• صفحہ اول
  • /
  • گوشہ ہند
  • /
  • بیت المقدس اسرائیل کا دار الحکومت کیوں نہیں ہوسکتا؟۔مولانا سید احمد و میض ندوی

بیت المقدس اسرائیل کا دار الحکومت کیوں نہیں ہوسکتا؟۔مولانا سید احمد و میض ندوی

اسلام دشمنی کی آڑ میں صدارتی انتخابات جیتنے والے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدے کی تکمیل کرتے ہوئے بیت المقدس کے اسرائیلی راجدھانی ہونے کا اعلان کردیا ہے، امریکی صدر کا یہ فیصلہ امت ِمسلمہ کے جسم میں ایک ایسا کاری زخم ہے جس سے طویل عرصہ تک خون رستا رہے گا، یہ در اصل ملت ِاسلامیہ کے تشخص اور اس کے رگ ِجان پر حملہ ہے، جس کے نہ صرف دور رس اثرات مرتب ہوں گے بلکہ مشرق وسطیٰ کی نئی صورت گری ہوگی، ٹرمپ کا یہ اقدام گریٹر اسرائیل اور ہیکل سلیمانی کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی سمت عملی قدم ہے، اقوام متحدہ کی مرضی کے خلاف اور تمام بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ٹرمپ نے امریکی سفارت خانہ کو یروشلم منتقل کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے یہ در اصل پوری امت ِمسلمہ کو للکارنا ہے؛اس لیے کہ بیت المقدس کا مسئلہ اسلامی تاریخ، اسلامی ثقافت اور اسلامی عقائد سے جڑا ہوا ہے،بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے،معراج کے موقع پر محمد عربی ﷺ نے اسی مقام پر انبیاء کرام کی امامت فرمائی تھی، اسلام میں بیت المقدس کو حرم کا درجہ حاصل ہے، مکہ اور مدینہ منورہ کے بعد یہ مقدس ترین مقام ہے، بیت المقدس کی سرزمین حضرات انبیاء کرام کا مسکن رہی ہے، جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے اسی سرزمین کی طرف ہجرت فرمائی، حضرت داؤد علیہ السلام نے اسی سرزمین کو جائے سکونت کے طور پر اپنایا، اور یہیں اپنا ایک محراب بھی تعمیر فرمایا،

حضرت سلیمان علیہ السلام اسی جگہ سے ساری دنیا پر حکومت کرتے تھے،حضرت زکریا علیہ السلام کا محراب بھی اسی شہر میں ہے، اسی شہر میں حضرت مریم ؑکے بطن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسی سر زمین کے تعلق سے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ تم اس مقدس شہر میں داخل ہوجاؤ، قصۂ جالوت وطالوت کا تعلق بھی اسی سرزمین سے ہے، بیت المقدس میں پڑھی جانے والی ہرنماز کا اجر ۵۰۰گنابڑھا کر دیا جاتا ہے، یہ وہ مقام ہے جس کی زیارت کے لیے نبی اکرمﷺ نے امت کو تلقین فرمائی ہے، اسی سرزمین سے آپﷺ کو ساتوں آسمانوں پر لے جایا گیا، اور اسی سفر میں آپ نے جنت وجہنم کے مختلف مناظر دیکھے، اور متعدد انبیاء کرام سے ملاقات فرمائی، یہی وہ سرزمین ہے جہاں کئی معجزات وقوع پذیر ہوئے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جب ان کی قوم نے قتل کرنا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے اسی شہر سے انھیں آسمان پر اٹھالیا، قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ علیہ ا لسلام کا زمین پر نزول بھی اسی مقدس سرزمین پر ہوگا، اسی شہر کے مقام لُد پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام مسیح دجال کو قتل کریں گے، فلسطین ارض محشر ہے، اسی زمین سے یاجوج وماجوج کے فساد کا آغاز ہوگا، عہد ِفاروقی میں حضرت عمر فاروقؓ کا دنیا بھر کی فتوحات چھوڑ کر یہاں آجانا اور نماز ادا کرنا بھی اس کی عظمت کو اُجاگر کرتا ہے، اسلام میں بیت المقدس کا وہی مقام ہے جو حرمین شریفین کا ہے؛اسی لیے اسے قبلۂ اول اور تیسرا حرم کہا جاتا ہے،

یہ سرزمین دنیا کے سارے مسلمانوں کی عقیدتوں کا مرجع اور محبتوں کا مرکز ہے ، قرآن مجید نے الذی بارکنا حولہکے نہایت اونچے خطاب سے اسے یاد کیا، یہ انبیاء کی بستی ہے، اس کے چپے چپے میں تاریخ سانس لیتی ہے، اور یہاں کا ایک ایک ذرہ خوشبو میں بسا ہوا ہے، اسلام اور مسلمانوں سے اس قدر گہرا تعلق رکھنے والے بیت المقدس کو اسرائیلی راجدھانی قرار دینا در اصل پوری امت ِمسلمہ کو للکارنا ہے، امریکا کے جنونی صدر کے اس فیصلہ اور اس کی مکارانہ چالوں کی زد میں صرف فلسطین ہی نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ کا پورا خطہ آجائے گا، ویسے امریکی کانگریس نے ۱۹۹۵ء ہی میں القدس کو اسرائیلی راجدھانی قرار دینے کا فیصلہ کردیا تھا،مسئلہ کی حساسیت اور اس کے دور رس اثرات کے پیش نظر سابقہ امریکی صدور اسے ٹالتے رہے؛ لیکن موجودہ صدر نے ہر قسم کے عواقب ونتائج کی پرواہ کیے  بغیر ایک ایسا قدم اٹھایا ہے، جو پورے خطہ کو بدامنی کی آگ میں جھونک سکتا ہے۔

یروشلم جزیرۃ العرب کے اس خطہ کو کہاجاتا ہے جو موریہ،صیہون، اکرا اور بزلیتہا نامی چار پہاڑیوں کے درمیان آباد ہے،اس کی بنیاد مملکت سالم کے بادشاہ ملک صدق نے رکھی تھی، جس ملک میں یہ شہر آباد ہے اسے اس زمانہ میں یہودیہ، کنعان اور شام کہاجاتا تھا، مکمل ایک صدی کے بعد جب اس شہر پر یبوسی قابض ہوئے تو انھوں نے اس کا نام یابوس رکھ دیا، پھر مرور ِزمانہ کے ساتھ یبوسالم ہوا، اور اخیر میں یروشلم ہوگیا، اس شہر کو القدس یا بیت المقدس کہا جاتاہے، یہ شہر اگرچہ مسلمان، عیسائی اور یہودی آسمانی مذاہب کی حامل تینوں بڑی قوموں کے یہاں مقدس ہے؛ لیکن یہ حقیقت ہے کہ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ تاریخ کے تمام ادوار میں اہل اسلام ہی کی ملکیت رہی، بیت المقدس کے تعلق سے عیسائیوں اور یہودیوں کا حق تسلیم کرنا سراسر غلط ہے،

اس شہر کی ابتدائی تاریخ کا سرسری جائزہ اس حقیقت کی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہودی القدس یا فلسطین کے اصل باشندے نہیں ہیں، بیت المقدس کے اصل باشندے ہونے کا یہودی دعویٰ محض مغالطہ ہے، قدیم تاریخی مآخذ سے پتہ چلتا ہے کہ اس علاقے کے اصل باشندے کنعانی عرب تھے، طوفان نوح کے بعد جو قومیں سامی اقوام سے مشہور ہوئیں ان کا اولین مسکن جزیرۃ العرب تھا، جس کی سرحدیں مشرق میں خلیج عقبہ اور فلسطین تک اور شمال مشرق میں نہر فرات تک پھیلی ہوئی ہیں، علامہ سید سلیمان ندوی کے مطابق اکثر قابل لحاظ یورپی مورخین نے اسی کی تائید کی ہے، یہود کی تاریخ شاہد ہے کہ وہ القدس میں جس کی تعمیر کنعانیوں نے کی تھی ، تقریباً ۱۳۰۰ برس قبل مسیح داخل ہوئے، اور ۲۰۰ سال کی طویل کشمکش کے بعد اس پر قابض ہوئے، اس لحاظ سے القدس یا یروشلم کے اصل باشندے یہودی نہیں کنعانی تھے، القدس یا فلسطین میں یہودیوں کی آمد حقیقی باشندوں کے طور پر نہیں؛ بلکہ غاصبین کے طور پر ہوئی، اصل باشندوں کا قتل عام کرکے اس علاقہ پر یہودی قابض ہوئے ، اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کے ذریعہ بنی اسرائیل کو نبوت وبادشاہت عطا فرمائی تھی،

ان پیغمبروں کے ذریعہ ان کی متحدہ ریاست قائم ہوئی؛ لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد یہودی نہ صرف آپسی خانہ جنگی کا شکار ہوئے ؛ بلکہ اپنے پیغمبروں کی تعلیم سے دوری اور خدا کی نافرمانی کے سبب وہ متعدد مرتبہ عذاب الٰہی سے دوچار ہوئے، یہودی سلطنت کے پانچویں سال شاہ ِمصر سیسق نے القدس پر چڑھائی کی تھی؛ چنانچہ کتاب ’سلاطین‘‘ میں لکھا ہے :’’رجیعام بادشاہ کے پانچویں سال شاہ ِمصر سیسق نے یروشلم پر چڑھائی کردی، اور اس نے خدا وند کے گھر کے خزانوں اور شاہی محل کے خزانوں کو لے لیا‘‘ اس کے بعد تقریباً ۷۴۰ق م میں آشوریوں نے یہود کو فلسطین سے بے دخل کردیا، پھر بخت نصر کا حملہ ہوا جس میں توریت ضائع ہوگئی، اور بہت سے یہودی مارے گئے،اور کچھ کو بابل لے جاکر قید کیا گیا، بخت نصر کے حملہ کے بعد پھر ایرانیوں کے ذریعہ کچھ عرصہ کے لیے فلسطین ہی میں انھیں آباد ہونے کا موقع ملا،مگر زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ یونانی اور رومی ان پر قہر الٰہی بن کر ٹوٹ پڑے، اور انھیں فلسطین سے بے دخل کردیا، طیطس رومی کے حملہ میں لاکھوں میں یہودی قتل کردئے گئے، اور ہیکل مقدس کو جلادیا گیا،

اس حادثہ کے ۶۵ سال بعد قیصر کے عہد میں پانچویں مرتبہ یہودیوں نے بغاوت کی؛ مگر انھیں شکست سے دوچار ہونا پڑا، قیصر نے نہ صرف یہودیوں پر بدترین ظلم کیا؛ بلکہ ہیکل کو تباہ کرکے اس پر ہل چلوادیا، اور وہاں ایک مندر تعمیر کروایا، اسی زمانہ میں یروشلم کا نام ایلیاء رکھ دیاگیا، قیصر کے حملہ میں تقریباً پانچ لاکھو یہودی مارے گئے، اس سے قبل بخت نصر کے حملہ میں ہیکل سلیمانی کو زمیں بوس کردیا گیا تھا، اور طویل عرصہ تک یہودی جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے، ایرانی دور اقتدار میں جب پھر سے یہودی جنوبی فلسطین میں آباد ہوئے تو دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی گئی، اس مرتبہ یہودی ۴۰۰ سال سے زیادہ نہیں ٹک سکے، رومی سلطنت کے خلاف بغاوت کی پاداش میں جب انھیں دوبارہ جلاوطن کردیا گیا تو جنوبی فلسطین میں عرب قبائل اسی طرح آباد ہوئے جس طرح وہ ۸۰۰ سال پہلے شمالی فلسطین میں آباد تھے۔

اس پوری تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ یہودی فلسطین اور بیت المقدس کے اصل باشندے نہیں تھے، اورارض فلسطین پر ان کا دعویٰ کسی طرح درست نہیں، شمالی فلسطین میں یہودیوں کی مدت ِاقامت ۴۰۰ سال اور جنوبی فلسطین میں ۸۰۰ سال سے زیادہ نہیں؛ جب کہ یہودیوں کے برخلاف عرب قبائل شمالی فلسطین میں ڈھائی ہزار سال سے اور جنوبی فلسطین میں ۲۰۰۰ سال سے آباد ہیں، پھر ۱۶ھ ؁ میں حضرت عمر فاروقؓ کے عہد خلافت میں مسلمانوںنے بیت المقدس فتح کرلیا، اور وہاں اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا، اموی خلیفہ عبد الملک کے زمانہ میں یہاں مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرۃ کی عالی شان تعمیر ہوئی، فتح بیت المقدس کے ۴۶۲ سال بعد ۱۰۹۹ء میں پہلی صلیبی جنگ کے موقع پر بیت المقدس پر عیسائیوں کا قبضہ ہوا،جس میں ستر ہزار مسلمان شہید کردیے گئے؛

 لیکن ۸۸ سال بعد ۱۱۸۷ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں بیت المقدس پھر فتح ہوکر مسلمانوں کے زیر نگوں آگیا، ۱۲۲۸ ء سے ۱۲۴۴ء تک اس مقدس شہر کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھین لیا گیا، اس طرح ایک سو سال کے علاوہ ۶۳۷ ء سے ۱۹۱۷ء تک یہ مبارک شہر مسلمانوں ہی کے قبضہ میں رہا، بالآخر ۱۹۱۷ء میں خلافت ِعثمانیہ کے زوال کے ساتھ بیت المقدس اور فلسطین کے دوسرے علاقے برطانیہ کے زیر قبضہ آ گئے،اور یہیں سے فلسطین اور بیت المقدس کے خلاف سازشوں کا جال بنا جانے لگا، برطانیہ نے ۲؍ نومبر ۱۹۱۷ء میں یہودیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جسے بالفور معاہدہ کہا جاتا ہے، اس معاہدہ میں برطانوی وزیر خارجہ بالفور نے ایک یہودی نمائندہ کے نام اپنی ایک تحریر کے ذریعہ فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن بنانے کی اجازت دے دی، برطانیہ کا یہ معاہدہ بدترین خیانت تھی،۱۹۴۵ء میں اقوام متحدہ نے فلسطین میں یہودی حق کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے ایک حصہ پر یہودیوں کو اپنی حکومت بنانے کی قانونی اجازت دے دی، ۱۹۴۷ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو یہودیوں اور عربوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ صادر کیا، بالآخر ۱۹۴۸ء میں ارض فلسطین پر اسرائیل کی شکل میں ایک ناجائز مملکت وجود میں آگئی،
خلافت ِعثمانیہ کے آخری خلیفہ عبد الحمید ثانی پر جب مغربی ملکوں نے فلسطین کو یہودیوں کے حوالے کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تو عثمانی خلیفہ نے صاف الفاظ میں کہا کہ سرزمین فلسطین کا ایک انچ بھی یہودیوں کو نہیں دوں گا؛ کیوں کہ فلسطین میرا نہیں امت کا ہے،اور امت نے اس سرزمین کی حفاظت کے لیے اپنا خون بہایا ہے،۱۹۴۸ء سے ۱۹۶۷ء تک القدس شہر مسلمانوں کے ملک اُردن ہی کا ایک حصہ رہا، ۱۹۶۷ء میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد فلسطین دیگرعلاقوں کے ساتھ القدس شہر پر بھی اسرائیل قابض ہوا؛ اگرچہ اسرائیل طاقت کے زور پر القدس پر قابض ہوا؛ لیکن اس سے القدس قانونی طور پر اسرائیل کا حصہ ہوا ہے اور نہ آئندہ کبھی ہوسکتا ہے؛ اس لیے کہ جس وقت برطانیہ اور اقوام متحدہ کی سرپرستی میں اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا، اسی وقت یہ بات طے کردی گئی تھی کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہوگا، ایسے میں امریکی صدر کا یروشلم کو اسرائیلی راجدھانی قرار دینا اور سفارت خانہ کو ادھر منتقل کرنے کا فیصلہ کرنا بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے، ۲۹؍ نومبر ۱۹۴۷ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرار داد نمبر ۱۸۱کے تحت یہ فیصلہ دیا کہ یروشلم کی حیثیت CORPUS SEPARATUM کی ہوگی، یعنی یہ شہر اب کسی ایک ریاست کا حصہ نہیں؛ بلکہ اس کی جداگانہ حیثیت ہے؛چوں کہ یہ شہر تینوں مذاہب کے لیے محترم ہے؛ اس لیے اس علاقے میں فلسطین اور اسرائیل کے نام سے دو یارستیں تو رہیں گی؛ لیکن یروشلم کی جداگانہ حیثیت ہوگی، اس کا انتظام اقوام متحدہ چلائے گی،
۱۱؍ ستمبر ۱۹۴۸ء کی قرار داد نمبر ۴۹۱ میں بھی اقوام متحدہ نے اس بات کا اعادہ کیا، نیز اسی بات کو فلسطین پر اقوام متحدہ کے کمیشن (UNCCP) نے ۱۹۴۹ء میں سوئزر لینڈ کے شہر لاؤزین میں ۲۷؍اپریل سے ۱۲؍ ستمبر تک جاری کانفرنس میں بھی دہرایا، اتنا ہی نہیں ۱۹۴۹ء میں اسرائیل نے جب مصر،اردن، شام اور لبنان سے صلح کے معاہدہ کیے  تو ان میں بھی یروشلم کی یہ حیثیت برقرار رکھی گئی، ایک انتظام کے تحت مشرقی یروشلم اردن کے پاس چلا گیا، مسجد اقصیٰ، قبۃ الصخرۃ ، مغربی دیوار اور کنیسۃ القیامۃ سارے مقدس مقامات اسی مشرقی یروشلم میں واقع ہیں، ۱۹۶۷ء تک یہ مقامات مسلمانوں ہی کے پاس رہے اور اردن ان کے انتظامی معاملات کو دیکھتا رہا، ۱۹۶۷ء کی جنگ میں اسرائیل مشرقی یروشلم پر قابض ہوا؛ لیکن عالمی برادری نے آج تک اس قبضہ کو تسلیم نہیں کیا، اقوام متحدہ کے مطابق مشرقی یروشلم مقبوضہ فلسطین ہے ، اسے کسی صورت اسرائیل نہیں کہاجاسکتا، سلامتی کونسل نے ۲۲؍ نومبر ۱۹۶۷ء کو قرار داد نمبر ۲۴۲ کے ذریعہ اسرائیل کو مشرقی یروشلم چھوڑنے کاحکم صادر کیا، اس قرار داد کو امریکہ  سمیت ۱۵ ممالک کے ووٹ ملے، پھر ۴؍ جولائی ۱۹۶۸ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرار داد نمبر ۲۲۵۳کے ذریعہ یروشلم پر اسرائیلی قبضہ کو غیر قانونی اور ناجائز قرار دیا،اور یہ کہا گیا کہ اسرائیل ہر ایسے اقدام سے باز رہے جو یروشلم کی حیثیت کو تبدیل کرتا ہو۔

۱۳ سال اسی طرح گزر گئے، ۱۹۸۰ء میں اسرائیل نے اقوام متحدہ کی تمام قرار دادوں کو پیروں تلے روندتے ہوئے اعلان کردیا کہ یروشلم اس کا دارالحکومت ہوگا، اور ساتھ ہی اس نے تمام ممالک سے خواہش کی کہ وہ اپنے سفارت خانے یروشلم منتقل کریں، اسرائیل کے اس اعلان کے ساتھ ساری دنیا میں بھونچال آگیا، عرب ملکوں کی تنظیم او آئی سی نے اعلان کردیا کہ جو ملک اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کرے گا سارے مسلم ملکوں سے اس کے سفارت خانے اور سفارتی تعلقات منقطع کرلئے جائیں گے، پھر اقوام متحدہ نے ۳؍ جون کو قرار داد نمبر ۴۷۶اور ۲۰؍ اگست ۱۹۸۰ء کو قرار داد نمبر ۴۷۸پاس کی، جس کے تحت اسرائیل کے اقدام کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دے کر تمام ممالک سے کہاگیا کہ وہ اقوام متحدہ کے فیصلہ کو مانیں، اور کوئی ملک اپنا سفارت خانہ یروشلم نہیں لے جائے گا، اقوام متحدہ کی اس قرار داد کے بعد بعض وہ ممالک جنھوں نے اپنا سفارت خانہ یروشلم کو منتقل کیا تھا پھر تل ابیب لے آئے، امریکہ کو بھی ہمت نہ ہوسکی کہ وہ اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کرے،

دسمبر ۱۹۸۰ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیل کے اس اقدام کوغیر قانونی اور جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی قرار دیا، پھر ۱۹۹۰ء میں جب اسرائیل نے مسجد اقصیٰ میں مسلمانوں پر تشدد کیا تو سلامتی کونسل نے ۱۲؍ اکتوبر کو قرار داد نمبر ۶۷۶کے ذریعہ اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کی پامالی کا مرتکب ٹھہرایا، اور یہ کہا کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہے، یروشلم کی حیثیت کے  تعین کے لیے ۲۰۰۴ء میں یہ معاملہ عالمی عدالت میں بھی پیش کیاگیا،اور عالمی عدالت نے بھی صراحت کردی کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہے، اس میں مزید یہ بھی کہاگیا کہ اسرائیل یروشلم میں دیوار تعمیر نہیں کرسکتا؛ کیوں کہ یہ اس کا حصہ نہیں ہے، حیرت ہے کہ جس یروشلم میں عالمی عدالت نے دیوار تک تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی آج امریکہ وہاں اپنا پورا سفارت خانہ لے جانا چاہتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ فلسطین کے خلاف سازش میں خود اقوام متحدہ بھی برابر کی شریک ہے؛ اس لیے کہ برطانیہ کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کا فلسطین کوتقسیم کرنا خود ایک ظالمانہ فیصلہ تھا، فلسطین کی مکمل سرزمین مسلمانوں کی ہے، اسے تقسیم کرکے اس کے ایک حصہ کو صہیونیوں کے حوالے کرنا اور یروشلم کو مکمل فلسطینیوں کے حوالے کرنے کے بجائے اسے بین الاقوامی شہر قرار دے کر متنازع بنادینا اقوام متحدہ کا سنگین جرم ہے، یروشلم کے تعلق سے اسرائیل کی اس حکمت عملی کا اصل مقصد مسجد اقصیٰ کا انہدام اور اس کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر ہے، اقوام عالم جب بیت المقدس کو اسرائیلی راجدھانی تسلیم کرلیں گے تو اسرائیل کے لیے مسجد اقصیٰ کو ڈھا کر اس کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر آسان ہوجائے گی، یروشلم سے متعلق امریکی صدر کے حالیہ اقدام کا سب سے شرمناک پہلو یہ ہے کہ ٹرمپ کے اس اقدام کو پس پردہ عرب حکمرانوں کی مکمل تائید حاصل ہے؛ بالخصوص بعض عرب ممالک کے شرمناک کردار پر بے شمار شواہد موجود ہیں،

میڈیا کے بعض ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی انتظامیہ نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا باضابطہ دار الحکومت تسلیم کرنے سے قبل چند مسلم ممالک کے سربراہان سے مشاورت کی تھی، اس بات کا انکشاف خود اسرائیلی ٹی وی چینل ۱۰ نے اپنے ایک پروگرام کے دوران کیا، یہ کس قدر شرمناک بات ہے کہ ٹرمپ کے حالیہ فیصلہ سے قبل بعض عرب ملکوں کے عہدیداروں نے تل ابیب کا خفیہ دورہ تک کیا، تف ہے ان حکمرانوں پر جو اسلامی مقامات  تک  کا سودا کرنے سے نہیں چوکتے،انھیں فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی سے کچھ تو عبرت لینی چاہیے، سلطان سے جب پوچھا گیا کہ آپ مصر، شام اور لبنان کے سلطان ہیں؛ لیکن کبھی آپ کو مسکراتے نہیں دیکھا گیا؟ انھوں نے جواب دیا: میں کیسے مسکراؤں، جب کہ بیت المقدس عیسائیوں کے قبضہ میں ہے، ایک مرتبہ نجومیوں نے بتایا کہ اگر آپ نے بیت المقدس کی طرف پیش قدمی کی تو آپ کی ایک آنکھ ضائع ہوسکتی ہے، سلطان نے جواب دیا: تم میری ایک آنکھ کی بات کرتے ہو، خدا کی قسم مجھے بیت المقدس میں اندھا ہوکر داخل ہونا پڑے تب بھی میں بیت المقدس کی طرف پیش قدمی کروں گا۔

بیت  المقدس اور مسجد اقصیٰ ساری امت ِمسلمہ کا مسئلہ ہے، حکمرانوں کی سطح پر بھی متحرک ہونے کی ضرورت ہے، اور عام مسلمانوں کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانے کی ضرورت ہے،عالم اسلام کو چاہیے کہ وہ واضح لفظوں میں دنیا کے سامنے اپنا موقف رکھے کہ مسجد اقصیٰ ہمارا قبلۂ اول ہے، ہم کسی بھی صورت میں اس سے دست بردار نہیں ہوسکتے، اور بیت المقدس کو اسرائیلی دار الحکومت بننے نہیں دیں گے، اسی طرح عالم اسلام اقوام متحدہ پر دباؤ ڈالے کہ وہ فلسطین کو ایک مستقل علیحدہ ریاست ہونے کا اعلان کرے اور بیت المقدس کو اس کا دار الخلافہ تسلیم کرے، مسلم حکمرانوں کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ فلسطینیوں کو اخلاقی اور مادی تعاون پیش کریں اور مکمل اتحاد کا مظاہرہ کریں، اور عام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلہ کی حقیقت کو خود بھی سمجھیں اور دوسروں کو بھی سمجھائیں، نیز اسرائیلی اور امریکی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں، اللہ تبارک وتعالیٰ سے خوب دعا کا اہتمام کریں، نیز اپنے معاشرے کی اصلاح اور احکامِ الٰہی کی پابندی کریں، یہ حقیقت ہے کہ جب تک خود مسلمانوں میں دین پر استقامت نہیں آئے گی تب تک مسجد اقصیٰ کی بازیابی ممکن نہیں، جب اسرائیل کی سابق وزیر اعظم گولد مائیرسے پوچھا گیا کہ کیا مسلمان یہودیوں پر پھر غالب آسکتے ہیں؟ تو اس نے جواب دیا کہ ہاں، لیکن اس وقت جب مسلمانوں کی تعداد نماز فجر میں اتنی ہی ہونے لگے، جتنی جمعہ میں ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ سیاست۔

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply