بچے اور خود اعتمادی

ہمارے بچے جو شہروں میں رہتے ہیں انکو روز مرہ کی بنیاد پر "مت کرو " جیسے الفاظ سننے پڑتے ہیں۔ جبکہ گاؤں کے بچے یا جگیوں میں رہنے والے بچے ان الفاظ کی زد میں کم ہی آتے ہیں۔ وجہ ایک سادہ دیہی معاشرہ اور کھلے ماحول میں پرورش پانے والے بچے کو نسبتاً زیادہ آزادیاں حاصل ہوتی ہیں۔ اسکے مقابلے میں ایک عام شہری گھرانے میں پلنے والے بچے کو اگرچہ بہت سی آسائشات حاصل ہوتی ہیں مگر اسکی سرگرمیوں کو محدود کرنے والے عوامل کی تعداد بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔دیوراوں سے لیکر کر شوپیسز اور اپر سے بجلی کی تاریں یا پوائنٹس جو کسی وقت بھی حادثے کا سبب بن سکتی ہیں۔ اسی گرد و پیش میں بچوں کو " مت کرو " کے الفظ سنے پڑتے ہیں۔ ساتھ ہی ہم شہری اپنے بچوں کو کسی سپر مین بنانے سے کم پر تو راضی نہی ہوتے۔ اور اس چکر میں بچے کا پورا بچپنا " کرو اور مت کرو " کے ساتھ گزرتا ہے۔ مشاہدہ ہے کہ اکثر والدین بچے کی مشاہدے کی قوت و صلاحیت کو پرواز نہی کرنے دیتے۔اسکو تجربے نہی کرنے دیتے۔ اسکے اچیومینٹس پر حوصلہ نہی بڑھاتے۔

اسکو شاباش آفرین ویری گڈ جیسے الفاظ بولنے میں شدید کنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور جواز دیتے ہیں کہ —- تعریف دماغ خراب کرتی ہے!!!!! بھئی بے جا تعریف دماغ خراب کرتی ہے۔ اور وجہ ہو اور اس وقت تعریف نا کیا جائے تو ایک بڑا انسان بھی مایوس اور بسا اوقات باغی ہوجاتا ہے۔ تو بچہ جو ابھی ترو تازہ کونپل ہے اسکو مرجھانے میں کتنا وقت درکار ہوگا۔

*:- بچے کا کانفیڈینس لیول خراب ہونے اور بڑھانے کے عوامل۔

———————————————

1- تعریف اور حوصلہ افزائی سب سے اچھے اور اہم ہتھیار ہیں ۔

2. بے جا تعریف مغرور بناتی ہے جبکہ کسی چیز کے حصول پر تعریف صلاحیتوں اور اعتماد میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔

3- بچہ تنقید کو مخالفت سمجھتا ہے۔گرہ سے باندہ لیں۔ اگر بچے کو اپنے گراؤنڈ اپنی پچ پر کھلانا ہے تو تنقید طعنہ بدتعریفی یا تعریف میں کنجوسی کی چتا بنائیں اور اسکو آگ لگائیں۔ دفنانے پر ممکن ہے دوبارہ اگ جائے۔

4-اپنے سسرال کا یا شوہر کا غصہ بچے پر نا نکالیں۔ یا تو اپنا دل بڑا کریں معاف کریں۔ نہی ہوتا تو حوصلہ پیدا کریں اور جس سے شکایت ہے احسن طریقے سے اس سے وہ شکایت دور کریں۔ کمر پر ہاتھ رکھ کر مغلظات بکنا اور رشتے توڑ کر بیٹھ جانا یا چار کی آٹھ سنانا کوئی فن نہی ہے ۔ بلکہ فن سب کو ڈیل کرنا اور اپنے گراؤنڈ پر کھلانا ہے۔
تھوڑی IPL کی تیکنیکس اپنائیں۔ افاقہ ہوگا۔

4- بچوں کو پلو سے نا باندھیں۔ حد سے زیادہ حفاظت بچے کو سخت نقصان دیتی ہے۔

ایسا بچہ ماں کی موجودگی میں شیر اور عدم موجودگی میں گیدڑ ہواکرتا ہے۔

5- جو بچے ماں کے چموکن ہوتے ہیں وہ ڈھنگ سے پڑھائی بھی نہی کرپاتے۔کیونکہ انکو ماں کی آغوش چاہئے ہوتی ہے اور اسکول انکے لئے غیر محفوظ جگہ فیل ہوتی ہے۔

6- بچوں کو آزادی دیں کھیلنے کودنے دوڑنے وحشت کرنے سے اونچائی پر چڑھنے سے منع نا کریں۔ حفاظتی احتیاط لازم ہے۔ یہاں ایک دم لا خیرا یا بچے سے بے خبرا ہونے کا مشورہ نہی دیا جارہا۔

7- ایک غلط خیال کے بچوں کو آزادی دی تو بگڑ جائیں گے۔

یاد رکھیں چھوٹے بچے اگر کوئی ناسمجھی یا غلطی کربیٹھیں تو ایک تو وہ خود ہی بتا دیتے ہیں یا انکا کوئی دوست ہی بتا دیتا ہے۔ مقصد بات چھپتی نہی ہے۔ اور اصلاح کا در ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ اصلاح خیر خواہی کے ساتھ کیجئے سوتن کا بچہ سمجھ کر اس سے انتقام نا لیجئے۔
بچہ جب کالج لائف میں آتا ہے تو اسکے لئے بات کا چھپانا آسان ہوا کرتا ہے بنسبت کم عمری میں۔تب اصلاح ممکن نہی رہتی۔

8 – بچے کو اسکے کام خود کرنے دیں۔ ظلم نا کریں چائلڈ لیبر پر نا اتر جائیں بلکہ کام اسکی اسطاعت دیکھ کر لیں قابلیت کو دیکھ کر دیں۔ اسکو ٹاسک بھی دیا جاسکتا ہے اور اس ٹاسک میں مناسب مدد بھی کی جاسکتی ہے۔

* یاد رہے بچوں میں نفسی توانائی پائی جاتی ہے۔اس لئے بغیر تھکن کے احساس کے زیادہ کام کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ اگر یہ انرجی مثبت اور درست سمت نہی نکلی تو بچے کو وہ توانائی بحرحال نکالنی ہے اور وہ اسکو غلط سمت ہی استعمال کرے گا اور والدین اس چھوٹی سی مخلوق ﷲ پاک کی اس نعمت سے اپنی ہی کوتاہی کے سبب سخت نالاں رہیں گے ۔ بسا اوقات جاہل ماؤں کو خود کی ہی اولاد کو شرارتوں پر نفرین کرتےدیکھا۔

*یاد رکھیں بچہ جتنا سیکھے گا اتنا ہی اپنی شخصیت صلاحیت اور قابلیت کو جان پائےگا۔

9- بچے کو ماں باپ سے بات کرنے کا عادی بنائیں۔ اسکے لئے اسٹوری ٹائم بہت اہم ہے۔ اس زریعے اپنا میسج اور بچے کا میسج باآسانی موصول ہوا کرتا ہے۔ اور اپنے گراؤنڈ پر کھلانے کا چانس بھی ۔ یہ چانس کبھی بھی مس نا کریں۔

10- دوسرے بچوں سے موازنہ یا تو احساس برتری یا احساس کمتری کو جنم دیتا ہے۔پرہیز کیجئے۔بہترین طریقہ سیلف کمپیریژن یعنی خود سے مقابلے کا جزبہ پیدا کریں۔کہ جس سے نا تو بچے میں برتری یا کمتری کا احساس جاگے اور نا ہی جلن حسد کے عوامل در پیش ہوں۔

*:- خود سے۔مقابلہ کی مثال :-

ایک بچہ امتحان میں 500/800 نمبر لیتا ہے اور اسکی بہن 600/800 نمبر لیتی ہے۔ اس بچے کو کہا جائے کہ شرم کرو تمہاری بہن کا نمبر تم سے زیادہ آیا ہے.
اب یہاں اپنے سارے انعامات کی برسات و احسانات کا تزکرہ کرکے بچے کو شرمندہ جائے یہ انتہائی غلط روش ہے بچے کو باغی بناتی ہے۔ نفرت دلاتی ہے۔ میں نے کئی ایسے بچے دیکھے ہیں جو 85% یا 90 % لیکر بھی اداس غمگین اور دکھی ہوتے ہیں۔ کیونکہ انکا مقابلہ ان بچوں سے کیا جاتا ہے جن کے نمبر ان سے زیادہ تھے۔واضح ہو کہ جب اس طرح کا رویہ بچے سے برتا جائے تو بچے میں احساس کمتری , احساس گناہ , احساس شرمندگی کے جزبات و احساسات پیدا ہوتے ہیں۔نتیجہ ڈپریشن , اداسی اور مایوسی پیدا ہوتی ہے یا وہ جارحانہ یا غصیلی طبعیت کا مالک بھی بن سکتا ہے۔ایسی صورت بہتری کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔
ایسی صورت میں بچے کو شاباش دیں اچھے لفظوں میں تعریف اور انعام یہ سب خوداعتمادی کے ساتھ والدین پر بھی بچے کا اعتماد بیٹھتا ہے۔
اسکے بعد اسکی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہیں کہ " نمبر بہت اچھے ہیں لیکن مجھے تم میں اس سے زیادہ کی قابلیت دیکھتی ہے۔ کیا میں توقع کروں کہ تم اگلی بار صرف 25 نمبر یعنی کل 525/800 نمبر لو؟ ساتھ ہی اسکو کوئی تحفہ پرامس کرلیں۔ یقین جانیئے بچے کا حوصلہ بلند ہوگا وہ محنت کرے گا
اور رزلٹ دیگا۔اس طرح کی حوصلہ افزائی سے بچوں میں شکست کا احساس جو بچے کے اعتماد کو کم اور اسکے حوصلوں کو پست کرے پیدا نہی ہوگا۔ وہ پراعتمادی کے ساتھ اپنا ہدف حاصل کرے گا۔اس بات کا دیھان رہے کہ ٹارگٹ ہمیشہ ایسا رکھیں کہ وہ بچے کی پہنچ میں ہو تبھی وہ اس کے لئے کوشش کرےگا۔اگر آپ پچاس نمبر کا ٹارگٹ۔رکھیں تو میرے حساب سے یہ غیر حقیقت پسندانہ رویہ ہے۔اسٹیپ بائے اسٹیپ تو حصول ممکن ہے لیکن ایکدم سے مشکل ہے۔

*خود سے مقابلے کے مثبت اثرات اور منفیت سے بچاؤ میری اور حالیہ ریسرچ کے مطابق :-

1- بچے میں احساس برتری یا کمتری سے بچت۔

2- شکست دینے اور شکست کھانے جیسا منفی احساس و رجحان کا نا ہونا۔

3- حسد , چغلیاں , اپنی کمزور کاکردگی پر بہانہ بازی سے بچت۔

4- دوسروں کو الزام کا نا دینا \ سکنا۔

5- بچے کا اپنی زات اور رب پر اعتماد بڑھنا۔

6- خود کو اپنی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ قبول کرنا۔

7- ایک پراعتماد متوازن اور خوشباش انسان کے روپ میں سامنے آنا۔

8- اپنی کوشش اور ﷲ پر بھروسہ کرتے ہوئے ناجائز طریقوں سے پرہیز۔ جبکہ دوسروں سے مقابلہ ہر جائز ناجائز ذریعہ اختیار کرسکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

9- ایک بہت اہم بات—- مقابلے بازی کا شکار بچے جنسی برائیوں کا نسبتاً زیادہ شکار ہوتے ہیں۔

Facebook Comments

*سعدیہ کامران
پیشہ مصوری -- تقابل ادیان میں پی ایچ ڈی کررہی ہوں۔ سیاحت زبان کلچر مذاہب عالم خصوصاً زرتشت اور یہودیت میں لگاؤ ہے--

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply