مولانا آزاد کی چائے نوشی۔عبدالقادر صدیقی

 (ریسرچ اسکا لر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدر آباد)
چائے، ہم اور آپ روزپیتے اور پلاتے ہیں، لیکن ہمارے نزدیک چائے کے بہتر سے بہتر ہونے کا معیار کیا ہوتا ہے؟ بس یہی نا کہ چائے میں دودھ کی مقدار ٹھیک ہو، نہ بہت میٹھی ہو اور نہ پھیکی،اتنی گرم ہو کہ چسکی لے کے پی جاسکے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن مولانا آزاد کی چائے کا معیار ہماری اور آپ کی چائے کی چائے نوشی سے یکسر مختلف تھا۔ مولانا آزاد نے چائے پی اور خوب پی۔ چائے سے انہیں رغبت ہی نہیں عشق تھا۔ان کی چائے نوشی کا ذوق اور شوق لطیف ہی نہیں نہایت لطیف تھا۔ مگر ان کی چائے بہت نرالی تھی اور چائے نوشی کا طریقہ اور بھی نرالاتھا۔ جو چائے ہم آپ روز پیتے اور پلاتے ہیں اس کو وہ سرے سے چائے ہی نہیں مانتے تھے۔ اس معاملہ میں وہ ہم سے اور آپ سے فروعی نہیں اصولی اختلاف رکھتے تھے جیسا کہ وہ غبار خاطر میں اس کا اظہار کرتے ہوئے اپنے دوست حبیب الرحمن شیروانی سے لکھتے ہیں
’’چائے کے باب میں ابنائے زمانہ سے میرا اختلاف صرف شاخوں اور پتوں کے معاملہ میں ہی نہیں ہوا کہ مفاہمت کی صورت نکل سکتی، بلکہ سرے سے جڑ میں ہوئی یعنی اختلاف فرع کا نہیں اصول کا ہے۔ میں چائے کو چائے کے لیے پیتا ہوں لوگ شکر اور دودھ کے لیے پیتے ہیں۔ میرے لیے وہ مقاصد میں داخل ہوئی ان کے لیے۔ غور فرمائیے میر ا رخ کس طرف ہے اور زمانے کا کس طرف۔‘‘ (غبار خاطر،ص :217 )۔
اس اصولی اختلاف کی مزید وضاحت کرتے ہوئے اور اپنے خیال کو مشاہد اور شواہد کا جامہ پہناتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ’’چائے چین کی پیداوار ہے اور چینیوں کی تصریح کے مطابق پندرہ سو برس سے استعمال کی جارہی ہے۔ مگر وہاں ان کے خوابوں خیال میں بھی یہ بات نہیں گزری کہ اس جوہر لطیف کو دودھ کی کثافت سے آلودہ کیا جائے۔ مگر سترہویں صدی میں جب انگریز اس سے آشنا ہوئے تو نہیں معلوم ان لوگوں کو کیا سوجھی انہوں نے دودھ ملانے کی بدعت ایجاد کی اور چونکہ ہندوستان میں چائے کا رواج انہی  کے ذریعہ ہوا اس لیے یہ بدعت سیہ یہاں بھی پھیل گئی۔
‘‘ اس تاریخی دلیل کے بعد مولانا چائے میں دودھ ملانے والے یا دودھ والی چائے نوشی کرنے والوں کا تمسخر کچھ اس طرح اڑاتے ہیں کہ ” لوگ چائے کی جگہ ایک سیال حلوہ بناتے ہیں اور کھانے کی جگہ پیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے چائے پی لی، ان نادانوں سے کون کہے کہ” ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں”۔۔ دوودھ والی چائے سے مولانا کو جو چڑ تھی اس کی شکایت یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ وہ اس کے اسباب کا پتہ ڈھونڈ نکالتے ہیں اور اس تمام ’بد عمالیوں ‘ کے لیے انگریز کو مورد الزام ٹہراتے ہوئے ان کی چائے نوشی کے مذاق کا کچھ اس اندازمیں مذاق اڑاتے ہیں: ’’
“انہوں نے چین سے چائے پینا تو سیکھ لیا مگر اور کچھ نہ سیکھ سکے۔ اوّل تو ہندوستان اور سیلون ( سری لنکا) کی سیاہ پتی ان کے ذوق چائے نوشی کا منتہائے کمال ہوا، پھر قیامت یہ کہ اس میں بھی ٹھنڈا دودھ ڈال کر یک قلم گندہ کردیں گے۔ مزید ستم ظریفی دیکھیے اس گندے مشروب کی معیار سنجیوں کے لیے ماہرین فن کی ایک فوج ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ کوئی ان ریاکاروں سے پوچھے کہ اگر چائے نوشی سے مقصود انہی پتیوں کو گرم پانی میں ڈال کر پی لینا ہے تو اس کے لیے ماہرین فن کی دقیقہ سنجیوں کی کیا ضرورت ہے ؟ ‘‘(غبار خاطر،ص :225 )۔
یہ تو رہی انگریزوں کی ایجاد کردہ دودھ والی ’گوری ‘ چائے کا تمسخر لیکن وہ سیاہ چائے نوشی کا بھی مذاق اڑا نے سے بعض نہیں آتے ہیں۔ سیاہ چائے کو وہ جوشاندہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ جس کا اظہار کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ
’’وہ چینی چائے جس کا عادی تھا کئی دن ہوئے ختم ہوگئی مجبوراً   ہندوستان کی اسی پتی کا جوشاندہ پی رہاہوں جسے لوگ چائے کے نام سے پکارتے ہیں اور دودھ ڈال کر اس کا گرم شربت بنایا کرتے ہیں۔ ‘‘
ان کی چائے نوشی کا معیار ہی اتنا ارفع و اعلیٰ تھا کہ ان کے اس مذاق کی چائے نوشی کرنے والا دوسرا کوئی رفیق ملنا مشکل تھا یہی وجہ ہے کہ قلعہ احمد نگرجیل میں ان کے ساتھ جو دیگر سیاسی رہنما قید تھے ان میں سے ایک بھی “آزادانہ” چائے کے ذوق کا خوگر نہیں تھا۔ جس کی شکایت مولانا اپنے مخصوص انداز میں اس طرح کرتے ہیں۔۔
’’ یہاں ہماری زندانیوں کے قافلے میں اس جنس کا شنا سا کو ئی نہیں ہے۔ اکثر حضرات دودھ اور دہی کے شائق ہیں اور آپ سمجھ سکتے ہیں کہ دودھ اور دہی کی دنیا چائے کی دنیا سے کتنی دور واقع ہوئی ہے۔ عمریں گزر جائیں پھر بھی یہ مسافت طے نہیں ہو سکتی۔ کہاں چائے کی ذوق لطیف کا شہرستان کیف و سرور اور کہاں دودھ اور دہی کی شکم پری نگری۔ ‘‘
ہماری اور آپ کی چائے نوشی پر مولانا آزاد کی یہ تیکھی مگر دلچسپ تنقید یا تنقیص اپنی جگہ مگر آپ کے ذہن میں یہ سوال گردش کر رہا ہوگا کہ پھر مولانا آزادکو ن سی چائے پیتے تھے اور ان کی چائے کیسی تھی؟ اپنی پسندیدہ چائے کا ذکر کرتے ہوئے وہ اس کی خصوصیت اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ایک مدت سے جس چینی چائے کا عادی ہوں وہ وہائٹ جیسمین کہلاتی ہے، یعنی یاسمین سفید یا ٹھیٹھ اردو میں یوں کہیے کہ گو ری چنبیلی۔ اس کی خشبو جتنی لطیف ہے اتنی  ہی تند و تیز ہے۔ رنگ کی نسبت کیا کہوں لوگوں نے آتش سیال سے تعبیر کیا ہے۔ لیکن آگ کا تخیل پھر ارضی ہے اور اس چائے کی علویت کچھ اور چاہتی ہے۔ میں سورج کی کرنوں کو مٹھی میں بند کرنے کی کشش کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ یوں سمجھیے جیسے کسی نے سورج کی کرنیں حل کے کر بلوری فنجان( شیشے کی چھوٹی پیالی) میں گھول دی ہوں۔
اس چینی یا گوری چنبیلی چائے کے علاوہ سبز چائے کے بھی خوگر تھے۔ غلام رسول مہر کو لکھے اپنے خط میں رمضان کی برکت اور سبز چائے کی فرحت بخشی کا ذکر انہوں  نے ان الفاظ میں کیا ہے ’’ دیکھیے  بے خبری میں کتنے صفحے لکھ گیا، یا تو خطوں کے جواب میں دو سطر لکھنا بھی دوبھر ہوتا ہے یا یہ عالم ہے کہ دس بارہ صفحے سیاہ ہو چکے اور ابھی تک کہانی ختم نہیں ہوئی۔ اصل یہ ہے کہ رمضان کی آمد نے یکا یک بجھی ہوئی طبیعت میں تازگی پیدا کر دی ہے۔ عشا کے بعد بیٹھتا ہوں تو صبح تک دماغ کے کیف و سکون میں کوئی بات خلل انداز نہیں ہوتی۔ اس وقت تین بج چکے ہیں، اعلیٰ درجے کی سبز چائے کا فنجان سامنے دھرا ہے۔ جو ایک جاپانی دوست نے حال ہی میں بھیجا ہے آپ کو خط لکھ رہا ہوں اور سوچ رہاہوں کہ اگر ایسی چائے کے فنجان میسر ہوں تو پھر کون سی نعمت باقی رہ جاتی ہے جس کی انسان خواہش کرے؟ میرے لیے یہی چائے سحری کی صبوحی بھی ہے اور افطار کا جام خمار شکن بھی۔‘‘ (نقش آزاد، ص : 114-115 )۔
خیر یہ تو رمضان کا معا ملہ ہوا اب سال بھر تو رمضان ہوتا نہیں ! پھر بقیہ دنوں میں ان کی چائے نوشی کا معمول کیا تھا اور کون سا وقت سب سے بہتر تھا ؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ حبیب الرحمن شیروانی کو لکھتے ہیں کہ’’ آپ کو معلوم ہے میں ہمیشہ صبح تین سے چار کے اندر اٹھتا ہوں اور چائے کے پیہم فنجانوں سے جام صبوحی کا کام لیا کرتا ہوں۔ یہ وقت ہمیشہ میرے اوقات زندگی کا سب سے زیادہ پرکیف وقت ہوتا ہے۔ لیکن قید خانے کی زندگی میں تو اس کی مستیا ں اور خود فراموشیاں ایک دوسرا ہی عالم پیدا کر دیتی ہیں یہاں کوئی آدمی ایسا نہیں ہو تا جو اس وقت خواب آلود آنکھ لیے اٹھے اور قرینہ سے چائے بنا کے میرے سا منے دھرے۔ اس لیے خود اپنے ہی دشت شوق کی سر گرمیوں سے کام لینا پڑتا ہے۔ میں اس وقت بادہ کہن کے شیشہ کی جگہ چینی چائے کا تازہ ڈبہ کھولتا ہوں اور ماہر فن کی دقیقہ سنجیوں کے ساتھ چائے دم دیتا ہوں۔ پھر جام و صراحی ( چائے کے لوازمات) کو میز پر دا ہنی طرف جگہ دوں گا کہ اس کی اولیت اسی کی مستحق ہوئی۔ قلم و کاغذ کو بائیں طرف رکھوں گا کہ سرو سامان کا ر میں اس کی جگہ دوسری ہوئی۔ پھر کرسی پر بیٹھ جاؤں گا اور کچھ نہ پوچھیے بیٹھتے ہی کس عالم میں پہنچ جاوں گا۔
” آپ کو معلوم ہے میں چائے کے لیے روسی فنجان کو کام میں لاتا ہوں۔ یہ چائے کی معمولی پیالیوں سے بہت چھوٹے ہوتے ہیں اگر بے ذوقی کے ساتھ پیجئے تو دو گھونٹ میں ختم ہو جائیں۔ مگر خدا نخواستہ میں ایسی بد ذوقی کا مر تکب کیوں ہو نے لگا؟میں جرعہ کشان کہن مشق کی طرح ٹھہر ٹھہر کر پیوں گا اور چھوٹے چھوٹے گھونٹ لوں گا، پھر جب پہلا فنجان ختم ہو جائے گا، تو کچھ دیر کے لیے رک جاؤں  گا۔ اس درمیانی مدت کو امتداد کیف کی لیے جتنا طول دے سکتاہوں طول دوں گا۔ پھر دوسرے اور تیسرے کے لیے ہاتھ بڑھاؤں گا۔ اور دنیا کو اور اس کے سارے سودو  زیاں کو یک قلم فراموش کر دوں گا۔ ‘‘(غبار خاطر،ص :129-130 )۔
ہائے کون دل ہے جو اس انداز چائے نوشی کامرید اور اسیر نہ ہو جائے۔ مگر تعجب خیز بات یہ کہ اتنی میٹھی میٹھی باتیں لکھنے والے آزاد چائے میں چینی کی مقدار کم سے کم، بہت کم لیا کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں
” جہاں تک مٹھاس کا تعلق ہے اسے میری محرومی سمجھیے  یا تلخ کامی کہ مجھے مٹھاس کے ذوق کا بہت کم حصہ ملا۔ نہ صرف چائے بلکہ کسی بھی چیز میں زیادہ مٹھاس گوارہ نہیں کرسکتا۔”وہ کہتے ہیں کہ چائے کا مزاج بہت لطیف اور نازک ہوتا ہے، اس لیے میں زیادہ یا میلی رنگ کی شکر ڈالنے سے چائے کے رنگ اور مزہ دونو ں پر اثر پڑتا ہے۔ مولانا کی چائے نوشی کا اس انداز کے علاوہ بھی ایک انداز خاص تھا جس کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ’’شاید آپ کو معلوم نہیں چائے  کے معاملے میں چند اختیار ات میرے ہیں۔ میں نے چائے کی لطافت اور شیرنی کو تمباکو کے تند ی و تلخی سے ترکیب دے کر ایک کیف مرکب پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں چائے کے پہلے ہی گھونٹ کے متصلا ایک سگریٹ بھی سلگا لیا کرتا ہوں پھر اس ترکیب خاص کا نقش عمل یوں جماتا ہوں کہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد چائے کا ایک ایک گھونٹ اور اس کے ساتھ ساتھ سگریٹ کا بھی ایک ایک کش لیتا رہوں گا۔ ’’
مولانا کے اس انداز چائے نوشی سے بہت ممکن ہے کہ آپ اتفاق نہیں کریں اور اسے غلط سمجھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود مولانا اپنی اس عادت کو بہتر نہیں سمجھتے ہیں اور ان کو اس غلطی کا احساس بھی ہے۔ لیکن اس سے رجوع نہیں کر نا چاہتے ہیں اور ا س کے جواز میں یہ فلسفہ پیش کرتے ہیں :’’میں تسلیم کروں گا کہ یہ تمام خود ساختہ عادتیں بلا شبہ زندگی کی غلطیوں میں داخل ہیں ۔ لیکن کیا کہوں جب معاملہ کے اس پہلو پر غور کیا،طبیعت اس پر مطمئن  نہیں ہو سکی کہ زندگی کو غلطیوں سے یکسر معصوم بنا دیا جائے۔ ‘‘

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply