وہ کون تھا؟۔۔پروفیسر رفعت مظہر

وہ کون تھا جس نے 2014ءمیں ملکی معیشت کو برباد کرنے کے لیے ڈی چوک اسلام آباد میں 126 روزہ دھرنا دیا؟ وہ کون تھا جس نے نوجوان نسل کو راغب کرنے کے لیے اپنے جلسوں میں ناچ گانے کو رواج دیا؟ وہ کون تھا جس نے دھرنے کے دوران سول نافرمانی کا اعلان کیا؟

وہ کون تھا جس نے سرِعام یوٹیلٹی بِلز جلائے اور بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ہُنڈی کے ذریعے رقوم بھیجنے کی تلقین کی؟ وہ کون تھا جو وزیرِاعظم ہاؤس پر حملہ آور ہوا اور پارلیمنٹ ہاؤس کے گیٹ تُڑوائے؟ وہ کون تھا جس نے پولیس سٹیشن پر حملہ کرکے اپنے کارکُن چھڑائے؟ وہ کون تھا جس نے پی ٹی وی پر قبضہ کیا؟ وہ کون تھا جس کے حکم پر شاہراہِ دستور کے فُٹ پاتھوں کی اینٹیں تک اُکھاڑ دی گئیں؟

وہ کون تھا جس کے کارکنان نے سپریم کورٹ کی دیواروں پر “پوتڑے” لٹکائے؟ وہ کون تھا جس نے اپنے کندھوں کی طرف اشارہ کرکے مخدوم جاوید ہاشمی کو کہا “وہ ہمارے ساتھ ہیں “؟ وہ کون تھا جو ہر روز امپائر کی اُنگلی کھڑی ہونے کی تاریخیں دیا کرتا تھا؟ وہ کون تھا جس کی وجہ سے چینی صدر کا دورہ منسوخ ہوا اور سی پیک جیسا گیم چینجر منصوبہ ایک سال تک التوا میں چلا گیا؟

وہ کون تھا جسے مسندِاقتدار تک پہنچانے کے لیے منصفِ اعلیٰ نے صادق وامین قرار دیا؟ وہ کون تھا جس کے لیے پولیٹیکل انجینئرنگ کی گئی، نیب، عدلیہ اور میڈیا کو اُس کے حق میں استعمال کرایا گیا؟ وہ کون تھا جس کے لیے 2018ءکے عام انتخابات میں پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ سٹیشنوں سے باہر نکالا گیا اور آر ٹی ایس سسٹم بٹھایا گیا؟ وہ کون تھا جس کی خاطر پاکستان کی چھوٹی سیاسی جماعتوں کو اُس کا ساتھ دینے کا حکم دیا گیا؟

وہ کون تھا جسے تین سال تک اسٹیبلشمنٹ نے گود میں بٹھائے رکھا؟ وہ کون تھا جس کی رعونت ونرگسیت مسندِ اقتدار کے حصول کے ساتھ ہی کھُل کر سامنے آگئی؟ وہ کون تھا جس کے ساڑھے 3 سالہ دورِ اقتدار میں کوئی ایک منصوبہ بھی پایہِ تکمیل تک نہ پہنچ سکا؟ وہ کون تھا جس کے بیشمار وعدوں میں سے کوئی ایک بھی ایفا نہ ہوا؟ وہ کون تھا جو مذہب کی آڑ میں گھٹیا سیاست کرتا رہا؟

وہ کون تھا جس نے بدزبانی، بدکلامی اور بدمزاجی کو رواج دیا؟ وہ کون تھا جو پاکستان کو دنیا میں تنہا کر گیا؟ وہ کون تھا جس کے دَور میں بین الاقوامی سرویز کے مطابق کرپشن پہلے سے بڑھ گئی؟ وہ کون تھا جو دوسروں کو چورڈاکو کہتا رہامگر “چور مچائے شور” کے مصداق اپنا دامن کرپشن سے آلودہ کر تا رہا؟ وہ کون تھا جو توشہ خانے کے سارے تحائف بیچ کر ڈکار گیا؟

وہ کون تھا جس نے سعودی شہزادے کی تحفے میں دی گئی گھڑی تک بیچ کھائی؟ وہ کون تھا جودعوے تو ریاستِ مدینہ کی تشکیل کے کرتا رہامگر نازک مزاج اتناکہ گھر سے ایوانِ وزیرِاعظم ہاؤس تک آنے جانے کے لیے 3 سال میں صرف ہیلی کاپٹر پر 98 کروڑ روپے صرف کر گیا؟ وہ کون تھا جس کی بَدانتظامی کی بدولت لوگ نانِ جویں کے محتاج ہوگئے؟ وہ کون تھا جس کے دور میں سی پیک پر کام بند ہوا؟

وہ کون تھا جس نے اپنے دَور میں لگ بھگ اُتنا ہی قرضہ لیا جتنا 71 سال میں لیا گیا؟ وہ کون تھا جس نے ملکی معیشت کو تباہ کر دیا اور سٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا؟ وہ کون تھا جس کے دَور میں 65 صدارتی آرڈیننسز کے ذریعے مَن مانی کی گئی؟ وہ کون تھا جس نے بالآخر کہہ دیا کہ ملکی حالت ٹھیک کرنے کی صرف اُس کی ذمہ داری نہیں؟

وہ کون تھا جسے آئینی طریقے سے مسترد کیا گیا تو اُس نے ایک دفعہ پھر سڑکوں کا رُخ کیا؟ وہ کون تھا جو اپنے محسنوں کو میر جعفر ومیرصادق جیسے القاب سے نوازتا رہا؟ وہ کون تھا جو سرِعام “نیوٹرلز” کو جانور کہتا رہا؟ مگردوبارہ گود میں آنے کے لیے دَرپردہ “نیوٹرلز” ہی کی منتیں کرتا رہا؟ وہ کون تھا جوجعلی امریکی خط لہرالہرا کرغداری کے سرٹیفیکیٹ بانٹتا رہا؟

وہ کون تھا جس کے حکم پر قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر نے 3 اپریل کو آئین کی صریحاََ خلاف ورزی کی؟ وہ کون تھا جس کی وجہ سے 9 اپریل کو رات 10 بجے عدالتیں کھلیں، ٹرپل وَن بریگیڈکی گاڑیاں پارلیمنٹ ہاؤس کے گرد گھومنے لگیں اور قیدیوں کی وین پارلیمنٹ ہاؤس کے گیٹ پر پہنچ گئی؟ وہ کون تھا جس کے بَدفطرت حواریوں نے مسجدِ نبوی کی بے حرمتی کی، پاکستانی پاسپورٹ اور پرچم نذرِ آتش کیے؟

وہ کون تھا جس نے کہا کہ اگر وہ وزیرِاعظم نہیں تو پاکستان کو ایٹم بم سے اُڑا دو؟ وہ کون تھا جو پاکستان کے تین ٹکڑے جیسی منحوس باتیں کرتا رہا؟ وہ کون تھا جس نے امریکی نیشنل اینکر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا “اگر اِس وقت اسٹیبلشمنٹ درست فیصلے نہیں کرے گی تو میں آپ کو لکھ کر دیتا ہوں کہ فوج سب سے پہلے تباہ ہوگی، ملک دیوالیہ ہو جائے گا، پاکستان کے 3 حصّے ہو جائیں گے؟”۔

وہ کون تھا جو بار بار کہتا رہا کہ اُسے جیل کا خوف ہے نہ موت کا لیکن وقت آنے پر اپنا ذاتی محل چھوڑ کر اہلیہ سمیت خیبرپختونخوا کے پرانے وزیرِاعلیٰ ہاؤس میں پناہ گزین ہوگیا؟ وہ کون تھا جس پر خوف کے ایسے سائے منڈلانے لگے کہ اُس نے پشاور ہائیکورٹ سے 25 جون تک حفاظتی ضمانت لی؟ وہ کون تھا جو اسٹیبلشمنٹ سے مایوس ہوا تو اُسی کے خلاف بَدزبانی پہ اُتر آیا؟ وہ کون تھا جو پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ کا لاڈلا بننے کی کوشش کرتا رہا؟

وہ کون تھا جس کے وزیرِاعلیٰ نے کہا کہ اگر اُس کے لیڈر نے حکم دیا تو وہ خیبرپختونخوا کی فورس لے کر اسلام آباد پر حملہ آور ہو جائے گا؟ وہ کون تھا جس نے سپریم کورٹ کے حکم کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے کارکنوں کو ڈی چوک پہنچنے کا حکم دیا؟ وہ کون تھا جس نے اقرار کیا کہ لانگ مارچ میں اُس کے بہت سے کارکُن مسلح تھے؟ وہ کون تھا جس پر 2014ءمیں کسی نے ہاتھ ڈالااور نہ ہی تادمِ تحریر کوئی ہاتھ ڈالنے کی سکت رکھتا ہے؟ وہ کوئی اور نہیں عمران خاں ہے جو آج بھی بہت سے لوگوں کا ہیرو ہے۔

جو امربالمعروف کی تشریح کرتے ہوئے اپنے آپ کو نیکی کا سمبل قرار دے کرکہتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سمیت جو بھی اُس کا ساتھ نہیں دے گا وہ رَبِ کائنات کی حکم عدولی کرے گا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ دین میں ایک نئے فرقے کو جنم دینے کی تگ ودَو میں ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ ضیاءالحق نے اپنے ریفرنڈم کے لیے یہ سوال رکھا تھا “کیا آپ پاکستان میں اسلامی نظام چاہتے ہیں؟” اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کردیا کہ جس کا جواب ہاں میں ہو گا گویا اُس نے ضیاءالحق کو 5 سال کے لیے پاکستان کا صدر منتخب کر لیا۔

اب ظاہر ہے کہ جس ووٹر نے بھی ریفرنڈم میں حصّہ لیا، بطور مسلم اُس کا جواب نہ میں تو ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ یوں مذہب کی آڑ لے کر ضیاءالحق صدر بن گیا۔ اب عمران خاں بھی مذہب کی آڑ میں یہی کھیل کھیل رہا ہے لیکن ضیاءالحق کی حب الوطنی شک وشبہے سے بالاتر تھی جبکہ عمران خاں کی مشکوک۔ اُس نے کہا “اگر اسٹیبلشمنٹ نے درست فیصلہ نہ کیا” جبکہ اُس کے نزدیک درست فیصلہ یہی ہے کہ اُسے دوبارہ اقتدار میں لایا جائے اور اگر ایسا نہ ہوا توپاکستان کے 3 ٹکڑے ہوجائیں گے، فوج تباہ ہوجائے گی اور نیوکلیئر پروگرام ختم ہوجائے گا۔ ایسے شخص کو بھلا کون محبِ وطن کہہ سکتا ہے؟ حیرت مگر اِس بات پر ہے کہ ایسے خطرناک ترین بیانات کے باوجود حکومت خاموش “ٹُک ٹُک دیدم دَم نہ کشیدم ” کی عملی تصویر بنی ہوئی۔

ایک وزیرِداخلہ رانا ثناءاللہ ہے جو اُس کے خلاف ایکشن لینا چاہتا ہے لیکن اُس کے ہاتھ بھی کابینہ نے باندھ رکھے ہیں۔ دوسری فتنہِ عمرانیہ کے خلاف توانا آواز محترمہ مریم نواز کی ہے جو مُنہ توڑ جواب دیتی رہتی ہیں البتہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی طرف سے فی الحال کوئی ہل جُل محسوس نہیں ہو رہی۔

Advertisements
julia rana solicitors

قوم مگر عمران نیازی کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ یہ 1971ءنہیں کہ کوئی نیازی ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ملک کے 2 ٹکڑے کر کے ہماری عظمتوں کے تمغے نوچ سکے۔ یہ 2022ءہے جس میں قوم کم ازکم شعور کی اُس منزل تک ضرور پہنچ چکی ہے کہ بُرے بھلے کی پہچان کر سکے۔

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply