بشریٰ رحمٰن۔۔آغرؔ ندیم سحر

بلبلِ پنجاب بشریٰ رحمن ۷ فروری ۲۰۲۲ء کو ۷۷ سال کی عمر میں کورونا کے باعث وفات پاگئیں۔خواتین ناول نگاروں میں بشریٰ رحمن کا ایک الگ مقام و مرتبہ تھا اور اس کی وجہ ان کے ناولز اور افسانے ہیں جو دیگر سینکڑوں‘‘ ڈائجسٹ مارکہ’’ خواتین ناول نگاروں سے انھیں جدا اور بلند کرتے ہیں۔ہمارے ہاں خواتین لکھنے والیوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ کوئی بھی خاتون ناول نگار(بالخصوص ڈائجسٹ رائٹرز) بشریٰ رحمن کے قد اور مرتبے تک نہیں پہنچ سکی، کیوں کہ ہماری خواتین ناول نگاروں نے یا تو مذہب کا ‘‘چورن’’بیچا یا پھر ان کو دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہجر اور وصال لگا۔یہ وہی طبقہ ہے جس نے ڈرامے اور ناول کی صنف کو بھی گڈ مڈ کر دیا’یہ ناول لکھتی ہوئے ہمیشہ‘ ایک تیر سے دو شکار’ کرنے کی خواہش مند ہوتی ہیں،یعنی ناول بھی چھپ جائے اور بعد میں اس پرڈرامہ بھی بن جائے،اس چکر میں تحریر اچھا ڈرامہ بن پاتی ہے اور نہ ہی کوئی شہرہ آفاق ناول۔اس ساری صورت حال کے باوجود ہمارے ہاں ‘‘ڈائجسٹ مارکہ’’ خواتین کی تعداد گنتی سے باہر ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ چند ایک کے علاوہ مذکورہ خواتین میں کوئی بھی ادبی منظر نامے پر اپنی نمایاں جگہ نہ بنا سکی۔میں اگر ان خواتین کے ناولوں اور افسانوں کی فہرست کی جانب جاؤں گا تو اصل موضوع بہت پیچھے رہ جائے گا ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بشریٰ رحمن نے ادبی و سیاسی منظر نامے پر اپنے دیر پا نقوش چھوڑے ہیں’ناول پیاسی ہو یا چارہ گر’پارسا ہو یا شرمیلی اور اللہ میاں جی تمام ناولوں کی اور افسانوں کا اپنی تہذیب اور ثقافت سے گہرا تعلق ہے۔ریاست بہاولپور سے تعلق ہونے کے ناتے وہاں کے ثقافتی اثرات ان کی تحریروں میں جابجا نظر آتے ہیں۔
بشریٰ رحمن اخیر عمر تک ادبی تقاریب میں شامل ہوتی رہیں’میری ان سے ملاقاتیں بھی تقاریب میں ہوتی رہیں۔خوشی اس بات کی ہے کہ وہ مجھے نام سے پہنچاننے لگ گئیں تھی’کہیں ملاقات ہوتی ہے تو یہی جملہ دہراتی :‘‘نوجوان کیسا جا رہا ہے سب؟’’۔‘‘کالم نگری’’ کی اشاعت کے دنوں میں میرا ان سے آخری دفعہ رابطہ ہوا’ان دنوں وہ کورونا سے صحت یاب ہو رہی تھیں’میں نے ملنے کی گزارش کی اور ‘‘کالم نگری’’کے لیے فلیپ کی فرمائش کی تو ان کا واٹس اپ پر صوتی پیغام آیا: ‘‘کورونا کے بعد میں نے لوگوں سے ملنا جلنا مکمل طور پر بند کر دیا ہے’صحت اس چیز کی اجازت نہیں دے رہی کہ کچھ نیا لکھوں یا پڑھ سکوں لہٰذا میری معذرت قبول کر لیں اور میری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں’’۔ اس دن کے صوتی پیغام سے یہ صاف محسوس ہو رہا تھا کہ انھیں بولنے میں دقت ہو رہی ہے’آواز کانپ رہی تھی اور وہ مسلسل تکلیف سے گزر رہی تھیں۔محمد عمر ندیم سے ان کی شناسائی بہت پرانی تھی’چھ ماہ قبل محمد عمر ندیم ’لاہور آئے تو بشریٰ رحمن سے ملاقات کا پلان بنا’میں نے انھیں کال کی تو معلوم ہوا کہ وہ ایک ہفتے کے لیے لاہور سے باہر ہیں’لہٰذا ملاقات نہ ہو سکی۔ان سے ملاقات کوئی ایک سال سے ملتوی ہو رہی تھی’جب جب کال کی’بشریٰ رحمن صاحبہ کی کسی نہ کسی مصروفیت کی وجہ سے ملاقات ملتوی ہوتی رہی اور یوں وہ داعی اجل کی آواز پر لبیک کہ گئیں۔
میری ان سے آخری ملاقات گزشتہ برس ہوئی تھی’لاہور کے ایک نجی ہوٹل میں ایک دو روزہ بین الاقوامی میڈیا کانفرنس تھی جس میں دنیا کے پچیس سے زائد ممالک کے مندوبین شریک تھے۔راقم کو بھی اپنے اخبار کی نمائندگی کے لیے حاضر ہونا تھا’ہوٹل کے مین دروازے سے بشریٰ رحمن کو آتے دیکھا تو ہال تک ان کے ساتھ چلنے لگا،اس پانچ منٹ کی ملاقات میں ڈھیروں باتیں ہوئیں’بس یہی آخری ملاقات تھی ۔ان سے مل کر ایک چیز کا شدت سے احساس ہوا کہ وہ نئے لکھنے والوں کے لیے سائبان کاس درجہ رکھتی تھی’جب بھی ملا،انھوں نے دعاؤں سے نواز’چھوٹا سمجھ کر تھپکی بھی دی اور ہمیشہ حوصلہ بڑھایا ۔ورنہ ہمارے ہاں زیادہ تر وہ وادیب جو زیادہ فروخت ہوتے ہیں’وہ چھوٹوں سے شفقت کی بجائے ان سے ملاقات کو وقت کا ضیائع سمجھتے ہیں۔میں نے پندرہ سالہ ادبی سفر میں اس رویے کو دیکھا’بھگتا اور بھگت رہاہوں،نوواردانِ ادب کے ساتھ ہمارے سینئرزکا رویہ کس قدر افسوس ناک رہا’ایک لمبی کہانی ہے۔مگر بشریٰ رحمن بالکل الگ تھیں’کام میں بھی اور رویے میں بھی۔مجھے نہیں یاد کہ کسی دوست نے انھیں کبھی کسی ادبی تقریب میں بلایا ہو تو انھوں نے انکار کیا ہو۔
دو سال پہلے ہمارے ایک نوجوان دوست کی افسانوں کی کتاب چھپ رہی تھی’اس نے مجھ سے گزارش کی کہ بشریٰ رحمن صاحبہ سے کچھ لکھوا دیں۔میں نے رابطہ کیا اور گارڈن ٹاؤن ان کے گھر پہنچ گئے۔آپ نے نہ صرف کتاب کا فلیپ لکھا بلکہ ہم دونوں کو درجنوں مشوروں سے نوازا۔اسی ملاقات میں مجھے کہنے لگیں:‘‘آپ اتنی محنت سے ہر ہفتے کالم لکھتے ہیں’یہ سب ایک فائل میں لگاتے رہیں تاکہ مستقبل میں کتاب لائی جا سکے۔تحریر کیسی بھی ہو’وہ تحریر ہی ہوتی ہے لہٰذا ان تحریروں کو اس لیے ضائع مت کر دینا کہ یہ اخباری کالم ہے’یہ کالم آپ کو پہچان دیں گے’’۔میں نے عرض کی:‘‘میں پہلے سے ہی کتاب پر کام کر رہاہوں’’۔سن کر بہت خوش ہوئیں۔وفات سے کچھ روز قبل ان کی‘‘ سیرت النبیﷺ’’ پر کتاب آئی تو بہت خوش تھیں’کہتی تھیں کہ اللہ نے مجھ سے اتنا بڑا کام لے لیا ہے’یہ میری بخشش کا ذریعہ بنے گا،کچھ روز قبل ان کے پبلشرعلامہ عبد الستار عاصم سے بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ بشریٰ رحمن کی وہ کتاب ہاتھوں ہاتھ بک گئی تھی اور وہ کتاب کے دوسرے ایڈیشن کی تیاری میں بھی مصروف تھیں۔۲۰۰۷ء میں بشری رحمن کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومتی ستارہ امتیاز بھی دیا گیا’آپ نے شہرت کی انتہا دیکھی مگر ان کے رویے اور تحریروں سے ہمیشہ عاجزی جھلکتی تھی۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply