• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ایران یورپ مذاکرات نتائج و خدشات۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

ایران یورپ مذاکرات نتائج و خدشات۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

ایران اور یورپ سمیت دنیا کی بڑی قوتوں کے درمیان ویانا میں مذاکرات کے دور پر دور چل رہے ہیں۔ ایسا تقریباً ڈیڑھ سال سے ہو رہا ہے۔ یہ مزید ایسے ہی چلتا رہتا، مگر یہاں یوکرین جنگ نے سب کچھ تبدیل کر دیا۔ کئی یورپی ممالک جو دوسری جنگ عظیم میں بھی غیر جانبدار رہنے میں کامیاب رہے تھے، اب غیر جانبدار نہیں رہے اور نیٹو کو جوائن کر رہے ہیں۔ یوکرین جنگ نے یورپ کے لیے مہاجرین کا بحران پیدا کر دیا ہے اور ساتھ میں کھانے کی سپلائی چین بھی ٹوٹ چکی ہے۔ یورپ بالعموم اور جرمنی بالخصوص روس سے توانائی کی ضروریات پوری کرتا ہے اور اب تیزی سے وہ اپنی گیس پائپ لائن کو بند کر رہا ہے۔ گرمیوں میں بھی یورپ میں توانائی کافی مہنگی اور ناپید رہی۔ سردیاں آرہی ہیں اور سردیوں میں گیس کی کمی یورپ میں انسانی بحران کو جنم دے سکتی ہے۔ اس لیے یورپ بڑی تیزی سے ان ذرائع کی طرف دیکھ رہا ہے، جو فوری دستیاب ہوں اور ایران کی انرجی فراہم کرنے کی صلاحیت یورپ کو سردیوں میں بحران کا شکار ہونے سے بچا سکتی ہے۔ اس لیے یورپ کی شدید خواہش ہے کہ جلد از جلد 2015ء کا معاہدہ بحال ہو جائے۔

یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل کے مطابق یورپی یونین نے معاہدے کا جو متن پیش کیا ہے، اس پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ ان مذاکرات میں امریکہ براہ راست شریک نہیں ہے، کیونکہ وہ یک طرفہ طور پر اس معاہدے سے نکل چکا ہے۔پچھلے ایک ہفتے سے یورپی اور ایرانی ٹیم کو امریکی جواب کا انتظار ہے، تاکہ معاملات کو آگے بڑھایا جاسکے۔ یہ متن کافی بہتر ہے، اسے 260 دنوں میں چار مرحلوں میں نافذ ہونا ہے۔ اس میں سولہ بنکوں اور ایک سو پچاس اقتصادی اداروں سے پابندیاں ہٹائی جائیں گی اور اس کے بعد یورپ کی مارکیٹ کو ایران سے روزانہ پچاس ملین بیرل تیل ملے گا اور اس کے ساتھ ساتھ گیس کی ضروریات بھی پوری کی جائیں گی۔

امریکہ اس معاہدے کو دوبارہ جوائن کرنے میں تاخیر کا مظاہرہ کر رہا ہے اور امریکی میڈیا یہ خبر شائع کر دیتا ہے کہ معاہدہ نہ ہونے کی وجہ ایران کی سپاہ پاسداران کا امریکہ دہشتگردی کی فہرست سے نکالے جانے کا مطالبہ ہے۔ ایران کے مذاکرات کار بارہا اس بات کی وضاحت کرچکے ہیں کہ ایران یورپ مذاکرات میں اس طرح کی کوئی شرط نہیں لگائی گئی۔ بال دراصل امریکی کورٹ میں ہے اور معاہدے سے نکل کر دنیا کو بحران میں مبتلا کرنے کا ذمہ دار بھی امریکہ تھا اور آج دوبارہ شامل ہونے میں تاخیر کا ذمہ دار بھی وہی ہے۔ ایک بات یہاں بہت ہی ضروری ہے اور ایران کی طرف سے بار بار کی گئی کہ اس بات کی گارنٹی دی جائے کہ امریکہ اس معاہدے کو پھر یک جنبش قلم رد کرکے اس سے نکل نہیں جائے گا اور مذاکرات میں زیادہ وقت لگنے کی ایک وجہ بھی یہی ہے۔
امریکہ اور یورپ کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ اس وقت چین اور روس سے جس طرح کے ان کے تعلقات ہیں، ایران کے لیے ان سے بہتر آفرز یہ ممالک دے سکتے ہیں اور دنیا کی نئی تقسیم بندی میں انرجی کا بڑا خزانہ رکھنے والے ملک کو ہر طاقت اپنے ساتھ رکھنا چاہے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ خود اسلامی جمہوری ایران کی قیادت کو اپنی طاقت، خطے میں اپنے مقام اور اپنے قدرتی ذرائع کا اچھی طرح علم ہے اور یورپ جس مصیبت میں گرفتار ہے، اس کو بھی جانتے ہیں۔ یہ تو انسانیت کی بنیاد پر خارجہ پالیسی کی وجہ سے اس وقت مغرب کو بلیک میل نہیں کر رہے، اگر اس جگہ امریکہ یا یورپ ہوتا اور ایرانی عوام کو انرجی کی ضرورت ہوتی تو یہ کبھی بھی انسانی اقدار کا مظاہرہ نہ کرتے، بلکہ بچوں اور خواتین کو مرنے کے لیے چھوڑ دیتے اور اپنے گماشتوں کے ذریعے امن و امان کے مسائل پیدا کرکے اپنی من پسند تبدیلی لانے کی کوشش کرتے۔

امریکی صدر افغانستان سے نکلنے کی غلط حکمت عملی پر شدید تنقید کی زد میں رہے ہیں اور ساتھ میں دنیا بھر میں امریکہ کی جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ اب امریکی دوبارہ اسی معاہدے میں جانا اپنی کمزوری شمار کرتے ہیں۔ امریکی انتظامیہ کچھ اور ایسے امور کو شامل کرانا چاہتی ہے، جن کی حیثیت اگرچہ دکھاوے کی ہو، مگر وہ یہ کہہ سکیں کہ ہم نے یہ نیا کیا ہے، جو پہلے والے معاہدے میں نہیں تھا۔ ایک بات جو رہبر معظم نے بھی کی کہ امریکہ صحیح طرح سے اس معاہدے پر عمل کرے، اس کے بعد دوسرے مسائل پر بھی بات ہوسکتی ہے، مگر امریکہ نے نہ عمل کرنا تھا اور نہ عمل کیا اور ایرانی عوام کے اس طبقے کے سامنے بری طرح بے نقاب ہوا، جنہیں امریکہ سے کچھ خیر کی امید تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حالات یہی ہیں کہ امریکہ دوبارہ بادل نخواستہ معاہدے میں شامل ہو جائے گا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو ایران فوری طور پر یورینیم کی افزودگی کو مزید بڑھا دے گا۔ یورپ کو گیس نہیں ملے گی، جس سے یورپ کو سردیاں گزارنا مشکل ہو جائے گا اور امریکہ کے لیے تیل کی قیمتیں دوبارہ سے بڑھنے لگیں گی، جس سے بین الاقوامی معیشت پر دباو آجائے گا۔ اس ساری صورتحال میں یورپ بڑی بری طرح پھنس چکا ہے، وہ امریکہ کے بغیر کسی قسم کا کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے۔ انہوں نے ایرانی تجاویز کو عاقلانہ تو کہا مگر منظوری کے لیے امریکہ کے منتظر ہیں کہ جو حکم وہاں سے آئے، اس کے مطابق آگے بڑھا جائے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply