پاکستان میں ابھرتا فاشزم اور لیفٹ کی سیاست۔ اسد الرحمٰن

پاکستان میں لیفٹ سے جڑے جتنے بھی رجحانات ہیں ان میں موجودہ سیاسی صورتِ حال کی تفہیم اور طریقہ کار و لائحہ عمل پہ شدید اختلافات موجود ہیں ان میں سے کچھ اختلافات کی نوعیت تو گروہی یا شخصی پسند نا پسند اور جاہ طلبی ہے تاہم حقیقی نظریاتی اختلافات بھی موجود ہیں۔ بیسویں صدی کا سایہ ابھی تک لیفٹ کے سیاسی منظر نامے پہ ایک دھند کی طرح موجود ہیں اور معروضی صورت حال کو دیکھنے میں رکاوٹ بھی پیدا کر رہی ہے۔ کسی بھی سیاسی تنظیم کےلئے سیاسی صورت حال کا درست تناظر سب سے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ پوری دنیا سمیت ساری دنیا میں ایک نئی طرز کا فاشزم ابھر رہا ہے۔ اس فاشزم کو بیسویں صدی کے فاشزم سے وہی نسبت ہے جو کہ آج کے اسلام کو ابتدائی اسلام سے ہے۔

مسولینی اور ہٹلر کا فاشزم ایک پولیٹکل پراجیکٹ تھا جو کہ یورپ میں ایمپائرز کے خاتمے اور جدید قومی ریاست و نمائندہ پارلیمانی سیاسی ڈھانچے کے آغاز میں ابھر کر سامنے آیا۔ عالمی کساد بازاری نے بھی جلتی پہ تیل کا کام کیا اور جرمنی جس میں کہ فاشسٹ حمایت میں کمی آ رہی تھی 1930 میں ہونے والے نیویارک اسٹاک ایکسچینج کے کریش کے بعد پھر سے حمایت پکڑنے لگی۔ فاشسٹ چاہے اطالیہ میں ہوں یا سپین میں یا جرمنی میں سب کی کوشش ریاست کی طاقت پہ قبضہ کر کے ایک مخصوص سیاسی نظریے کے تحت ایک نیا سوشل آرڈر قائم کرنا ہی ان کا مطمع نظر تھا۔ فاشسسٹ ریاستوں کے قیام کا مطلب تھا کا ریاست کے خلاف بولنا جرم ہو گا اور ریاست ہی آزادی اظہار پہ پابندی لگائے گی۔

تاہم آج اکیسویں صدی کا ابھرتا ہوا فاشزم اپنی ہیت، ڈھانچے اور اثر پذیری تینوں میں ہی مختلف کیفیت کا حامل ہے

1۔ موجودہ فاشسٹ ابھار کسی ایک پارٹی یا تحریک کی شکل میں موجود نہیں بلکہ بہت سے مختلف رجحانات کا مجموعہ ہے

2۔ اس کا مقصد ریاست پہ قبضہ نہیں بلکہ ریاست کو دفاعی پوزیشن پہ لے جانا ہے

3۔ یہ پسے ہوئے یا مارجنلائزڈ سماجی پرتوں کی ایک تحریک کی نمائندگی کی بجائے ان پرتوں کو مزید مارجنلائز کرنے کا عزم اور ارادہ رکھتا ہے

ان بنیادی اجزا کو اگر ہم سامنے رکھ کر دیکھیں تو پاکستانی مڈل لوئر مڈل کلاسز میں ایک نئی وحشت ابھرتی ہوئی نظر آتی ہے جو کہ مزدوروں کو جلا دینا چاہتی ہے ، عورتوں کے تمام بنیادی حقوق چھین لینا چاہتی ہے اور بلاسفیمی کی آڑ میں ہر قسم کی تنقید کا گلا بھی گھونٹ دینا چاہتی ہے۔ پاکستانی ریاست جو کہ پہلی ہی کسی طور پہ پسے ہوئے طبقات کو کسی قسم کی امید یا حوصلہ دینے سے بے غرض ہو چکی ہے اور اس کا سارا فوکس اس وقت چین سے آنے والے پیسے کی بند بانٹ اور علاقائی جیو پالیٹکس میں اٹکا ہے وہ ان ابھرتے ہوئے رجحانات کی پشت پناہی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔

جرمنی میں تو ایک پارٹی نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد یہودیوں کو قانونی طور پہ نسلی امتیاز کا شکار بنایا لیکن پاکستان میں اس کے الٹ معاشرے میں موجود سماجی و سیاسی گروہوں نے  احمدی اقلیت کو قانونی  طور پہ مسلمان کیٹگری سے نکلوا دیا۔ اس کے بعد سے ریاست مسلسل اپنے جوازِ اقٹدار کو برقرار رکھنے کے لئے  ان گروہوں کے ساتھ درپردہ اور کھلم کھلا تعلقات برقرار رکھنے کےلئے  مجبور ہے۔ اس کی چند بنیادی وجوہات میں سے ایک پاکستانی ریاست کی اپنے کالونیائی ڈھانچوں سے آزاد نہ ہونا ہے۔ ریاست سے بنیادی سہولیات کی فراہمی تک رسائی حاصل کرنے کے لئے عام لوگوں کو بروکرز کی ضرورت پڑتی ہے پہلے یہ کام زمیندار اور جاگیردار یا ان کے مقرر کردہ نمائندے کرتے تھے لیکن آہستہ آہستہ ان غیر رسمی نیٹ ورک کی ہیت اور حیثیت میں نمایاں تبدیلیاں واقع ہوئیں ، نئے لوگوں کو اندر آنے کا موقع ملا نئی طرز کی نمائندگی کے اسباب پیدا ہوئے۔

ان نئے ابھرنے والوں نمائندوں میں سے ایک نمائندہ مولوی بھی ہے۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ کسی ایک مولوی خادم یا طاہر القادری یا فضل اللہ کو ہی کہانی کا ہیرو یا ولن سمجھ لیا جاتا ہے لیکن اس کو ایک سماجی پرت کے طور پہ اور عام گلی، محلے یا گاؤں  میں ایک سماجی و سیاسی نمائندے کے طور پہ نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ مولانا حضرات کی موجودگی بازار میں بھی ہے، محلے میں بھی درگاہ میں بھی اور سکول و مدرسے میں بھی۔ ان کو یا اسلام کو اصولی طور پہ تشدد پسند کہ کر دامن جھاڑ لینا درست نہیں ہے بلکہ کم از کم پنجاب اور کے پی کی سطح پہ ان کے سماجی و سیاسی اثر و رسوخ کو سمجھنا لیفٹ کے لیے لازمی ہے۔ لیفٹ کا پرانا تجزیہ کہ پاکستان سماج میں مذہبیت موجود نہیں اپنی قوتِ وضاحت کھو چکا ہے۔ بڑھتی ہوئی سماجی و معاشی پراگندگی میں مذہب ایک نہایت طاقت اور مستحکم مرکز کے طور پہ منواتا جا رہا ہے۔

معاشی طور پہ تیزی سے بڑھتے ہوئے مسائل، آبادی میں ہوش ربا اضافہ، انتظامی ڈھانچوں کی گرتی ہوئی افادیت اور بنیادی سہولیات کی فراہمی میں ناکامی کے باعث عوام میں خاصی حد تک غم و غصہ موجود ہے لیکن یہ غصہ بجائے ریاست یا حکمران طبقے پہ نکلنے کے پبلک پراپرٹی پہ یا اپنے جیسے عوام پہ ہی نکلتا ہے۔ لیفٹ عوام کے اس غصہ کو [false consciousness] سے محمول کرتا ہے جو کہ میرے خیال میں ایک درست طرزِ عمل نہیں ہے۔ بہت ساری مخلتف تحریکوں کو چاہیے  وہ تھرپارکر میں ڈیم کے خلاف تحریک ہو یا بلوچستان میں مسنگ پرسن کی، ڈاکٹرز کی تحریک ہو یا نرسوں کی ، کسانوں کی تحریک ہو یا پھر عام عوام کی پانی کی فراہمی کی مانگ کی اگر ہمیں فاشزم کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے ہیں تو ان سب کا حصہ بننے پڑے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ بیسیویں صدی کے ہینگ اوور میں ڈوبے کچھ قضئیے بھی پیچھے چھوڑنا ہوں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان میں سے سب سے اہم لبرل ازم کے خلاف ایک اندرونی محاز آرائی سے پیچھا چُھڑانا ہے۔ اور دوسرا لیفٹ کو کسی نہ کسی سطح پہ مذہب سے نسبت کو پیدا کرنا پڑے گا کیونکہ کسی بھی ثقافت میں رہ کر اس سے جڑے تصورات ، تاریخ ، علامات سے کنارہ کشی نہیں کی جا سکتی۔ سیکولر سیاست مقابلہ مذہبی سیاست کی تفریق درست نہیں کیونکہ سیاست میں عوام کے جذبات اور عقائد لازماً  در آتے ہیں۔ ہمیں اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ لوگ مذہبی اس کے پیچھے ریاست کی کوئی سازش ہے بلکہ لوگ مذہبی اس لئے ہیں کیونکہ وہ ایک مذہبی ماحول میں جنم لیتے اور پروان چڑھتے ہیں ۔ جس طرح لاطینی امریکہ میں لبریشن تھیالوجی کی تحریک نے مقامی انڈین کسانوں اور مزدوروں کی قیادت کرتے ہوئے ایک نئے سماجی معاہدے کی بنیاد رکھی اس طرز پہ پاکستان میں مذہبی فکر سے کوئی تعامل کیے بنا اس ابھرتے ہوئے فاشزم کا راستہ روکنا ممکن نہیں ہو گا

Facebook Comments

اسد رحمان
سیاسیات اور سماجیات کا ایک طالبِ علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”پاکستان میں ابھرتا فاشزم اور لیفٹ کی سیاست۔ اسد الرحمٰن

  1. لیکن مولویوں کی کون سی پرت سے اور کیسے جڑت بنائی جا سکتی ہے? مذہب کی مخالفت جان بوجھ کر نہیں کی جاتی بلکہ جب ہر امر اور فعل کو مذہبی عینک سے دیکھایا جاتا ہے اور حقیقت پر پردہ ڈالا جاتا ہے تو معاملات بگڑ جاتے ہیں. ان کی ایک بات مان لی جائے تو ڈو مور کا مطالبہ شروع ہو جاتا ہے.

Leave a Reply