کچی مٹی تو مہکے گی۔۔روبینہ فیصل

پاکستان کی یونیورسٹی کے دو بچوں کی ایک ویڈیو پر ،جس میں وہ ایک دوسرے کو پھول دے رہے ہیں اور گلے مل رہے ہیں ردِ عمل دینے سے پہلے رُک جائیں اور سوچیں کہ ردِعمل دینا کیا ہے اور کیا اس سے پہلے جو کچھ بھی ہورہا تھا جو اس قسم کے ماحول کی بنیاد بنا،ہم نے اسے روکا ؟ ہم نے احتجاج کیا ؟ ہم کبھی ایسی باتوں پر مزاحم ہوئے ؟

سیاست کا ڈرامہ ہو یا ٹی وی فلم کا ،ہماری زندگیوں میں اس کا بڑا کردار ہے تو بات ان ہی کی کرتے ہیں کہ کیسے یہ دو ادارے آنے والی نسلوں کی تربیت کر رہے ہیں ۔۔

انگلی اٹھانی تھی تو اس وقت اٹھائی جاتی جب سیاست میں ایک دوسرے کی کردار کشی بمعہ ثبوت کے کی گئی یعنی جس میں شک کی گنجائش ہی نہیں رہ گئی یعنی ہمارے ملک کی پالیسی بنانے والوں کے کرتوت ان سے دو شوخ و چنچل بچوں سے کہیں آگے ہیں۔۔

شور پڑا سب نے دیکھا بھی  پھر کہ نواز شریف نے فلاں کا گھر تڑوا دیا ۔پھر مصطفی کھر شہباز شریف کا ریکارڈ یہ ہے کہ جو بھی پسند آجائے کنواری ہو تو بہت اچھا ہے مگر شادی شدہ بھی ہو تو کیا حرج ہے طلاقیں کروا کر اپنے گھر بسانے میں ناموری کما چکے ہیں،بے نظیر کی سٹوڈنٹ لائف کے بارے میں آپ ہی لوگوں نے بتایا تب ہم سٹوڈنٹ تھے جب وہ فلائر اُڑتے اُڑتے ہم تک بھی پہنچتے تھے، انہیں دیکھ کر ہم سوچا کرتے تھے پاکستان میں تو یہ کبھی بھی وزیر اعظم بننے میں کامیاب نہیں  ہوسکتیں، ایسی حرکتوں کے ایکسپوز ہونے کے بعد ،مگر وہ بنیں ایک بار نہیں بلکہ بار بار ،پھر عمران خان کے ڈنکے بجے ،خوب گند اچھالا گیا، دنیا بھر میں بچے اکھٹے کر کے نام کے آخر میں خان ثابت کیا گیا، وہ بھی ہم معصوموں کی نظر میں تاحیات نااہل سمجھے گئے ۔۔

لگتا تھا ساڈے ولوں نہ ہی اے ۔۔مگر آج وہ وزیر اعظم ہیں، میں نے غلام محمد،بھٹو ،یحیی وغیرہ وغیرہ کو ابھی ٹچ نہیں کیا کیوں کہ نئی نسل کو تو بھٹو کی شکل میں بھی صرف بلاول ہی دیکھنے کو ملا ہے اور اس پر عورتوں کے معاملے میں کرپٹ ہونے کا شور نہیں بلکہ ان کی کڑیاں مولوی صاحبان سے جا ملتی ہیں، منافقت اور اوپن سیکرٹ کے کھیل نیارے، کوئی ہے مائی کا لال جو اسے بھی اسلامی جمہوریہ میں چیلنج کر سکے ؟

پھر شریف خاندان کی بیٹی کے خوب چرچے سنے ،نوجوانی میں ہی ایسی ات اٹھائی اور تعلیم کو کھلا دکھایا ،اردو میں کہتے ہیں لعنت ڈالی اور پیا دیس سدھاگئیں ۔ آج کے مخالفین اور کل کے مخالفین مگر آج کے سجن وہ بھی آج تک اس مصالحہ دار کہانی کو گھر گھر تک پہنچاتے ہیں ۔مگر وہ بھی آج آپ کی لیڈر ہیں ۔۔

ایسی باتوں کو اچھالا تو یوں جاتا ہے جیسے عوام اس بندے یا بندی کو رد کر دیں گے مگر ایسا ہوتا نہیں ہے یہ   نر اور مادہ شاہین ایسی بکواسوں کے بعد اور بلند پرواز کرتے ہیں اور کنٹینروں ٹرکوں پر چڑھ چڑھ کے یہ پیغام دیتے ہیں “ تے فیر کی ہویا “۔

یہ فیر کی ہویا ہمارے بچوں تک پہنچتا ہے کہ نہیں ؟؟؟۔۔

آگے چلیں آپ کے ٹی وی ڈراموں کی طرف آتے ہیں ہر دوسرے ڈرامے میں ایک لڑکا دو لڑکیاں چاہے ایک بہنوئی ہی کیوں نہ ہو ۔۔ دو لڑکے ایک لڑکی چاہے ایک لڑکی بہو ہی کیوں نہ ہو ۔۔ بچیاں ماں باپ کے سامنے چیخ چیخ کر رٹ لگا رہی ہیں کہ یہی لڑکا چاہیے، یہی لڑکا چاہیے اور ماں باپ سر جھکائے ہر ممکن مدد فرما رہے ہیں ،کہ بچی کو مطلوبہ مال مہیا ہوجائے کسی طرح ۔۔

آپ خاموشی سے یہ ڈرامے دیکھ رہے ہیں اور ان کی ریٹنگ آسمان کو چھو رہی ہے ۔ محبت کرنا محبت کے سین چاہے میاں بیوی کے ہی کیوں نہ ہوں، کھلے عام دکھائے جا رہے ہیں، سب دیکھ رہے ہیں،خوش ہورہے ہیں تو بچے بھی وہی دیکھ رہے ہیں اور سب کو خوش ہوتا دیکھ کر سوچ رہے ہیں کہ اسی میں خوشی ہے ۔۔ شو بز کی لڑکیوں کے لباس ۔۔ وینا ملک کو یاد کریں ماہرہ خان کی حالیہ تصویریں ، میرا کی ویڈیوز ، تمام اداکاروں کی ڈریسنگ ، سیکنڈلز ااس کے باوجود انسٹاگرام ٹوئٹر فیس بک حتی کہ ٹی وی پر ان کے چاہنے والوں کے ڈھیر کے ڈھیر ہیں ۔ اور ہر جگہ ان کی عزت افزائی ہے ، وینا ملک کی شادی کا ایک ایک سین ٹی وی پر لائیو دکھایا گیا تھا ۔ تعلیمی اداروں میں مہمان خصوصی یہی سیاست دان اور یہی اداکار یہی ٹی وی اینکرز ہوتے ہیں نا ؟ ۔

یہ سب پسند کرنے والے اس سب کو عزت دینے والے کون لوگ ہیں ؟ کون ہیں یہ؟ اور اگر ان سب کو پسند کیا جا رہا ہے دکھا یا جا رہا ہے اور سب سے بڑھ کر قبول کیا جا رہا ہے تو ان دو مشوم مشوم بچوں نے کیا انہونی کر دی ۔۔۔ جب ہر جگہ ہر مقام پر اس بات کی acceptability ہو چکی ہے تو تعلیمی اداروں کی دیواریں بھی کیسے اس سیلاب کو روک سکتی تھیں ۔۔

روکنا تھا تو پہلے ان سب کو روکتے جن کو نہیں روکا گیا بلکہ ان کے سروں پر تاج پہنا کر ان کو تحت نشین کیا گیا ۔

معاشرہ ایک کمہار ہوتا ہے ،ہاتھوں میں گیلی مٹی کو رولتا ہے اور اس سے شکلیں بناتا ہے ، ان دو بچوں کی صورت ہمارے ہاتھ وہ شکل لگی ہے جو ہمارے کمہار نے ہمیں بنا کر دی ہے۔

” کچی مٹی تو مہکے گی ،ہے مٹی کی مجبوری“۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(یہ ایک عکس ہے جو کچھ پاکستانی معاشرے میں ہورہا ہے اس میں میری ذاتی رائے شامل نہیں ابھی ۔۔ وہ ہوگئی تو سوچیں ذرا ۔۔)

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply