بدن (37) ۔ دل کی تبدیلی/وہاراامباکر

ایک بڑا خواب دل کا ٹرانسپلانٹ تھا۔ لیکن یہاں پر ایک بظاہر ناقابلِ عبور رکاوٹ حائل تھی۔ ایک شخص کو مردہ صرف اس وقت قرار دیا جاتا تھا جب اس کا دل ایک خاص مدت تک دھڑکنا رک گیا ہو۔ اور ایسا ہونے کا مطلب یہ تھا کہ ایسا دل کسی اور کو لگانے کے لئے ناکارہ ہو چکا ہوتا۔ دھڑکتے دل کو نکالنے کا مطلب اپنے خلاف قتل کا مقدمہ درج کروانا تھا۔ ایک جگہ، جہاں یہ قانون لاگو نہیں تھا، جنوبی افریقہ تھی۔ 1967 میں کیپ ٹاون کے ایک سرجن کرسٹیان برنارڈ نے ایسا ہی کیا۔ وہ اس وقت دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئے جب انہوں نے ایک جان لیوا حادثے کا شکار ہو جانے والی نوجوان خاتون کا دل نکال کر لوئی واشانسکی نامی 54 سالہ شخص کے سینے میں لگا دیا۔ اگرچہ واشانسکی صرف اٹھارہ روز مزید زندہ رہ سکے، لیکن یہ ایک بڑا میڈیکل بریک تھرو تھا۔

ڈاکٹر برنارڈ کو دوسرے مریض میں زیادہ کامیابی ہوئی۔ یہ مریض ریٹائرڈ دندان ساز فلپ بلے برگ تھے جو کہ انیس ماہ کسی اور کے دل کے ساتھ زندہ رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا کے دوسرے ممالک میں موت کی تعریف میں تبدیلی آنے لگی۔ اور موت کا پیمانہ دماغ کے غیرفعال ہونے پر چلا گیا۔ اس کے نتیجے میں دل کے ٹرانسپلانٹ کی کوششیں شروع ہو گئیں۔ لیکن نتائج زیادہ اچھے نہ رہے۔ سب سے بڑا ایشو مریض کا اپنا جسم تھا۔ امیون سسٹم باہر سے آئے اس عضو پر حملہ آور ہو جاتا تھا۔ اور اسے روکنے کے لئے قابلِ اعتبار طریقہ نہیں تھا۔ ایزاتھیوپرین نامی دوا کئی بار کام کرتی تھی لیکن ہمیشہ نہیں۔
سویٹزرلینڈ کے دواساز ادارے سانڈوز میں کام کرنے والے ایچ پی فرے 1969 میں ناروے میں چھٹی گزارنے گئے تو یہاں سے اپنی لیبارٹری کے لئے مٹی کے کچھ نمونے لے کر آئے۔ اس میں ایک فنگس Tolypocladium inflatum تھی۔ اس میں کوئی مفید جراثیم کش صلاحیت نہیں تھی لیکن یہ امیون سسٹم کو روکنے کے لئے بہت موثر نکلی۔ اور اس صلاحیت کی ضرورت ٹرانسپلانٹ کرتے وقت تھی۔ سانڈوز نے فرے کی اکٹھی کی گئی مٹی کی تھیلی سے مشہور دوا سائیکلوسپورین بنا لی جو ٹرانسپلانٹ کے لئے ایک بہترین خبر تھی۔ 1980 کی دہائی میں ٹرانسپلانٹ کے آپریشن کی کامیابی کا تناسب اسی فیصد سے بھی زائد تک پہنچ چکا تھا۔ یہ پندہ سال میں ہونے والی غیرمعمولی پیشرفت تھی۔ آج دنیا میں سالانہ چار سے پانچ ہزار ٹرانسپلانٹ ہوتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ زندہ رہنے والے مریض برطانیہ کے جان مک کیفرٹی تھے جو کسی اور کے دل کے ساتھ 33 سال زندہ رہے اور ان کا انتقال 2016 میں 73 سال کی عمر میں ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتفاق سے دوسری طرف، برین ڈیتھ (دماغی موت) کا معاملہ بھی اتنا سادہ نہیں نکلا جتنا خیال تھا۔ دماغ کے کئی حصے کام کرتے رہتے ہیں جب باقی سب آف ہو جائے۔ اور یہ 2013 میں شروع ہونے والے ایک طویل تنازعے کی بنیاد تھی۔ ایک نوجوان خاتون کو 2013 میں ہسپتال نے مردہ قرار دے دیا گیا تھا۔ ان کا ہائپوتھیلامس کام کر رہا تھا جو کہ دماغ کا کلیدی حصہ ہے۔ اس سے متعلق فنکشن جاری تھے۔
پچاس سے زائد ویڈیو شواہدات کے بعد نیورولوجسٹ ایلن شیومون نے انہیٰں 29 جون 2017 کو زندہ قرار دیا۔ طویل مباحث اور قانونی کارووائیوں کے بعد بالآخر ان کی موت کا دوسرا سرٹیفیکیٹ 22 جون 2018 کو جاری کر دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں تک کرسٹیان برنارڈ کا تعلق ہے، جنہوں نے یہ سب شروع کیا تھا، کامیابی ان کے سر پر چڑھ گئی۔ انہوں نے دنیا بھر کا سفر کیا۔ فلم سٹاروں سے تعلقات رکھے۔ ان کی نجی زندگی میں شہرت اچھی نہ تھی۔ انہوں نے غیرمعیاری یا فراڈ کاسمیکٹس کی تشہیر کر کے اچھا پیسہ کمایا۔ ان کی وفات 78 سال کی عمر میں 2001 میں ہوئی۔ اس وقت وہ قبرص میں سیرسپاٹا کر رہے تھے۔ ان کی موت کی وجہ ہارٹ اٹیک تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply