کشمیر کمیٹی اور ہمارا قومی رویہ

چند دن ادھر کی بات ہے ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ کے ساتھ کھانے کی مجلس میں بیٹھے تھے۔ سیاسیات پر گرما گرم بحث جاری تھی۔ آنجناب شد و مد کے ساتھ سیاسی پنڈتوں کی مخالفت کر رہے تھے۔ کیوں کر رہے تھے اور کن دلائل کے ساتھ کر رہے تھے یہ بتانے کی چنداں حاجت نہیں کیونکہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ وطن عزیز پاکستان کے ریٹائرڈ بیوروکریٹس کی عادت ہے کہ ساری زندگی جس فرسودہ نظام کے توسط سے مراعات سمیٹتے ہیں اور طاقت و حیثیت رکھنے کے باوجود کسی قسم کی درستگی کی کوشش نہیں کرتے ریٹائرمنٹ کے بعد اسی نظام کو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔ نظام سے ان کی نفرت ایسی کھلی ڈلی حقیقت ہے کہ کسی بھی ریٹائرڈ بیوروکریٹ کے ساتھ نشست سے پہلے آپ سو فیصد یقین کے ساتھ پیشن گوئی کر سکتے ہیں کہ آج نظام کی ایسی کی تیسی ہونے جا رہی ہے۔
بہرحال قصہ کوتاہ عرض یہ کر رہا تھا کہ سیاسیات پر گرما گرم بحث جاری تھی۔ اس دوران میں آنجناب نے بڑی خوبصورت بات کہی جو سیدھی دل کو جا لگی۔ کہنے لگے: ہمارے ہاں لوگ پارلیمانی نظام اور اس کے کام کرنے کے طریقہ کار سے واقفیت نہیں رکھتے یہی وجہ ہے کہ ایم این ایز ہوں یا ایم پی ایز، ہمیشہ عوام کی نظر میں ناکام کہلاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ایم این ایز یا ایم پی ایز سے سب سے بڑا مطالبہ سرکاری نوکری دلوانا ہوتا ہے حالانکہ نوکری اور ملازمت دلوانا عوامی نمائندوں کا کام نہیں بلکہ بنیادی طور پر نوکری اور ملازمت تعلیمی یا تکنیکی قابلیت کی بنیاد پر ملتی ہے۔ ہم نے فورا ًسوال داغا: تو پھر عوامی نمائندوں کا کام کیا ہے؟ کہنے لگے: عوامی نمائندوں کا کام ہے عوام دوست پالیسیاں اور ادارے بنائیں۔ سماج دوست قانون سازی کریں۔ خارجہ و داخلہ پالیسیوں میں ملک و قوم کی ترقی کو ہدف اول رکھیں اور بین الاقوامی سفارتی حلقوں میں پاکستان کا موقف بہترین طریقے سے اجاگر کرنے میں ہمہ تن کوشاں رہیں تاکہ سیاسی، سماجی، ثقافتی اور سفارتی سطح پر تنہائی کا شکار نہ ہوں۔ آنجناب کی دیگر کئی باتوں سے اختلاف کے باوجود ہمیں اس نکتے سے کامل اتفاق کرنے کے سوا چارہ نہ تھا۔ کیونکہ اسی نکتے سے ہم پارلیمانی کمیٹیوں کا دائرہ کار بلکہ طریقہ کار بھی نہایت آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کو سامنے رکھ لیں۔ عمومی فضا یہ ہے کہ شاید یہ کمیٹی کشمیر کو غاصب بھارتی فوج سے چھڑا کر آزاد کرانے کے لیے بنائی گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب جب کشمیر میں ظلم و ستم کی داستان لکھی جاتی ہے تب تب سوال اٹھتے ہیں کہ کشمیر کمیٹی کچھ کر کیوں نہیں رہی۔ مولانا فضل الرحمن کوجو کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں اس تناظر میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے حالانکہ سچائی یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن یا کشمیر کمیٹی کا استحقاق ہی نہیں کہ کشمیر میں جاری ظلم و ستم کو روک سکے یا براہ راست وہاں کے کسی خاص گروپ کی حمایت یا مخالفت کرنا شروع کر دے۔ کشمیر کمیٹی کا مقصد سفارتی سطح پر پاکستان کا کشمیر کے بارے میں موقف اجاگر کرنا ہے۔
کشمیر کمیٹی اس مقصد کے لیے سفارشات پیش کرتی ہے۔ مختلف قومی اور بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کا موقف پیش کرتی ہے۔وزیراعظم یا صدر پاکستان کو پاکستان سے باہر جہاں بھی مسئلہ کشمیر کے موضوع پر بات کرنی ہو انہیں بریف کرتی ہے اور داخلی طور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت پر سیاسی جماعتوں کا متفقہ لائحہ عمل ترتیب دینے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض موقع پرست سیاسی جماعتوں کے اراکین جوکہ کشمیر کمیٹی کا حصہ ہوتے ہیں اندرون خانہ ایک پالیسی پر متفق ہو جانے کے بعد بھی عوامی جلسوں یا میڈیا پروگرامز میں تند و تیزبیانات دے کر پوائنٹ سکورنگ کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
سال 2016 میں کشمیر کمیٹی کے سات اجلاس ہوئے اور سال 2017 کے پہلے ماہ میں بھی کمیٹی کے دو اجلاس ہو چکے ہیں،جن میں سب سے اہم اجلاس 20 جولائی 2016کو منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں کمیٹی کے اراکین کے علاوہ وفاقی وزیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان چوہدری محمد برجیس طاہر، سینیٹر مشاہد حسین، سینیٹر پرویز رشید، سینیٹر راجہ ظفر الحق اور سینیٹر ساجد میر نے خصوصی دعوت پر شرکت کی تھی۔ اس اجلاس کا ایجنڈا یوم سیاہ کے موقع پر بھارتی فوج کی ظالمانہ کارروائیوں کی شدید مذمت اور سید علی گیلانی کے چار نکاتی امن فارمولے کو انڈورس کرنا تھا۔ اس اجلاس نے متفقہ طور پر یہ قرارداد منظور کی تھی کہ مسئلہ کشمیر کے مستقل حل تک پاکستان مظلوم کشمیریوں کی بھرپور سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کرتا رہے گا۔ اس موقع پر اجلاس کے شرکاء نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لے اور غاصب بھارتی افواج کے ظلم و ستم کو فوری طور پر روکنے کے لیے اقدامات کرے۔
لیکن گروہی تعصبات کا شکار ہمارے سیاسی کارکنوں نے بجائے ان اقدامات کو پذیرائی بخشنے کے الٹا اپنی ہی قیادت اور کشمیر کمیٹی کی کاوشوں کوتنقیدکا نشانہ بنائے رکھا جس کا مقصد پوائنٹ سکورنگ کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ اس طرح کی سطحی اپروچ کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بین الاقوامی ادارے پاکستان کے موقف کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ اس سے ملتی جلتی صورتحال اس وقت بھی پیدا ہو گئی تھی جب گزشتہ برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف نے مسئلہ کشمیر کو بڑے بھرپور طریقے سے اجاگر کیا۔ یہاں تک کہ بین الاقوامی میڈیا نے بھی ان کی تقریر کو سراہا لیکن پاکستان میں اس موقع پر بھی چند لوگوں نے منفی انداز تنقید اپنا کر اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کی۔ جس کا فائدہ بھارتی میڈیا نے اٹھایا اور ان چند لوگوں کے بیانات کو بار بار چلا کر اپنے عوام کے ذہنوں سے پاکستانی وزیراعظم کی تقریر کے اثرات کو کھرچ ڈالا۔
اسی طرح کا ایک غیر ذمہ دارانہ رویہ جماعت الدعوہ کے امیر حافظ سعیدصاحب کی طرف سے بھی دیکھنے کو ملا، جب انہوں نے اپنی نظر بندی کو بھارت کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ بتلایا اور اگلے دن بھارتی اخبارات نے ان کا بیان شہ سرخیوں میں چھاپ کر اپنے عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ دیکھیے خود پاکستانی کہتے ہیں حکومت پاکستان مودی سرکار کے دباؤ میں ہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں بحیثیت قوم اپنے رویوں پر غور کرنے اور چیزوں کو مثبت انداز میں پیش کرنے کی عادت اپنانی چاہیے۔ تنقید بے شک کی جائے لیکن کب، کہاں اور کیسے کی جائے اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے وگرنہ ہم کبھی بھی بین الاقوامی برادری میں باشعور قوم کی حیثیت سے اپنی پہچان نہ بنا سکیں گے۔

Facebook Comments

وقاص خان
آپ ہی کے جیسا ایک "بلڈی سویلین"

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply