زنگار

زنگار
انعام رانا
بہت برس بیتے، اتنے کہ ابھی میرے سر پہ بال پورے تھے۔ ایک دن ایک حسین نوجوان کی تحریر نظر سے گزری اور چونکا گئی۔ پاکستان سے باہر بیٹھے، جب پاکستان سے واحد تعلق انٹرنیٹ ہی تھا تو روز ہر اخبار اور ہر کالم کو چاٹنا میری حب الوطنی کے عین مطابق تھا۔ ایسے میں ایسے ایسے کالم پڑھے کہ مجھ جیسے بھی کالم نویس ہو گئے۔ مگر کچھ لوگ اس پچھلے دس بارہ سال میں ایسے بھی ابھرے جو کسی وقتی تاثر یا جذباتیت کی وجہ سے نہیں، بلکہ اپنے "انٹیلیکٹ"، منفرد خیالی اور نئے پن کی وجہ سے ابھرے۔ ان ہی میں ایک بڑا نام عامر ہاشم خاکوانی ہے۔
عامر خاکوانی سے تعلق کا اگلا باب ان کا فیس بک پہ قارئین کے ساتھ بے حد ایکٹو ہونا تھا۔ ہمارے کالم نویس، نجانے کیوں، پرانی فلمی ہیروئنز کی طرح قارئین سے زرا فاصلہ پسند کرتے تھے۔ ایسے میں عامر خاکوانی نے قاری سے براہ راست رشتہ استوار کیا، اپنی تحریر کو احتساب کے لئیے پیش کیا اور تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ باقیوں کی طرح انھیں اپنی دانش کا پول کھلنے کا خطرہ نہیں تھا اور اپنے کہے پر مکمل اعتماد تھا۔ اسی لئیے وہ فاصلے مٹا کر قارئین کے بیچ آ کر بیٹھ گئے۔ اگر "استادان فن" قاری سے اس لئیے دور رہتے تھے کہ فاصلہ عزت قائم رکھتا ہے تو پچھلے کچھ سالوں میں عامر خاکوانی سی عزت شاید ہی کسی کالم نویس کے حصے میں آئی ہو۔

اسی دور میں عامر بھائی سے ایک ذاتی تعلق بھی استوار ہوا اور میری تحریر انکی تنقید اور ستائش سے نکھرتی رہی۔ اسی دور میں مجھے اندازہ ہوا کہ یہ شخص پٹھانوں سی وجاہت و انا اور سرائیکی وسیب کی حلاوت و حلم کا ایک بہترین امتزاج شخصیت ہے۔ میں لاہور میں ان سے ملا تو اندازہ ہوا کہ "نیڈو بے بی" جیسی معصومیت والی شکل کے ساتھ ساتھ سونے کا دل بھی رکھتے ہیں۔ عامر بھائی کی سب سے خوبصورت بات کہ خود کو حتمی اور "خاتم الکالم نویسین" سمجھ کر بات نہیں کرتے کہ "مستند ہے میرا فرمایا ہوا"۔ بلکہ آج بھی ایک طالب علم کی سی جستجو انکی شخصیت اور تحریر میں نظر آتی ہے۔ شاید اسی لئیے خواہ اختلاف بھی ہو، تحریر سیدھی دل میں اتر جاتی ہے۔
جہاں لوگوں نے پچاس سو ایسے کالم لکھ کر کہ "میں امریکہ پہنچا تو آپا زبیدہ کے میاں شکور مجھے ایرپورٹ لینے آئے جو ٹیکسی چلاتے ہیں اور کرایہ بہت مناسب ہے، قارئین نمبر نوٹ فرما لیں"، کتابیں چھپوا لیں(آپا زبیدہ کے میاں شکور کی ہی ٹیکسی کی کمائی سے)۔ وہاں عامر خاکوانی نے غالب کی طرح انتظار کیا کہ بہترین انتخاب پیش کریں۔ عامر بھائی کے مداحین کو مبارک ہو کہ "زنگار" کے نام سے انکے کالموں کا انتخاب شائع ہو گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کالم شاید صحافت کی واحد ایسی صنف ہے جو وقت کی گرد سے محفوظ رہ سکتی ہے۔ مگر کون سا کالم؟ وہ کالم جو لفافے، غرض، حماقت، خوشامد یا پروپیگینڈے کا نتیجہ نا ہو۔ بلکہ وہ کالم جو وقت کے فرعون سے لے کر رائج نظرئیے تک کو للکار سکتا ہو، جو حالات کا تجزیہ یوں کر سکتا ہو کہ بعد ازاں تاریخ کے طالب علم کیلیے ریفرینس بن جائے۔ عامر بھائی کی تحاریر بلاشبہ اس کڑے معیار پر بھی پوری اترتی ہیں اور ادبی چاشنی بھی رکھتی ہیں۔ دوستو، آئیے "زنگار" کا استقبال کریں۔ مفت نہیں، خرید کر۔ اس لئیے نہیں کہ اس سے عامر خاکوانی کروڑ پتی ہو جائیں گے۔ جو شخص آج تک "کالم بیچنے کا ہنر" نا سیکھ پایا وہ کتاب بیچ کر کیا کما لے گا۔ بلکہ اس لئیے کہ یہ استقبال ثبوت ہو گا کہ ہم عامر خاکوانی جیسے قلم کے وفادار صحافی پسند کرتے ہیں، غزوہ ہند کے بیوپاری نہیں۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply