خسرو:موازنۂ شعر و موسیقی۔۔۔۔معین نظامی

عبقری کا سا کوہ پیکر اور بے کراں لفظ بھی حضرت امیر خسرو کی ابتکاری جامعیت کے سامنے پرِ کاہ سا لگتا ہے. شاعری، موسیقی، تصوف، ثقافتی تنوع اور مزاجی جاذبیت میں امیر خسرو کا جمال و کمال شاید پوری طرح احاطۂ تحریر و تقریر میں نہیں آ سکتا، اسی لیے ابھی تک نہیں آیا. ان کی شخصیت، فکر و فن، خدمات اور اثرات پر دنیا بھر میں بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ مجھ ایسوں کی اچھی طرح تشفی نہیں ہوتی.
امیر خسرو کا ایک خوب صورت قطعہ پیشِ خدمت ہے جو ان کی برجستہ گوئی کا عمدہ نمونہ ہے. اس میں کسی گلو کار سے ان کا ایک علمی و فنی مکالمہ درج ہے اور شعر و موسیقی کے مابین موازنے پر ان کے کچھ خیالات بیان ہوئے ہیں.
شعری قیود کی اپنی محدودیت ہوتی ہے جس نے خسرو کو اس موضوع پرتحقیقی شرح و بسط سے اظہارِ خیال نہیں کرنے دیا، اس کے باوجود جتنا کہا گیا ہے، وہ بھی بہت خوب ہے. شعروں میں لفظ و معنی کا استحکام تو قابلِ داد ہے ہی، بین السطور میں رواں دواں وہ شوخی اور وارستہ پن بھی کچھ کم لطف انگیز نہیں جو خسرو کی پہچان ہے اور جو آخری شعر میں بڑے ڈرامائی انداز میں کھل پڑا ہے. فارسی شاعری کی تاریخ میں اس موضوع پر یہ اشعار غالباََ اولیت کا شرف رکھتے ہیں:
مطربی می گفت خسرو را کہ ای گنجِ سخن
علمِ موسیقی ز علمِ شعر نیکو تر بوَد
ایک گلوکار خسرو سے کہتا تھا کہ اےعظیم شاعر، فنِ موسیقی فن شاعری کے مقابلے میں زیادہ اچھا اور اہم ہے.
زان کہ آن علمی ست کز دقّت نیاید در قلم
لیکن این علمی ست کاندر کاغذ و دفتر بوَد
اس لیے کہ فنِ موسیقی اپنی لطافت و نزاکت کے باعث قیدِ تحریر میں نہیں آتا، جب کہ شاعری کاغذوں اور بیاضوں میں لکھی جاتی ہے.
پاسخش دادم کہ من در ہر دو معنی کامل ام
ہر دو را سنجیدہ بر وزنی کہ آن درخور بوَد
مَیں نے اسے جواب دیا کہ مَیں دونوں فنون میں کامل ہوں، مَیں نے موسیقی اور شاعری دونوں کو شایانِ شان طور پر پرکھ رکھا ہے.
نظم را کردم سہ دفتر ور بہ تحریر آمدی
علمِ موسیقی سہ دفتر بود ار باور بوَد
شاعری میں میرے تین دیوان آ چکے ہیں اور اگر موسیقی کی باریکیاں بھی لکھتا تو مانو وہ بھی تین دفتر تو ضرور ہی ہو جاتے.
فرق گویم من میانِ ہر دو، معقول و درست
گر دہد انصاف آن کز ہر دو دانشور بوَد
مَیں ان دونوں فنون میں درست اورمعقول فرق بیان کرتا ہوں تا کہ جو لوگ ان دونوں سے واقف ہیں، وہ انصاف کر سکیں.
نظم را علمی تصور کن بہ نفسِ خود تمام
کو نہ محتاجِ اصول و صوتِ خنیا گر بوَد
شاعری کو ایک ایسا علم جانو جو بہ جائے خود مکمل ہے، وہ گائکوں کی فنی مہارت اور آواز کا محتاج نہیں ہے.
گر کسی بی زیر و بم نظمی فرو خوانَد، روا ست
نی بہ معنی ہیچ نقصان، نی بہ نظم اندر بوَد
اگر کوئی شخص صدا کاری کے بغیر شعر پڑھتا ہے تو کوئی مسئلہ نہیں، نہ شاعری مجروح ہوتی ہے، نہ اس کے معانی کو کوئی فرق پڑتا ہے.
ور کند مطرب بسی ہان ہان و ہون ہون در سرود
چون سخن نبوَد، ہمہ بی معنی و ابتر بوَد
اور کوئی گویّا گانے میں چاہے جتنی بھی ہاں ہاں ہُوں ہُوں کرتا رہے، جب اس میں کلام ہی شامل نہیں ہو گا تو اس کی وہ سب ہنر نمائی بے معنی اور ناقص ہو گی.
نای زن را بین کہ صوتی دارد و گفتار نی
لاجَرَم در قول محتاجِ کسی دیگر بوَد
بانسری بجانے والے ہی کو دیکھ لیجے کہ اس کی آواز تو ہوتی ہے، کلام نہیں. سو کلام کے لیے اسے ناچار کسی دوسرے کی محتاجی ہوتی ہے.
پس در این معنی ضرورت صاحبِ قول و سماع
از برای شعر محتاجِ سخن پرور بوَد
لہذا اس معاملے میں گانے بجانے والے لوگ کلام کے لیے شاعروں ہی کے محتاج ہوتے ہیں.
نظم را، حاصل،عروسی دان و نغمہ زیورش
نیست عیدی گر عروسِ خوب بی زیور بوَد
مختصر یہ کہ شاعری کو کوئی دلہن جانیے اور خوش آوازی و موسیقی کو اس کا آرائشی ساز و سامان. خوشی کے موقعوں پر خوب صورت دلہنیں آرائش نہ کریں تو موقع نہیں سجتا.
من کسی را آدمی دانم کہ دانَد این قدر
ور نداند، پرسد از من، ور نپرسد، خر بوَد
مَیں تو اسے ہی انسان مانتا ہوں جو اتنا تو جانتا ہو. اگر اسے علم نہ ہو تو مجھ سے پوچھ لے، اور اگر نہ پوچھے تو گدھا ہی ہو گا.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply