دہشت گردی،آخر کب تک؟

دہشت گردی،آخر کب تک؟
ثمینہ رشید
آج پانچواں دن ہے اور آٹھواں دھماکہ۔بے گناہوں کا لہو ہے کہ روز سڑکوں، عدالتوں، محلوں اور مزاروں پہ بہایاجارہا ہے۔ حکمرانوں کے پاس بہانے ہیں مذمت ہے اور کھوکھلے نعرے۔ کیونکہ بہتا لہو ان کے کسی پیارے کا نہیں اور عوام تو ہیں ہی قربانی دینے کے لئے۔ ایک شہادت کا ٹائٹل ہے اور چند لاکھ روپوں کا اعلان جو ان کے لواحقین کو مل بھی پاتا ہے یا نہیں کبھی خبر نہیں ہوتی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج بے گناہوں کا لہو بہانے والے بزدلوں نے لعل شہباز قلندر کے مزار کا انتخاب کیا ہے۔ جمعرات کا دن اور سیہون شریف کے مزار پہ آنے والے زائرین کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے صرف دھمال ڈالنے والوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق ہزار سے بارہ سو کے درمیان تھی۔ اس دوران اس ہال میں دھماکہ ہوا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق شہید ہونے والوں کی تعدادپچاس سے زائد اور زخمیوں کی تعداد سو سے زائد ہوسکتی ہے۔ ستم یہ ہے کہ ایک ایسی جگہ جہاں زائرین کی اتنی بڑی تعداد آتی صرف ایک ہسپتال ہے ۔ جو اس طرح کی ایمرجنسی سے نمٹنے کے قطعی ناکافی ہے۔
طبی سہولتوں کے نہ ہونے کی وجہ سے خدشہ ہے کے زخمیوں کو مناسب اور بروقت طبی امداد نہ ملنے کے سبب مرنے والوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔قریب ترین ہسپتال حیدرآباد اور جامشورو یا نوابشاہ ہے۔ یہ ہیں ہماری عوامی جمہوری حکومتیں اور ان کی ترجیحات کی منہ بولتا ثبوت۔
ابھی شاہ نورانی کے مزار پر دھماکہ ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ جہاں نہ بجلی تھی نہ ایمبولینس نہ ہسپتال تھے نہ ڈاکٹر۔ مرنے والے کس بے بسی سے مرے تصور کرنا محال ہے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں نے کیا سیکھا۔ کیا مزاروں کی سیکیورٹی بڑھائی گئی ؟کیازائرین کی تلاشی کا اہتمام کیا گیا یا ایک اور حادثے پہ لاشیں اٹھانے کا انتظام کرنا شاید نسبتا ًآسان ٹھہرا۔
سماء چینل کے تیمور کی ماں کےآنسو ابھی خشک نہ ہوئے تھے کہ لاہور میں تیرہ فروری کو ایک بار پھر صحافیوں اور سیکیورٹی ایجنسیز کو نشانہ بنایا گیا، ابھی تو کیپٹن مبین زیدی شہید کے بچوں کو پرسہ دینے والوں کے دل بوجھل تھے کہ اجل پھرکئی بے گناہوں کی موت کا پیغام لے آئی ہے ۔
دشمنوں کے حوصلے اتنے بلند ہیں کہ بارہ فروری کو خالد خراسانی نے اپنے یو ٹیوب چینل پہ باقاعدہ اعلان کرکے روزانہ کی بنیاد پہ بے گناہوں کا خون بہانے کا اعلان کیا۔ اور وہ مسلسل ایجنڈے پہ کام کر رہے ہیں۔ حکومت، فوج، انٹیلیجنس ایجنسیز نے اس ضمن میں اگر کچھ کیا بھی ہے تو وہ فی الحال نظروں سے اوجھل ہے۔ بے رحم اور تیز ترین بدلے کا وزیراعظم نے جو اعلان کیا تھا وہ فی الحال کاغذی اعلان سے زیادہ کچھ نہیں ۔ سوشل میڈیا پہ جماعت الاحرارکے لوگ کھلے عام بے گناہوں کو ٹارگٹ کرکے ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے ہیں اور حکومت کسی ایک کو بھی گرفتار کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ بیس کروڑ آبادی کے اس ملک کی فوج اور ایجنسیز جو دنیا کی صف اوّل کی فوج اور ایجنسیز میں شمار کی جاتی ہیں وہ آخر کس مجبوری کا شکار ہیں۔ حکومتیں کب تک دہشت گردوں کے بجائے پتنگ اڑانے اور ویلنٹائن منانے والوں کو خلاف کارروائی کو اپنی پہلی ترجیحات میں رکھے گی؟حکمرانوں کی ترجیحات کیا ہیں اور کیا ہونا چاہیے کون طے کرے گا؟
اب ہمارے بچے، ہمارے عوام، ہمارے صحافی، ہماری پولیس، ہمارے وکیل، ہمارے ججز کون محفوظ رہا ہے۔ خدارا ان دو فیصد حکمرانوں پہ بھروسہ چھوڑدیں جو قلعہ بند ہوکے بیٹھے ہیں۔ باہر نکلئیے اور آواز اٹھائیے۔ ایسے لوگوں کو حکمران کہلانے کا کیا حق ہے جو اپنی عوام کی زندگیوں کو تحفظ نہ دے سکتے ہوں۔ ہزاروں لوگوں کی جانیں گنوادینے پہ جہاں ایک وزیر استعفیٰ نہ دیتا ہو۔ اخلاق کی اس نچلی سطح پہ رہنے والے ان حکمرانوں سے اچھائی کی امید کب تک رکھی جائے؟
چہرے بدلتے ہیں پالیسیاں نہیں۔ نعرے لگتے ہیں بیان بازیاں ہوتیں ہیں اقدامات نہیں۔
الیکٹرونک، پرنٹ اور سوشل میڈیا سب کے ہم آواز ہونے کا وقت آگیا ہے۔ خدا کے لئے رینکنگ اور ریٹنگ کا کھیل چھوڑ دیں کہ آگ اب ہمارے دامن تک آ پہنچی ہے۔

Facebook Comments

ثمینہ رشید
ہم کہاں کہ یکتا تھے، کس ہنر میں دانا تھے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply