مسئلہ فلسطین، دوسرا رخ۔۔ انعام رانا

عربوں نے برطانوی سازش کا شکار ہو کر ترک خلافت سے بغاوت کی تو ارض فلسطین انگریز کے ہاتھ آ گئی۔ یہود، جن کا آبائی وطن یہ ارض تھی، ہمیشہ سے اس خطہ پہ حسرت کی نگاہ جمائے بیٹھے تھے۔ ہٹلر کے یہودیوں پر مظالم نے یورپ میں ایک گِلٹ پیدا کر دیا اور ایسے میں جب Zionist یہودیوں کے لیے  ایک وطن کی تجویز سامنے لائے تو یورپ فورا ً مان گیا۔ سمجھیے اپنا یہ گلٹ مٹانے کے لیے ہٹلر کے مظالم کی سزا مسلمانوں کو دے دی۔

مگر خود فلسطینی کیا کر رہے تھے؟ یورپ سے جانے والے یہودیوں نے زمینیں ان ہی فلسطینیوں سے  قیمتاً   خریدیں، زیادہ قیمت دے کر۔ باچا خان کہتے ہیں کہ زمینیں بیچتے  وقت عربوں کا جواز تھا  کہ  چودھویں صدی ختم ہو رہی ہے اور قیامت آنے والی ہے، سو ہم تو یہودیوں کو بیوقوف بنا رہے ہیں عین قیامت سے قبل مہنگی زمین بیچ کر۔ وقت نے ثابت کیا کہ بیوقوف کون نکلا۔ دوسری جانب، اب یہود اتنی تعداد میں آ گئے تھے کہ ساڈا حق ایتھے رکھ کا نعرہ لگا سکتے۔ ایسے میں جب برطانیہ اپنے گلّے سے مصیبت یہ کہہ  کر اتارتے ہوا نکلا کہ وہ یہودیوں اور فلسطینیوں کے درمیان مفاہمت میں ناکام رہا ہے، تو اشک نازیوں نے فلسطینیوں کو کئی علاقوں سے بھیڑوں کی طرح نکال باہر کیا اور وہ اک کمزور سی مزاحمت بھی نہ  کر سکے۔ اب یہود اک مستحکم قبضہ رکھتے تھے اور حکمت کا تقاضا تھا کہ بدلتے وقت کے مطابق فیصلہ کیا جاتا، مگر مسلم لیڈرز اس حکمت سے محروم نکلے۔

یہود نے شروع میں بہت کم کا مطالبہ کیا مگر اسے نخوت سے ٹھکرایا گیا۔ اقوام متحدہ نے ایک ایسا حل تجویز کیا کہ دو تہائی زمین فلسطین کی ہوتی مگر ہم تو اپنی تاریخ کے نشے میں تھے۔ بِنا  تیاری، “مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی” دہراتے ہوئے ، اسرائیل سے جنگ چھیڑی گئی اور کل عرب قوم نے تاریخ کی بدترین ذلت اٹھائی اور مزید علاقے گنوا دیے۔ اس ذلت نے انور سادات کو نفسیاتی مریض کر دیا اور اسرائیل کو مزید نڈر۔ اسرائیل کا یہ موقف مزید مضبوط ہو گیا کہ مسلمان یہود کو مٹانا چاہتے ہیں اور اس نے مزید امداد حاصل کر لی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ عرب دہائی دیتے ہیں کہ عرب اسرائیل جنگ سے پہلے والی حالت پہ جایا جائے اور وقت ان پہ ہنس رہا ہے۔

دوستوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہود میں بھی سفادی اور اشک نازی کی تفریق ہے۔ آپ کو بہت سے سفادی یا عرب یہودی، مسلمان عربوں کے ساتھ مل کر فلسطین کے حقوق اور آزادی کی جنگ لڑتے نظر آئیں گے۔ ہمارے کچھ مہربانوں نے ایک بڑی غلطی یہ کی کہ اسے ایک مذہبی مسئلہ بنا دیا۔ مسلمان کبھی فلسطین کے حاکم تھے، پھر نہ  رہے اور پھر واپس بن گئے۔ مگر یہ ان کے فلسطین پر حکومت کا استحقاق نہیں بن جاتا۔ تاریخ کی بے رحم موج نے ہمیشہ بہت سے نشان مٹائے ہیں۔ یہی ارض فلسطین یہود کا ہزاروں سال پرانا وطن بھی تو ہے، ہمارا تو فقط اک قبلہ اوّل، جو متروک ہو چکا، وہاں ہے، ان کا تو پورا مذہب اور تاریخ ہی وہاں کی بنیادوں میں دفن ہے۔ ایسے میں اسے مذہبی کے بجائے سیاسی مسئلہ ہی بنانا چاہیے تھا اور اسی کی بنیاد پر باقی اقوام سے مدد کا حصول ہونا چاہیے تھا۔ اسرائیل نے اس “مسلم اتحاد” کا خوف دکھا کر دنیا بھر کے یہود سے فنڈ لیے، یورپ اور امریکہ سے مدد لی اور آج عرب خطے کے سینے میں اک ایسا خنجر ہے جسے نکالنے کی ہمت خود عرب بھی نہیں کر سکتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

فلسطین کے مظلوم لوگ جو حریت کی علامت بن چکے، بنا کسی موثر مدد اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ ا ن کی یہ جدوجہد بے مثال ہے اور اب دنیا نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ ایسے میں ٹرمپ کا یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت ماننا اس مسئلہ کو مزید اجاگر کرے گا۔ فوری طور پہ اسلامی ممالک کے ساتھ ساتھ یورپ میں ابھرنے والا احتجاج قابل دید ہے۔ آدھے بھرے گلاس کو دیکھتے ہوئے  مجھے  لگتا ہے کہ اس سے خیر کا اک اور پہلو یہ بھی نکلے گا کہ اگر یروشلم میں سفارتخانے موجود ہوئے  تو شاید یروشلم میں اسرائیلی مظالم بھی کم ہوں گے۔ اس وقت ضرورت ہے کہ ایک تو کسی بھی طور احتجاج کو تشدد کی طرف نہ  جانے دیا جائے وگرنہ الٹا نقصان ہو گا۔ دوسرا اس کو ایک عالمگیر سیاسی مسئلہ بنا کر کوششیں کی جائیں اور “مسلمان بنام یہود” بنا کر محدود نہ  کیا جائے۔ تیسرا’ ضرورت ہے کہ ہم اپنے تاریخی جذباتی خول سے باہر نکلیں اور وقت کے تقاضوں کے مطابق ایک ایسے حل کی جانب جائیں جو خطے میں امن لائے اور مزید توسیع پسندی کا رستہ روکے۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر ہم یونہی جذباتی نعرے لگاتے رہے تو ہماری اگلی نسل کئی مسلم ممالک کو اسرائیل کا حصہ دیکھے گی۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply