی نہیں…..

جنگ ستمبر کا جب بھی ذکر ہوگا، صوفی تبسم کے جنگی ترانوں اور نغمات کے بغیر ادھورا رہے گا…حب الوطنی سے سرشار ان نغمات میں ایک بانکپن ہے …ایک جذبہ ہے جس نے فوجی جوانوں کے ساتھ ساتھ پوری قوم کے دلوں کو گرما دیا..
اے پتر ہٹاں تک نئیں وکدے
میر ڈھول سپاہیا
کرنیل نی جرنیل نی
میر سوہنا شہر قصور
فارسی زبان سے شیفگتگی کے باوجود صوفی تبسم نے نئے زمانے کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اردو لغت میں بے شمار قیمتی اضافے کئے….الفاظ و تراکیب پیش کیں …سید وقار عظیم کی معاونت میں دفتری استعمال کے لئے اردو زبان کو آسان اور جامع بنایا…..
ان اعلی و ارفع علمی و ادبی خدمات پر بے شمار سرکاری اور نجی اعزازت حاصل کئے…
حکومت پاکستان نے ستارہء امتیاز اور تمغہء حسن کارکردگی سے نوازا.
حکومت ایران نے نشان سپاس سے نوازا..

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک اندازے کے مطابق کل اکتیس کتب تحریر فرمائیں جن میں کچھ حسب ذیل ہیں.
انجمن..مجموعہءکلام
دامن گل.مجموعہء کلام
سر اشک تبسم
نظراں کردیاں گلاں
نقش اقبال
دو گونہ
قتیلان غالب
وغیرہ وغیرہ
اپنے مایہء ناز خصوصی حلقہء احباب اور معاصر ادب مثل امتیاز علی تاج، پطرس بخاری، چراغ حسن حسرت، حفیظ جالندھری مجید لاہوری, ایم ڈی تاثیر ، اور عبد الرحمن چغتائی کے ساتھ ہمیشہ بیسویں صدی کا یہ قادرالکلام ستارہ، علمی و ادبی خدمات کے باعث آسمان ادب پر جگمگاتا رہے گا… ان کے ہی شعر پر مضمون کا اختتام کیا جا سکتا ہے ..
چھوڑ کر آئے تھے جب شہر تمنا ہم لوگ
مدتوں رہ گزاروں نے پکارا ہوگا

Facebook Comments

حبیبہ طلعت
تجزیہ نگار، نقاد اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply