کیا نواز-شہباز کا نام جمہوریت ہے ؟عامر حسینی

پی پی پی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری سے ملنے 365-ایم ماڈل ٹاؤن لاہور مرکز  کیا گئے کہ اس کے بعد سے پاکستان میں نواز شریف کو جمہوریت اور اینٹی اسٹبلشمنٹ کا مدار المہام ثابت کرنے والوں کے ہاں ایک کہرام مچا ہوا ہے۔اور اس اس کہرام سے ہمارے کئی  معصوم لبرل آدرشوں پہ صدق دل سے یقین رکھنے والے بھی متاثر ہوگئے ہیں۔اور وہ یہ بھلا بیٹھے ہیں کہ پاکستان میں نواز شریف کے لئے اپنے لبرل ازم کو کمرشل بنادینے والے مافیا کا اس ‘کہرام مچانے’ سے مقصد کیا ہے؟

پاکستان کے کرائے پہ دستیاب لبرل عوام کی آنکھوں میں اپنے تئیں دھول جھونکنے کی کوشش کررہے ہیں۔یہ ڈاکٹر طاہر القادری کو اگر ملک اسحاق، ریاض بسرا،اکرم لاہوری کی صف میں نہ کھڑا کریں تو ان کی کوشش ہوتی ہے یہ ڈاکٹر طاہر القادری کو حق نواز جھنگوی،اعظم طارق،محمد احمد لدھیانوی کی صف میں ہی کھڑا کردیں۔ اور آج کل ان کی پوری کوشش ہے کہ یہ ڈاکٹر طاہر القادری کو کسی نہ کسی طرح خادم رضوی ثابت کرڈالیں ۔

پاکستان کے کرائے پہ دستیاب ان لبرل کے کھیل میں کھنڈت اس وقت پڑی جب پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری مرکز منہاج  القرآن جا پہنچے اور انھوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پہ ایک بار پھر پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے ڈاکٹر طاہر القادری کے چیف منسٹر پنجاب شہباز شریف ،رانا ثناء اللہ کے استعفے اور ان کی گرفتاری کے مطالبے کی حمایت کی۔

کیا  پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پہ اپنے موقف میں کوئی تبدیلی پیدا کی ہے؟ کیا انھوں نے اب تک پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے اختیار کی جانے والی پالیسی سے انحراف کیا ہے؟

سانحہ ماڈل ٹاؤن پہ پاکستان عوامی تحریک نے ایک کل جماعتی کانفرنس اپنے مرکز پہ بلائی تھی۔اس کانفرنس میں پی پی پی بھی شریک تھی۔پاکستان پیپلزپارٹی نے اس کل جماعتی کانفرنس میں پاکستان عوامی تحریک کے سامنے یہ موقف رکھا تھا کہ اگر وہ اپنے موقف کو منوانے کے لئے پنجاب حکومت کے خلاف دھرنا،احتجاجی تحریک سمیت جو کام کرے گی پاکستان پیپلزپارٹی اس کا ساتھ دے گی۔لیکن اسلام آباد دھرنے کا جواز نہیں بنتا ہے۔ڈاکٹر طاہر القادری نے اس زمانے میں اسلام آباد مارچ کا راستہ  اختیار کیا تھا۔پاکستان پیپلزپارٹی نے ساتھ نہیں دیا۔

ماڈل ٹاؤن مرکز منہاج القرآن میں پی پی پی سنٹرل پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ ، پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ،سابق چیف منسٹر میاں منظور وٹو کی موجودگی میں ڈاکٹر طاہر القادری کو آصف علی زرداری نے پنجاب حکومت کے خلاف ان کے احتجاج،دھرنے کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔یہ 2014ء کی ہی پالیسی کا اعادہ تھا۔

اب بھی پاکستان پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت اسلام آباد میں دھرنا دینے اور مرکزی حکومت سے مستعفی ہونے کے مطالبے کے ساتھ نہیں کھڑی ہوگی۔

پاکستان کے کرائے کے لبرل پی پی پی کے موقف کو مسخ کررہے ہیں۔

ڈاکٹر طاہر القادری سیاسی میدان میں پاکستان عوامی تحریک کے نام سے سرگرم ہیں۔اور اس پارٹی کا رکن ہونے کے لئے کسی خاص مذہب سے وابستگی کی شرط اس پارٹی کے آئین میں موجود نہیں ہے۔اور اس کا غیر مذہبی نام بھی اس کی سیکولر ہئیت کو ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے۔ڈاکٹر طاہر القادری کے مذہبی میدان میں جو خیالات ہیں،ان کی معترف پاکستان پیپلزپارٹی کی شہید چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو بھی تھیں اور اسی لئے وہ منہاج القرآن کی تاحیات رکن بنی تھیں۔

آج  کے انگریزی روزنامہ ڈان میں اسی اخبار کے سابق مدیر  عباس ناصر نے ایک مضمون ‘تھوڑا سا اختلاف،پلیز’ کے عنوان سے لکھا ہے۔اس مضمون کے آغاز میں بھی اور دوسرے پیرا گراف میں انھوں نے ‘کالعدم عسکریت پسند تنظیموں’ کو مرکزی دھارے کے پروجیکٹ کو تشویش کا باعث قرار دیا ہے۔یہ پروجیکٹ ہے کیا؟ اس بارے وہ خود لکھتے ہیں:

This mainstreaming proposal had two strands; the first encouraged and facilitated the participation of these groups in the country’s electoral politics, the second proposed the recruitment of the militants belonging to these organization  in the security forces.

مرکزی دھارے میں لانے کے پروجیکٹ کے دو حصّے ہیں:

پہلا حصّہ ان گروپوں کو ملک کی الیکشن سیاست میں لانے کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کو سہولتیں فراہم کی جائیں،

دوسرا ان تنظیموں کے عسکریت پسندوں کو سکیورٹی فورسز میں بھرتی کرلیا جائے۔

آگے چل کر عباس ناصر اسی تناظر میں ایک دم سے آصف علی زرداری اور ڈاکٹر طاہر القادری کے مابین ملاقات اور آصف علی زرداری کے سانحہ ماڈل ٹاؤن پہ پنجاب حکومت کے سربراہ،وزیر قانون کے استعفوں اور گرفتاری کے مطالبے اور مطالبہ منظور نہ ہونے پہ پنجاب حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کے موقف کو  نواز شریف کے کرائے پہ حاصل کیے  گئے لبرل کے مفہوم کے مطابق ڈھالتے ہوئے کہتے ہیں:

Of course, the PPP will need to calculate the loss suffered by the party’s credibility against any gains made due to Tahirul  Qadri’s possible support if the two were to go together in any agitation to cut short the PML-N’s tenure and then in any subsequent election.

Advertisements
julia rana solicitors

عباس ناصر کمرشل لبرل مافیا کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر پاکستان پیپلزپارٹی کی ساکھ کو طاہر القادری کے ساتھ سیاسی تعاون سے پہنچنے والے افسانوی نقصان کو حقیقت سمجھ کر اس کا اندازہ کرنے کی درخواست پاکستان پیپلزپارٹی کو کررہے ہیں۔اور آگے پھر کہتے ہیں کہ وہ نقصان اس کامیابی سے کہیں بڑھ کر ہوگا جو پی پی پی  طاہر القادری کے ساتھ مل کر مسلم لیگ نواز کی حکومت کو وقت سے پہلے ختم کرکے حاصل کرے گی۔
یہ ایک افسانہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی مرکز میں مسلم لیگ نواز کی حکومت کا خاتمہ چاہتی ہے۔اور نہ ہی پاکستان پیپلزپارٹی پنجاب حکومت کا خاتمہ چاہتی ہے۔وہ ماڈل ٹاؤن میں ہونے والی دہشت گردی کے ذمہ  داران کے خلاف کارر وائی چاہتی ہے۔اور سمجھتی ہے کہ ماڈل ٹاؤن سانحہ کی براہ راست ذمہ داری شہباز شریف اور ان کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ پہ عائد ہوتی ہے۔اور یہ دونوں اگر مستعفی ہوجائیں اور ان پہ مقدمات قائم بھی ہوں تو اس سے پنجاب میں مسلم لیگ نواز کی حکومت کو کیا خطرہ ہے؟ اور پھر یہ وہی پرانی منطق ہے کہ نواز شریف کی عدالت سے نااہلی جمہوریت کے لئے خطرہ ہے۔اگر جمہوریت کو یوسف رضا گیلانی کے گھر جانے سے کوئی خطرہ نہیں ہوا تھا تو نواز شریف کے جانے سے بھی نہیں ہوا۔اور اب شہباز شریف بھی چلے جائیں گے تو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply