سیکیولرازم کی تعریف۔منصور ندیم

سیکولرازم:

سکولرازم قدیم لاطینی لفظ سیکولارس سے ماخوذہے جس کا مطلب وقت کے اندر محدود لیاجاتاہے۔سیکولرازم لفظ کوباقاعدہ اصطلاح کی شکل میں1846ء میں متعارف کروانے والاپہلا شخص برطانوی مصنف جارج جیکب ہولی اوک تھا۔اس شخص نے ایک بارایک لیکچر کے د وران کسی سوال کاجواب دیتے ہوئے عیسائی مذہب اور اس سے متعلق تعلیمات کا توہین آمیزاندازمیں مذاق اڑایاجس کی پاداش میں اسے 6  ماہ کی سزا بھی بھگتنا پڑی۔جیل سے رہا ہونے کے بعداس نے مذہب سے متعلق اظہارِخیال کے لئے اپنااندازتبدیل کرلیا اورجارحانہ انداز کے بجائے نسبتاًنرم لفظ “سیکولرازم” کاپرچارشروع کردیا۔سیکولرازم کواگرعام معانی میں دیکھا جائے تواس کامطلب یہ لیا جاتاہے, انسانی  زندگی میں دنیا سے متعلق اُمور کاتعلق خدایا مذہب سے نہیں ہوتا اورسیکولرازم میں حکومتی معاملات کاخدااورمذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

سیکولرازم نے اپنے تمام دعوؤں  کو اپنی نظریاتی تشکیل سے پہلے حاصل کرکے دنیا کو دکھایا ہوا ہے  مغرب نے کئی صدیاں عیسائیت ریاست اور جج کے تصادم کے تحت گزاری ہیں  اس جبر اور اجتماعی غلامی کے تجربے سے نکلنے کے لئے جس قوت نے ایک نظریاتی روپ اختیار کیا، مذہب یا مذہب کے نام پر اقتدار کی تمام اشکالی ڈھانچوں کو گرانے کےلئے جو قوت اٹھی اور اس قوت نے جب خود کو ایک نظریے میں ڈھالا تو وہ نظریہ” سیکولرازم”  کی شکل میں سامنے آیا ۔اور سیکولرازم دنیا کے ان چند نظریات میں سے ایک ہے جن پر عمل پہلے ہوا اور اس کا نام بعد میں رکھا گیا۔ٍٍسیکولرازم میں انسانی اورحکومتی معاملات میں مذہب کاکوئی عمل نہیں ہوتا بلکہ یوں جاناجائے کہ دُنیاوی اُمورسے مذہب اورمذہبی تصورات کااخراج آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق سیکولرازم سے مرادایسا عقیدہ ہے جس میں مذہب اورمذہبی  خیالات وتصّورات کوارادتاً دُنیاوی اُمورسے حذف کردیا جائے۔

(Not Connected  Religious  or  Spiritual    matters)

سیکولرازم انفرادی طورپربھی آزادی مہیاکرتاہے کہ آپ من چاہا مذہب اختیارکریں۔اوراگرآپ کسی بھی مذہب پرعمل پیرانہیں ہوناچاہتے تواس کی بھی آپ کوآزادی اورحقوق مہیاکیے جائیں گے۔ پاکستانی معاشرے میں سیکولرازم کوروشن خیالی کے نام سے بھی جاناجاتاہے۔اس اصطلاح کی جڑیں”سکولم ـ”میں ہیں، جس کامطلب ہے زمانہ حال محسوسات کی دنیاہے۔جو دائم اورقابلِ یقین سچائی ہے جس میں انسان کی یہ اہمیت ہے کہ وہ خود اپنے لئے اچھائی یابرائی کاانتحاب کرسکتاہے۔ اوردنیاوی معاملات میں مذہب کی مداخلت تسلیم نہ کی جائے،سکیولرازم اورمذہب میں رقابت اورتصادم روزِاول سے موجودہے،کیونکہ دونوں عمل داری کے معاملے میں سخت جان حریف واقع ہوئے ہیں مثلاً مذہب اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتا ہے کہ وجودِانسانی کے لئے عالمِ آخرت پرزوردے کیونکہ انسان کی اخلاقی بحالی کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قادرالمطلق اورفنا سے بالا ترہستی تسلیم کیا جائے، اوراسی کے احکام اپنی سیاسی،معاشرتی اورمعاشی زندگی پرلاگوکیے جائیں۔لیکن سکولراز کواس طرزفکراورعمل سے انکارہے۔اس میں مذہب اگر برداشت بھی کیاجاتاہے، تواس شرط کے ساتھ کہ مذہب اجتماعی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرے گا۔بزعم خوددلیل یہ بیان کرتے ہیں کہ مذہبی دعوؤں  کی بنیادپر کیے  گئے فیصلے سماج کے لئے اصلاح کاباعث کیسے ہوسکتے ہیں؟جبکہ ان کے دعوؤں  اورفیصلوں کاماخذ ایک غیریقینی خداکی ہستی اور مبہم ذریعہ الہام ہے۔یہی وجہ ہے کہ مذہب اورسیکولرازم کی کشمکش کاکوئی امکان نہیں۔

سیکو لرازم میں مذاہب اورادیان کومحض عہدِرفتہ کی عظیم حکایتوں کے یاایک قصہ پارینہ کے طورپر قبول کیاجاتاہے۔مذہب انسانیت کاپیروکسی مافوق  الادراک ہستی اوروجود”خدا،ـ؛وحی،فرشتے،جن،جنت، اور دوزخ”کاایسامذہب انسانیت قرادیا جاتاہے جس کی روسے انسان کی ذات کائنات کامرکز ہے۔گویا کائنات(Human centric)ہے نہ کہ خدامرکز(God centric) اس مسلک انسانیت کے تقاضے کیا ہیں عالم آخرت کے بجائے عالم طبعی(Physical World)کامطالعہ اوراس کی ترقی کی کوشش اس مذہب انسانیت کا قائل نہیں ہوتا بلکہ انسان کی دنیاوی فلاح کی کوشش کوذریعہ نجات سمجھتا ہے۔

سیکولرازم کی عملی شکلیں:

۱۔’’کوئی شخص جو اللہ پرایمان رکھتا اورنمازوغیرہ پڑھتاہو۔لیکن اپنے عقیدے(اسلام)کے سیاسی،سماجی،معاشی،اوراجتماعی  معاملات مذہب کے اطلاق کو قبول نہ کرے،  بلکہ سیکولررہے۔
۲۔’’کوئی شخص یا گروہ اگر عقیدے کے سماجی مطالبات کونظراندازکرکے محض روحانی ذکروفکرپرزوردے وہ بھی سیکولرہے۔
۳۔کوئی بھی طرزِحکمرانی جِس میں حاکمیت اعلیٰ عوام الناس کی مانی جائے اورانہی کی خواہشات کوقانون سازی کامنبع تسلیم کیا جائے وہ بھی سیکولرہی ہے۔‘‘
عوام کی چاہت کے مطابق قانون بنانے کے لئے جمہوریت کانظام پیش کیا گیا،انقلاب فرانس کے بعداس نظام کوعروج ملا۔

سیکولرازم میں نظام سیاست کے موجود دو نظام اس وقت تک دنیا میں متعارف ہوئے ہیں:

۱-  جمہوریت

۲- ڈکٹیٹرشپ۔”آمریت”

سیکولرازم نے معیشت کانظام دوشقوں میں پیش کیا۔

1،کیمونزم Communism اشتراک
2۔کیپیٹلزم capitalismسرمایہ دارانہ نظام

 

سرمایہ دارانہ نظام کو زیادہ مقبولیت ملی۔سوداور جوا جس کی بنیادی جڑیں ہیں۔یہ بات واضح رہے کہ ان تمام نظاموں کی بنیادآزادی مساوات وترقی پرہے۔سیکولرازم نے ان اجتماعی مسائل کاحل اس طرح پیش کیا ہے۔

سیکولرازم جن معاشروں میں ابتداًپروان چڑھاوہ معاشرے مذہباًعیسائی تھے اوریہ تلخ حقیقت ہے ۔کہ اس وقت کے  معروضی حالات کے تناظرمیں عیسائیت لوگوں کی کامل رہنمائی سے قاصر تھی۔بنیادی طورپرعیسائیت ایک مذہب توہے مگر دین نہیں ہے۔مذہب کاانگلش میں ترجمہ کیاجاتاہے Religion  of people. چونکہ ان خطوں میں عیسائیت ہی رائج تھی اس لئے مذہبی لوگوں کو Religious کہہ دیاجاتاتھا۔دین کے لئے اس کے مکمل مفہوم کواداکرنے کے لیے بولاجاتا ہے۔The complete cord of lifeیعنی مکمل ضابطہ حیات۔یہ ہے دین کامطلب اور دنیا میں اسلام کے علاوہ باقی تمام مذاہب تو ہیں عیسائیت،یہودیت،ہندومت اس کے علاوہ غیرسماوی مذاہب ،ہندومت،بدھ مت،وغیرہ یہ چنداخلاقیات،عبادات اورتصورعبودیت تورکھتے ہیں مگرمکمل ضابطہ حیات نہیں دے سکتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جبکہ دوسری جانب دین اسلام بھی دعویدارہے کہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اوراللہ کے نزدیک صرف یہی قابل قبول ہے۔عصر حاضر میں ایک ضابطہ حیات کے طور پرلوگ عملی طورپرسیکولرازم کو قبول کیے ہوئے ہے۔انفرادی سطح پر مذہب اس میں سموسکتا ہے اجتماعی معاملات میں یہ ایک خاص طرززندگی فراہم کرتا ہے۔عصرحاضر میں نمو پانے والاطاقتور  نظام کوئی مذہب یعنی عیسائیت،یہودیت،ہندومت نہیں بلکہ سیکولرازم ہے اوراسلام کا صف اول کاحریف ہے باقی مذاہب تو اس کے اندرضم ہوگئے ہیں مگر اسلام اس کے اندر ضم نہیں ہوسکتا اس لیے کہ اسلام ایک مستقل معاشرت رکھتا ہے، باقاعدہ معاشرتی احکام رکھتا ہے کہ معاشرہ مخلوط نہیں  ہونا چاہیے۔ اس میں فلاں فلاں برائی کو قریب نہ آنے دیا جائے وغیرہ وغیرہ ۔ یعنی اسلام کی خودی نے دوسرے مذاہب کی طرح بے خود ہوکر فنا ہونے کو قبول نہیں کیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply