کاغذ۔۔وہاراامباکر

دو ہزار سال پہلے یہ چین میں قیمتی اشیا کو لپیٹنے کے لئے ہونے والی ایجاد انسانی ذہن کی نمو کے لئے سب سے بڑا ذریعہ بن گئی۔ بانس سے ہلکا، ریشم سے سستا کاغذ لکھنے کے لئے استعمال ہونے لگا۔ جلد ہی یہ عرب پہنچ گیا۔
یورپ تک پہنچتے ہوئے اسے بہت وقت لگا۔ چھاپہ خانے کی ایجاد سے چند دہائیاں پہلے ہی یہ جرمنی تک آیا تھا۔ اتنی دیر کیوں؟ اس کی ایک وجہ موسم تھا۔ یورپ کے سرد اور نم موسم میں عرب میں بنا ہوا کاغذ یورپ میں زیادہ کارآمد نہیں تھا۔ یہاں پر اس کی کچھ مختلف قسم درکار تھی۔ لیکن بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ اس کی مانگ نہ تھی۔ صدیوں تک یورپ میں چرمی کاغذ استعمال ہوتا رہا جو چمڑے سے بنتا تھا۔ اور یہ مہنگا تھا۔ چرم پر لکھی ایک بائبل کے لئے 250 بھیڑوں کی کھال درکار تھی۔ بہت کم لوگ پڑھ لکھ سکتے تھے۔ اس لئے یہ مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن جب کمرشل طبقے کا عروج ہوا تو روزمرہ کی تحریر کی مانگ بڑھنے لگی۔ معاہدے اور کھاتے رکھنے کے لئے لکھنے والے سستے میٹیریل کی ضرورت تھی اور اس کے لئے عربوں کا یہ سستا میٹیریل پرکشش لگنے لگا۔ اور سستے کاغذ کی وجہ سے چھاپہ خانہ قابلِ عمل ہوا۔ کسی کتاب کی بہت سی کاپیاں بنانے کے لئے لاکھوں بھیڑوں کو ذبح کرنے کی ضرورت ہوتی تو چھاپہ خانہ بے کار ہوتا۔
چھاپہ خانے نے ریفارمیشن کی تحریک شروع کی۔ سائنس، ناول، نصاب کی کتاب اور بہت کچھ۔ لیکن پرنٹنگ کے لئے کاغذ کا استعمال تو محض ایک آغاز تھا۔ اب ہم اپنی دیواروں کو اس سے سجاتے ہیں۔ خواہ وال پیپر کی صورت میں یا پھر پوسٹر اور فوٹوگراف لگا کر۔ ہم چائے کے بیگ اور کافی کے فلٹر بناتے ہیں۔ دودھ اور جوس کے ڈبے بنتے ہیں۔ اور اس کے کارڈ بورڈ سے صندوق بنائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ عمارتی میٹیریل کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ لپیٹنے کے لئے کاغذ بھی ہیں اور ریگ مال بھی۔ نیپکن بھی ہیں، اور دکان سے ملنے والے رسید بھی۔ ڈاک کے اور میچ کے ٹکٹ بھی۔ ٹائلٹ میں استعمال ہونے والے پیپر اور ٹشو پیپر بھی۔
کاغذ دیدہ زیب یا آرٹ کا کام نظر آئے لیکن یہ صنعتی پراڈکٹ ہے جو بہت بڑے سکیل پر بنائی جا رہی ہے۔ یورپ میں لگنے والے سب سے پہلی بھاری صنعت کاغذ کی ہی تھی۔ ابتدائی کاغذ دھنکی ہوئی روئی سے بنتا تھا۔ اس خام مال کو توڑنے کے لئے کیمیکل درکار تھا اور بہترین کیمیکل امونیا کام کرتا تھا جو پیشاب سے آتا تھا۔ صدیوں تک کاغذ کی ملیں شدید بدبو کی جگہ تھیں۔ دھنکنے کے لئے بہت سی توانائی کی ضرورت تھی۔ پہاڑی ندیوں سے آنے والی توانائی سے بھاری ہتھوڑے یہ کام کرتے تھے۔
ابتدائی پروسیجر کے بعد کپاس کی سیلولوز ٹوٹ جاتی اور ایک گاڑھی یخنی کی صورت میں تیرتی پھرتی۔ اس کو انڈیل کر سکھا لیا جاتا اور سیلولوز ایک مضبوط لچکدار قالین سے بنا لیتی۔ یہ کاغذ تھا۔
اس پراسس میں ایک کے بعد دوسری innovation آتی گئی۔ تھریشنگ مشینیں، بلیچ، additive ۔۔۔ ہر ایک سے کاغذ کی پیداور جلد اور سستی ہوتی گئی۔ کاغذ ایک سستا پراڈکٹ بن گیا۔ مڈل کلاس بھی اس کو استعمال کر سکتی تھی۔ اور 1702 میں یہ اتنا سستا ہو گیا تھا کہ اس میٹیریل کو ایک ایسی پراڈکٹ بنانے کے لئے استعمال کیا گیا، جس کی عمر صرف چوبیس گھنٹے تھی۔ یہ دنیا کا پہلا اخبار The Daily Courant تھا۔
اس کے بعد ایک ناگزیر بحران آیا۔ کاغذ کی مانگ اس قدر بڑھ گئی تھی کہ اس کا خام مال کم پڑ گیا تھا۔ سیلولوز بنانے کا ایک اور متبادل تھا جو لکڑی تھی۔ چینیوں کو اس سے کاغذ بنانا آتا تھا لیکن یورپ میں کپاس سے لکڑی کی تبدیلی سست رفتار سے ہوئی۔ 1719 میں ایک فرانسیسی بائیولوجسٹ انتوان ڈی ریوموغ نے ایک سائنسی پیپر لکھا جس میں انہوں نے نشاندہی کہ کہ بھڑیں اپنا چھتا لکڑی چبا کر کاغذ سے بناتی ہیں تو انسان اس طرح کا کام کیوں نہیں کر سکتے؟ اس کو کئی برسوں تک نظرانداز کیا گیا۔ جب اس بحران کے وقت لکڑی کی طرف توجہ دی گئی تو معلوم ہوا کہ لکڑی اتنا آسان خام مال نہیں ہے اور اس میں کپاس جتنا سیلولوز نہیں ہے۔ انیسویں صدی کے وسط میں جا کر لکڑی یورپی کاغذ کے لئے بڑا سورس بنی۔
آج کاغذ کا سب سے بڑا حصہ کاغذ سے ہی بنتا ہے۔ یہ ری سائیکل ہونے والا کاغذ ہے۔ اور سب سے زیادہ یہ چین میں ہوتا ہے۔ چین میں ایک لیپ ٹاپ بنتا ہے۔ اس کو ننگبو کی پیپر مل سے آنے والے کارڈبورڈ کے ڈبے میں پیک کیا جاتا ہے۔ یہ سمندر پار کر کے کینیڈا پہنچتا ہے۔ لیپ ٹاپ نکال کر ڈبے کو ری سائیکلنگ کرنے والی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے۔ یہ واپس ننگبو آ جاتا ہے اور اس سے ایک اور ڈبہ تیار ہو جاتا ہے۔ یہ پراسس چھ سے سات بار دہرایا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد اس کے ریشے کمزور اور غیرمفید ہو جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں تک لکھائی کا تعلق ہے تو کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کاغذ کے دن گنے جا چکے ہیں۔ کمپیوٹر کے آنے کے بعد پیپرلیس آفس (کاغذ کے بغیر دفتر) کا دور آ جائے گا۔ اچھا ہو کہ اگر ایسا ہو سکے لیکن ایک مسئلہ ہے۔ پیپرلیس آفس کی اصطلاح تھامس ایڈیسن کے وقت کی ہے اور یہ خواب اس وقت سے چلا آ رہا ہے۔ ایڈیسن کے مومی سلنڈر، جنہوں نے موسیقی کا انقلاب برپا کیا، پیپرلیس آفس کے لئے بنایا گیا تھا۔ ایڈیسن کا خیال تھا کہ لکھنے کے بجائے آواز ریکارڈ کر لینا مستقبل ہے۔ ایڈیسن اس بارے میں درست نہیں تھے اور کاغذ کی موت کی کئی پیشگوئیاں بھی ایسی ہی غلط نکلتی رہیں۔
کمپیوٹر کی آمد کے بعد 1970 کی دہائی سے فیوچرلوجسٹ کاغذ کے اگلے پچیس سال میں ختم ہو جانے کی پیشگوئی کرتے رہے ہیں۔ لیکن کسی ضدی بچے کی طرح یہ مان کر نہیں دے رہا۔ اس کی فروخت اوپر ہی جاتی رہی ہے۔ ہاں، کمپیوٹر نے دستاویزات کو کاغذ کے بغیر تقسیم کرنا ممکن کر دیا ہے لیکن کمپیوٹر پرنٹر نے اتنا ہی آسان اس دستاویز کو کاغذی صورت میں لانا بھی کر دیا ہے۔ فوٹو کاپی کی مشینیں، پرنٹر، فیکس مشینیں دھڑا دھڑ کاغذ استعمال کر رہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاید یہ عادات اب بدلنے لگی ہیں۔ 2013 میں دنیا میں کاغذ کی پیداوار کا نقطہ عروج آ گیا۔ اس کے بعد وہ پہلا سال آیا جب اس کی عالمی پیداوار اپنے پچھلے برس کی نسبت کم ہوئی۔ ہم میں سے بہت سے لوگ کتاب کو محسوس کرنا چاہتے ہیں۔ اخبار کو ہاتھ میں اٹھانا چاہتے ہیں۔ سکرین پر انگلی پھیرنے کے بجائے کاغذ کا لمس ہمیں پسند آتا ہے لیکن شاید یہ ڈیجیٹل انقلاب کی دنیا میں میرے جیسی پرانی نسل کا پرانا رومانس ہے۔ ڈیجیٹل تقسیم کی قیمت اس قدر کم ہو چکی ہے کہ سستا ڈیجیٹل پرانے کاغذ کو شکست دے سکتا ہے۔ یہ کاغذ کے ساتھ وہی کر سکتا ہے جو کاغذ نے چرمی کاغذ کے ساتھ کیا تھا۔ کوالٹی پر نہیں، قیمت پر ہرا کر اس کو ختم کر دیا تھا۔
کاغذ اپنے زوال پر ہے لیکن یہ ختم نہیں ہو گا۔ نہ صرف سپرمارکیٹ کے شیلف پر یا ٹشو کے ڈبے میں بلکہ دفتر اور کالج میں بھی۔ پرانی ٹیکنالوجی خاصی دیر تک قائم رہتی ہے۔ ابھی تک پنسل اور موم بتی بھی زندہ ہے۔ دنیا میں بائیسیکل کی پیداوار کار سے زیادہ ہے۔
کاغذ صرف خوبصورت خطاطی میں لکھی گئی کتابوں تک محدود نہیں رہا۔ یہ روزمرہ کا میٹریل ہے۔ یادداشت کے لئے لکھے گئے نوٹ، کسی کا جلدی میں لکھا گیا فون نمبر، لفافے کے پیچھے کیا گیا حساب اور مجھے تھمائی گئی سودا لانے کی فہرست ۔۔۔ یہ سب شاید طویل عرصہ کاغذ پر ہی رہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply