• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو/پروفیسر رفعت مظہر

دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو/پروفیسر رفعت مظہر

ہم عموماً حکومتی دفاتر میں جانے سے گریز ہی کرتے ہیں کیونکہ اِن دفاتر میں عوام کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے وہ اظہر مِن الشمس۔ خود ہمیں بھی یہ تلخ تجربہ ہوچکا جس کا ذکر ہم اپنے کالموں بھی کر چکے لیکن بعض اوقات مجبوری انسان کو گھیر کر اِن دفاتر کے طواف پر مجبور کر دیتی ہے۔ قصّہ یہ کہ ہم نے دورانِ ملازمت پنجاب گورنمنٹ سرونٹ ہاؤسنگ سکیم میں پلاٹ کی ممبرشپ حاصل کی۔ کافی عرصے بعد ہم نے اپنے ’’گمشدہ پلاٹ‘‘ کی تلاش کا ارادہ باندھا۔ اِس سکیم میں مظہرصاحب کی بھی ممبرشپ ہے لیکن وہ ہاؤسنگ سکیم کے دفتر جانے کے لیے مطلق تیار نہیں تھے۔ ہماری کوششیںاور کاوشیں رنگ لائیں اور بالآخر وہ طوہاََ وکرہاََ تیار ہوگئے البتہ گاڑی میں بیٹھتے ہی وہ بُڑبڑانے لگے اور یہ بُڑبڑاہٹ سارا راستہ جاری رہی۔ دفتر پہنچنے کے بعد ہمیں ڈاکٹر عاصمہ نازسے رابطہ کرنے کے لیے کہا گیا۔ جب ہم اُن کے پاس پہنچے تو ہمیں خوشگوار حیرت کا پہلا جھٹکا اُس وقت لگا جب اُنہوں نے مسکراتے ہوئے بیٹھنے کے لیے کہا۔ پھر حیرتوں کے جھٹکے ہی جھٹکے کہ ڈاکٹر عاصمہ نے نہ صرف ہماری باتیں غور سے سنیں بلکہ ہمارے فارم بھی خود ہی پُر کیے۔ اِس تمام عرصے کے دوران اُن کے چہرے پر فطری مسکراہٹ جمی رہی جو ہمارے لیے اچنبھے کی بات تھی کیونکہ حکومتی دفاتر میں تو ہمیشہ بے نیازیوںسے ہی واسطہ پڑتا ہے۔ واپسی پر ہماری سوچوں کا محور یہی تھا کہ کاش تمام حکومتی دفاترمیں عاصمہ ناز جیسے لوگوں سے ہی واسطہ پڑے۔

اب پلٹتے ہیں اپنے اصل موضوع ’’دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو‘‘ کی طرف۔ صدرِ مملکت کا عہدہ لائقِ تکریم ہوتا ہے کیونکہ یہ عہدہ سنبھالنے کے بعد وہ شخص پورے ملک کا صدر ہوتا ہے کسی سیاسی جماعت کا نمائندہ نہیں۔ صدر ڈاکٹرعارف علوی مگر تحریکِ انصاف کے دائرے سے باہر نکل ہی نہیں پائے۔ 2014ء کے ڈی چوک اسلام آباد میں دھرنے کے دوران اُنہوں نے عمران خاں کو مبارک باد دی کہ کارکنوں نے پی ٹی وی پر قبضہ کر لیا ہے۔ ہمیں نہیں یاد پڑتا کہ ڈاکٹر صاحب نے کبھی مثبت سیاست بھی کی ہو۔ 3 اپریل 2022ء کو جب ایک سازش کے تحت ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے وزیرِاعظم عمران خاں کے خلاف اپوزیشن کی تحریکِ عدم اعتماد کو غیرآئینی قرار دے دیا اور عمران خاں نے قومی اسمبلی توڑنے کا اعلان کر دیا تو یہ ڈاکٹر عارف علوی ہی تھے جنہوں نے صرف 20 منٹ اندر وزیرِاعظم کی سمری پر دستخط کر دیئے۔ اِس سازش کے خلاف سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے 7 اپریل کو فیصلہ سنایا کہ قاسم سوری، عمران خاںاورعارف علوی کے اقدام غیرآئینی ہیں۔ یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ ایوانِ صدر میں بیٹھا ہوا شخص آئین شکن بھی ہے۔دوسری طرف سپریم کورٹ کے حکم پر 9 اپریل کو تحریکِ عدم اعتماد پر لیت ولعل سے اُس وقت تک کام لیا گیاجب تک رات کو سپریم کورٹ کے دروازے کھُل نہیں گئے اور قیدیوں کی وین پارلیمنٹ ہاؤس کے بیرونی گیٹ تک پہنچ نہیں گئی۔ تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور میاں شہباز شریف وزیرِاعظم منتخب ہوئے۔ اِس کے بعد ڈاکٹر عارف علوی کا کردار کھُل کر سامنے آیا جو کسی بھی صورت میں لائقِ تحسین نہیں۔ اُنہوں نے بیماری کا بہانہ بنا کر نومنتخب وزیرِاعظم سے حلف لینے سے انکار کر دیا پھر وزیرِاعظم کی ہرسمری پر لیت ولعل سے کام لیتے رہے۔ پارلیمانی نظامِ حکومت میںاگر صدرِ مملکت وزیرِاعظم کی سمری کو 21 دنوں تک روکے رکھے تو وہ سمری خودبخود قانون بن جاتی ہے۔عارف علوی نے تقریباََ ہرسمری کو (خصوصاََ گورنر پنجاب کی تقرری) مقررہ مدت تک روکے رکھاجس سے کاروبارِ مملکت میں رخنے آتے رہے۔

پارلیمانی روایت ہے کہ ہر پارلیمانی سال کہ آغاز پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدرِمملکت خطاب کرتا ہے۔ پانچویں پارلیمانی سال کے آغاز پر صدرِ مملکت نے 6 اکتوبر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں 442 ارکان کے بجائے صرف 12 ارکان موجود تھے۔طُرفہ تماشا یہ کہ تحریکِ انصاف کے ارکانِ قومی اسمبلی تو مستعفی ہو ہی چکے تھے لیکن سینٹ کے ارکان نے بھی اپنے ہی صدر کے خطاب کا بائیکاٹ کیا۔ خواجہ آصف نے کہا یہ وہی شخص ہے جس نے صرف 20 منٹ میں قومی اسمبلی توڑی اور اب اُسی اسمبلی سے خطاب کرنے کے لیے آیا ہے۔ کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے خواجہ آصف صاحب کی بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی کیونکہ پارلیمنٹ کی گیلریوں میں غیر ملکی سفیر اور دیگر ارکان بھی موجود تھے جن کے سامنے صدرِ مملکت نے12 پارلیمنٹیرینز سے طویل خطاب کیا۔ یقیناََ یہ خطاب عالمی جگ ہنسائی اور رسوائی کا سبب بنا۔پارلیمنٹیرینز نے بائیکاٹ کرکے اپنا بدلہ تو لے لیا لیکن ہم سمجھتے ہیںکہ طوہاََ وکرہاََ ہی سہی اتحادی حکومت کو اِس خطاب کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے تھا تاکہ جگ ہنسائی سے بچا جا سکتا۔

صدرِ مملکت کے ’’عظیم رَہنما‘‘ عمران خان کے گرد بھی گھیرا تنگ ہو رہا ہے اور اب وہ اپنے پیروکاروں کو ’’وعدۂ فردا‘‘ پر ٹال رہے ہیں۔ 25 مئی 2022ء کو اُنہوں نے اسلام آباد پر چڑھائی کے دوران حکومت کو متنبہ کیاکہ حکومت 6 دنوں کے اندر عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دے ورنہ وہ پوری قوت سے اسلام آباد پر چڑھائی کرکے دارلحکومت کو مفلوج کر دیں گے۔ ساڑھے 4 ماہ گزر چکے لیکن ابھی تک وہ 6 دن نہیں آئے۔ چند روز پہلے اُنہوں نے لانگ مارچ اور دھرنے کے لیے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے ارکانِ قومی وصوبائی اسمبلی کو پہلے ہر ضلع سے 6 ہزار اور بعد ازاں 4 ہزار افراد لانے کے لیے کہا۔ شنید ہے کہ اب یہ تعداد گھٹتے گھٹتے فی ضلع ایک ہزار رہ گئی ہے اور اِس تعداد پر بھی ارکانِ اسمبلی راضی نہیں۔ گویا ’’نہ نَو مَن تیل ہو گا ،نہ رادھا ناچے گی‘‘۔

خان صاحب بڑھکیں تو بہت مار تے رہتے ہیںلیکن حقیقت یہی کہ پیروکاروں کے اِس عظیم لیڈر کی رفعتوں کو چھوتی مقبولیت تیزی سے پاتال کی جانب گامزن ہے جو یقیناََ اہلِ فکرونظر کے نزدیک باعثِ عبرت ہے۔ 5 اکتوبر کو اُنہوں نے پیروکاروں سے حقیقی آزادی کے لیے جہاد کا حلف لیا۔ حلف کا انداز ’’ہیل ہٹلر‘‘ جیسا تھا۔ اِس حلف میں ہمیں عمران خان کے تینوں بچے کہیں نظر نہیں آئے۔ کیا اِس ’’عمرانی جہاد ‘‘ میں قوم کے بچوں کی ہی قربانی مانگی جا رہی ہے، اپنے بچوں کی نہیں؟۔ اِس ’’عمرانی جہاد‘‘ کا آڈیولیکس نے سارا بھانڈا ہی پھوڑ دیا ہے۔ پہلے 2 آڈیولیکس میں سائفر سے کھیلنے کی سازش کا انکشاف ہوااور اب 7 اکتوبر کو ایک اور آڈیو میںاسد عمر کہہ رہے ہیںکہ ہمیں سائفر والا لیٹر ہفتہ دَس دن پہلے جاری کر دینا چاہیے تھاجبکہ عمران خان کہتے ہیں کہ اِس لیٹر کا اثر پوری دنیا میں چلا گیاہے۔ شیریںمزاری خوش ہو کے کہتی ہے کہ چین نے بھی امریکی مداخلت کی مذمت کی ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ عوام کا ذہن پہلے ہی تیار ہو چکا ہے آپ لوگوں نے میر جعفر وصادق کو ’’سپون فیڈ‘‘ کرنا ہے۔ اب عمران خان کے پیروکار سمجھ جائیں کہ خان کے نزدیک وہ ناسمجھ بچے ہیں جن کے ذہنوں میں چمچ کے ذریعے جعفر وصادق کی دوائی اُنڈیلی گئی ہے۔ یہ ایسی خوفناک سازش تھی جس میںعمران خان پاکستان کو عالمی تنہائی کی تگ ودَو میں نظر آتے ہیں۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک اور آڈیومیں عمران خان کہہ رہے ہیں کہ 5 ارکانِ اسمبلی وہ خود خرید رہے ہیں اور اگر ’’وہ‘‘ بھی 5 ارکان ساتھ ملا دیں تو پھر کوئی خطرہ نہیں۔ یہ آڈیو غالباََ تحریکِ عدم اعتماد سے 2 دن پہلے کی ہے کیونکہ اِس میں عمران خان کہہ رہے ہیں کہ اگلے 48 گھنٹے اہم ہیں۔ یہ ’’صادق وامین‘‘ اپنی تقاریر میں بار بار کہتا رہا ’’جس نے اپنا ضمیر بیچا اُس نے شرک کیا‘‘ اور ’’جس نے مجھے ووٹ نہیں دیا اُس نے شرک کیا‘‘۔ یہ آڈیو تو ثابت کر چکی کہ کپتان خود ہی مشرک ہے۔ نیوزچینل 24 پر بھی ہیکر نے کئی آڈیوز کا مکمل ثبوتوں کے ساتھ دعویٰ کیا ہے۔ اِن آڈیوز سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اِس مملکتِ خُداداد کا سارا نظام بشریٰ بی بی کے ہاتھ میں تھا اور اُسی کے احکامات پر عمل درآمد ہوتا تھا۔ یہ انکشافات انتہائی خوفناک ہیںکیونکہ آڈیو کے مطابق بشریٰ بی بی نے کہاکہ نوازشریف کی جیل سے صرف لاش واپس آئے۔ ڈاکٹر عامر لیاقت کا قتل اور پرویز الٰہی کو قبضے میں رکھنے کے لیے اُس کی اپنی مریدنی سے شادی اور اِن جیسے کئی دوسرے انکشافات کا ہیکر دعویٰ کر رہا ہے۔ ہم اِس پر اُس وقت تک کوئی تبصرہ نہیں کریں گے جب تک اِن کی تصدیق نہیں ہوجاتی البتہ انکوائری ضروری۔نئی بات

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply