سی پیک(CPEC)_ ابہام اور مغالطے

جب کوئی قوم مایوس ادوار کے وسیع تجربات سے گزرتی ہے، تو انکا مزاج من حیث القوم واہموں کی زد میں آ جاتا ہے- یوں ہر چیز کا منفی پہلو نکالنا اور اس سے متعلق مغالطے پهیلانا قومی و انسانی خدمت سمجھ کر انجام دینے کا بیڑا اٹهایا جاتا ہے- اپنی صلاحیتوں سے نا آشنا قومیں اپنے مستقبل کو واہموں اور خدشات کی نذر کردیتیں ہیں- اور ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد جب پیچهے مڑ کے دیکها جاتا ہے تو معلوم پڑتا ہے، غلط فہمیوں کے الاومیں قومی وجود جهلس رہاہے اور نئی نسلیں ماضی کے مانے جانے قومی ہیروز کو بهی کٹہرے میں کهڑا کردینا چاہتی ہیں-
بعینہ یہی معاملہ آج کل وطنِ عزیز میں سی پیک(CPEC) کے ساتهہ ہو رہاہے- ہم اپنےتوہمات اور چند رٹے رٹائے نظریات کی بهینٹ چڑهاکر قوم کو مایوسی کی دلدل میں پهینکنا چاہتے ہیں- خالصتاَََایک معاشی معاملے اور ضرورت کو آزادی اور غلامی کی اپنی خود ساختہ تعریفوں کے مقابلے میں کهڑا کر رہے ہیں. کسی کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا کہ چین بڑی چالاکی سے شاید وطنِ عزیز کی آزادی کے در پے ہے، اوربعید نہیں کہ چین پاکستانی قوم کو معاشی قبرستان میں دفن کردے- کسی کو اپنی مذہبی فکر میں پڑهائی گئی یاجوج ماجوج کا خطرہ ستا رہاہے، اور سی پیک کو قیامت کی ایک نشانی سے تعبیر کیا جا رہاہے- کسی کو گرم پانیوں پر قبضے کی پریشانی درپیش ہے، گویا پوری دنیا میں همارے ہاں پائی جانے والے گرم پانی کی ایسی دهوم ہے، کہ سب ملکر ہم پر جهپٹنے کے لئیے پر تول رہے ہیں-
بڑا المناک امر ہے کہ ہم بحیثتِ قوم سازشی ذہنیت کے سمندر میں غوطہ زن ہیں-
ہم نے شعوری یا لاشعوری طور پر یہ تہیہ کر رکها ہےکہ کسی معاملے میں بهی حقیقت کی زمیں پر کهڑے ہوکر حالات کا غیر جانبدار اور منصفانہ تجزیہ نہیں کرینگے- ہر پیش آنے والے معاملے میں ضرور کوئی نا کوئی منفی پہلو نکال کر مغالطوں کی داستانیں رقم کرنا ہمارا عمومی رویہ بن چکاہے- ایک لمحے کے لئیے ہمیں ان مغالطوں اور خود ساختہ نظریا ت کے خول سے نکل کر سوچنا چاہیئے کہ دنیا میں قومیں معاشی معاملات میں درست فیصلوں سے غلامی میں نہیں گهرتیں بلکہ خوشحالی اور آزادی کا سورج دیکهتی ہیں- معاشی میدان میں مشترکہ پروجیکٹس اس وقت دنیا میں لامتنازعہ ضرورت بن چکی ہیں- بندوق کی نوک پر آزادی چهیننے اور معاشی لحاظ سے بدبو دار تالاب کو بہاو کا راستہ فراہم کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے- چین ہماری کنپٹی پر بندوق رکھ کر نہیں اتر رہا، بلکہ ایک باقاعدہ عمل کے ذریعے خود کو بهی ہمارے ساتھ معاہدات میں باندھ رہاہے- معاشی لحاظ سے ایک اپاہج قوم کے لئیے اس قسم کے پرجیکٹس تریاق سے کم نہیں ہوتے- ایسٹ انڈیا کمپنی کے برصغیر میں کردار اور اس پروجیکٹ کا موازنہ کر کے غلامی کا طبل بجانے والوں کو اس دوراور آج کے زمینی حقائق کا بهی ادراک کرنا چاہیئے- مغل دور میں مسلمانوں کی سیاسی ساخت موجودہ چین یا کسی بهی بڑی طاقت کے برابر تهی، جبکہ آج کا پاکستان سیاسی اور معاشی معاملات میں چین کا عشر عشیر بهی نہیں-
موجودہ دور معیشت کے میدان میں آگے بڑه کر دنیا کی بڑی اقوام کی صف میں شامل ہونے کا ہے- ایسے دور میں چهوٹی یا بڑی کسی بهی معاشی سکیم سے علیحدگی قومی خودکشی کے برابر ہے- دنیا بهر کی اقوام معاشی بلاکس بنا رہی ہیں، اول اول تو ہماری “نیک نامی ” کی وجہ سے کسی نے گهاس نا ڈالی، اللہ اللہ کرکے چین نے ہمیں اپنا معاشی پارٹنر بناکر ہمیں ایک پیداواری سرگرمی میں ساتهہ لیا، تو ہم نے اسکوبهی بد نیتی کی عینک لگا کر دیکهنا شروع کردیا ہے-
اس میں کیا دو رائے ہو سکتی ہے کہ سی پیک چین کے معاشی مفادات کے حصول کے لئیے ایک پل کا کردار ادا کریگا، لیکن اس میں کونسا ابہام ہے، کہ معاشی لحاظ سے ایک خالی قوم کے لئیے بهی اس میں بے پناه فوائد ہیں- معاشی معاملات کی تو بنیاد ہی باہمی تعاون پر ہوتی ہے- شاید ہم اس میں ہیں کہ چین اپنا اربوں پیسہ لگا کر ہمیں اپنا سب کچهہ سونپ کرصرف تماشائی بنا رہےگا- یہ محض ہماری کج فہمی اور خوش خیالی ہے- اس معاشی منصوبی کی کامیابی سے نا تو کسی کی آزادی کو خطرہ ہے، نا ہی کو ئی مذہبی اندیشہ لاحق ہونا چاہیئے- یہ ایک خالص معاشی معاملہ ہے، جس میں جڑے دونوں فریقوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں- پاکستان کی طرف سے اس پروجیکٹ کو متنازعہ بنا نے میں خود ہما را قصور ہے-
اگر تو ہمارے پاس کوئی ایسی جادو کی چهڑی ہے، جس کو گهما کر ایک دن معاشی طاقت کے طور پر ابهر سکتے ہیں، تو پهر ان سب خدشات اور توہمات کے سامنے سرِتسلیم خم- لیکن اگر ہم ایک معاشی ڈهانچہ ہیں تو پهر اس قسم کے پروجیکٹس ہماری اولین ضرورت ہیں- چین دنیا میں ایک مسلمہ معاشی طاقت ہے- دینا بهر کی اقوام انکے ساتھ معاشی جوائنٹ ونچرز کے لئیے تیار ہیں- پهر ہماری جیسی کمزور اور نحیف قوم کس زعم میں مبتلا ہے، سمجھ سے بالاتر ہے- اگر بحیثتِ قوم اس قسم کے معاشی پروجیکٹس بهی ہماری غیرت و حمیت پر بارِ گراں ہے، تو پهر اٹھ کر خود کو اس قابل بنا ئیں، کہ ہم بهی کسی ملک میں اتنی بڑی انویسٹمنٹ کرنے کا کارِ ثواب انجام دے سکیں- علم جس کو ہم اپنی کھوئی ہوئی میراث کہتے ہیں، اسکی ڈهونڈ میں نکل کهڑے ہوتے ہیں- تاکہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواکر دنیا میں اپنی مرضی کے فیصلے کرسکیں، اور اپنی صوابدید پر معاہدات طے کر سکیں- اور جبکہ ایسا نہیں ہے، تو اپنی حالت اور حیثیت دیکھ کر اپنی قوم کو مغالطوں میں ڈهالنے کی بجائے، صحیح راستے کی نشاندہی کروائیں-

Facebook Comments

شہزاد خان
میں ایگ جیتا جاگتا انسان ہوں، ایک گنہگار مسلمان اور اس عظیم ہستی کا ادنا سا بندہ ہوں، بحیثیتِ شہری پاکستانی ہوں: اسکے علاوہ میری کوئی نسلی، گروہی، لسانی شناخت قابلِ ذکر و بیان و افتخار نہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply