• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بانی ء تنظیمِ اسلامی، امیرِ تنظیمِ اسلامی – فکرِ تنظیمِ اسلامی۔۔۔عمران ریاض

بانی ء تنظیمِ اسلامی، امیرِ تنظیمِ اسلامی – فکرِ تنظیمِ اسلامی۔۔۔عمران ریاض

تحریکوں اور جماعتوں کی زندگی کا یہ عام دستور رہا ہے کہ بانیانِ جماعت کی دنیا سے رخصتی کے بعد جماعت کی باگ ڈور ایسے نا خلف لوگوں کے ہاتھوں میں آ جاتی ہے جو جماعت کی قیادت کے اہل نہیں ہوتے، اگرچہ استثنات کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ بہرحال انہی ناخلف لوگوں کی بدولت اُس جماعت یا تحریک کا زوال شروع ہو جاتا ہے اور اپنے محسن (بانی) کی تعلیمات کی ایسی من گھڑت تعبیرات پیش کی جاتی ہیں جو شاید کبھی اُس کے اپنے حاشیۂ خیال میں بھی نہ رہی ہوں۔ یہی کچھ حادثہ تنظیمِ اسلامی کے ساتھ بھی پیش آیا ہے۔ تنظیمِ اسلامی کی موجودہ قیادت اپنے آپ کو بانئ تنظیمِ اسلامی  ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی فکر کا امین اور وارث قرار دیتی ہے۔ اور اُن کی فکر پر چلنے کی دعویدار ہے۔پچھلے کچھ عرصے میں تنظیم کی موجودہ  قیادت کے ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی فکر کے ساتھ تعلق کے ضمن میں ایسی مضحکہ خیز چیزیں سامنے آئی ہیں جن سے یہ بات واضح ہو کر سامنے آئی ہے کہ موجودہ تنظیمی قیادت کو ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی بنیادی فکر سے اختلاف ہے۔ بلکہ ایسے تصوّرات گھڑ لیے گئے ہیں جو نہ صرف مختلف ہیں بلکہ متضاد ہیں۔ ذیل میں چند باتوں کا اجمالی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔ زیرِ نظر تحریر رقم کرنے کی اصل وجہ مرکزِ تنظیمِ اسلامی کی جانب سے جاری کردہ وہ حالیہ سرکلر ہے جسے فروری 2019 کے پہلے عشرے میں جاری کیا گیا ہے۔ مذکورہ سرکلر میں یہ بات کہی گئی ہے کہ  “اِس پر تقریباً consensus  ہے کہ تنظیم کی بنیادی و اساسی فکر کے علاوہ بانئ محترمؒ  (ڈاکٹر اسرار احمدؒ) کی دیگر علمی، سیاسی، عمرانی آراء سے اختلاف کی گنجائش ہے”۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ اِس سرکلر کے مطابق یہ اتفاقِ رائے تنظیم کی مرکزی شوریٰ میں ہوا ہے۔
ذیل میں چند باتیں “بنیادی و اساسی فکر” کے ضمن میں عرض کی جا رہی ہیں جبکہ عمرانی فکر پر راقم اپنی رائے کا اظہار کسی دوسری تحریر میں کرے گا۔ امیرِ تنظیمِ اسلامی حافظ عاکف سعید صاحب کی طرف سے تنظیم کو ایک “اصولی اسلامی انقلابی جماعت” سے ایک “اصلاح پسند قرآنی تبلیغی جماعت” بنانے کی جانب  لے جانے کے لیے جو جو اقدامات اُٹھائے گئے ہیں اُس اجمال کی کچھ تفصیل ذیل میں درج ہے۔
1۔ تصوّرِ فرائضِ دینی کے بارے امیرِ تنظیم کی طرف سے  جو موقف اختیار کیے گئے وہ کچھ یوں ہیں:
‏i.    “اقامتِ دین کی جدوجہد فرضِ عین نہیں ہے بلکہ فرضِ کفایہ ہے”۔ یہ فقرہ رفقائے تنظیم قریباً پچھلے دس سالوں سے تنظیم کے مختلف فورمز پر سنتے آ رہے ہیں۔ اور اِس فقرے کی تکرار تنظیمِ اسلامی کے حالیہ بحران جو کہ جون 2018 کے آخری ہفتے میں شروع ہوا، اُس سے پہلے تک ہوتی رہی ہے۔
‏ii.    مذکورہ بحران کو حل کرنے کیلئے امیرِ تنظیم اور ناظمِ اعلیٰ 8 جولائی کو  جب اسلام آباد تشریف لائے تو وہاں امیرِ تنظیم کا موقف یہ تھا کہ  “پہلے یہ حکمرانوں پر فرض ہے پھر علماء کا کام ہے اور آخر میں ہمارے ذمہ صرف توجہ دلانا ہے”۔
‏iii.    بعد ازاں 16 ستمبر 2018  کو اسلام آباد میں زون کی سطح کے ایک اجتماع کے دوران یہ موقف پیش کیا گیا کہ  “نہ تو یہ فرضِ عین ہے اور نہ ہی فرضِ کفایہ ہے۔ بلکہ صرف فرض ہے”۔
‏iv.    اور پھر بالآخر نومبر 2018 کو سالانہ اجتماع کے موقع پر اپنے افتتاحی خطبے میں یہ فرمایا کہ “حقیقی ایمان کی سطح پر فرضِ عین ہے”۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے۔
ڈاکٹر اسرار احمدؒ کو تھوڑا سا بھی پڑھنے یا سننے والے لوگ اِس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ڈاکٹر صاحبؒ اقامتِ دین کی جدوجہد کے فرضِ عین ہونے کے شدّت سے قائل تھے۔ جبکہ امیرِ تنظیم کا ہمیشہ سے اِس سے اختلاف رہا ہے۔ ایک سادہ اور طے شدہ مسئلے کے ضمن میں  اوپر مذکورہ چار مختلف بیانات اور موقف کے اِس قدر تضاد اور بدلاؤ سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ فکر کے اِس حصّے پر موجودہ قیادت کو اعتماد نہیں ہے۔ بلکہ ریب و تشکیک خوب ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔
؀ یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محرومِ یقیں
2۔ تصوّرِ دین کے ضمن میں تنظیم کا عنوان “دین اور مذہب کا فرق” تھا۔ جس کو حافظ عاکف سعید صاحب نے بدل کر “دین کا ہمہ گیر تصوّر” کر دیا ہے۔ بظاہر اِس میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن ذرا دقّتِ نظر سے دیکھیں گے تو اندازہ ہو گا کہ عنوان کی اِس تبدیلی سے آپ نے اپنے مخاطبین بدل لیے ہیں۔ حافظ عاکف سعید صاحب کی عنوان کی اِس تبدیلی پر وضاحت یہ ہے کہ اِس عنوان پر علماء کو اعتراض ہے کیونکہ لفظِ  دین جن چیزوں کا احاطہ کرتا ہے اُنہیں تمام  چیزوں کا مذہب بھی احاطہ کرتا ہے۔ مثلاً مذہبِ حنفی، مالکی، حنبلی، شافعی وغیرۃ میں اُن تمام چیزوں کو بیان کیا جاتا ہے جو دین میں شامل ہیں۔ لہذٰا اِس عنوان کو تبدیل کر کے “دین کا ہمہ گیر تصور ”  کر دیا جائے تا کہ مذہبی طبقے کو کوئی اعتراض نہ ہو۔
دوسری طرف مذہب کو انگریزی میں Religion  کہا جاتا ہے جس کا معنی و مفہوم صرف نجی زندگی پر محیط ہے۔ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ جسے ہم Intellectuals  کہتے ہیں وہ چونکہ مغرب سے حد درجہ متاثر ہے لہذٰا وہ اسلام کو بھی مغرب کے Religion کے تصور کے طور پر ہی لیتا ہے۔ لہذٰا اِس بات کی ضرورت تھی کہ انقلاب کا نام لینے والے لوگ اُس طبقے کو یہ باور کروا سکیں  کہ اسلام صرف مذہب نہیں ہے بلکہ دین ہے جو کل نظامِ زندگی پر محیط ہے۔ اب عاکف سعید صاحب نے علماء کو خوش کرنے کیلئے اِس عنوان کو تبدیل کر دیا جبکہ اصل میں یہ مغالطہ علماء کا ہے جس کو اُن سے مل کر رفع کیا جا سکتا ہے کہ جناب “دین اور مذہب کے فرق” کی زد میں ہمارا روایتی تصوّرِ مذہب نہیں آتا۔ بلکہ یہ اصطلاح ہم جدید تعلیم یافتہ طبقے کو اسلام کا اصل تصوّر سمجھانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ فی الواقع اِس سے اسلام پر کوئی ضرب نہیں پڑتی۔  لیکن اب جبکہ عنوان تبدیل ہو گیا تو  بَین السّطور یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اب عاکف سعید صاحب یا تنظیمِ اسلامی  کے اصل مخاطبین جدید پڑھا لکھا طبقہ نہیں ہیں بلکہ روایتی مذہبی حلقہ کے لوگ ہیں۔ جبکہ ڈاکٹر اسرار صاحبؒ کے اصل مخاطب Intellectuals  تھے۔ فکر کا یہ پہلو بذاتِ خود ایک انحراف ہے۔ بظاہر یہ شے اتنی تعجب خیز نہیں ہے لیکن انقلاب کی تھوڑی سی بھی شُد بُد رکھنے والے لوگوں کو اِس بات کا اندازہ ہو گا کہ انقلاب کیلئے درکار افراد کبھی بھی روایتی طبقے میں سے نہیں آتے بلکہ جدید ذہن ہی اس کو قبول کرتا ہے۔ اور اِس ضمن میں حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کی بات بھی سامنے رہنی چاہیئے کہ “میرے اس درد کے غم خوار جس میں میری ہڈیاں پگھلی جا رہی ہیں، مدرسوں اور خانقاہوں میں کم اور سکولوں اور کالجوں میں زیادہ ہیں”۔
3۔ تزکیہ نفس کے متعلق ڈاکٹر اسرار صاحبؒ بہت واضح تھے کہ ہمارا طریقِ تزکیہ خانقاہی نہیں بلکہ انقلابی ہو گا۔ اِس بات کو ڈاکٹر اسرار صاحبؒ نے اپنی کتاب “منہجِ انقلابِ نبویﷺ “میں بھی خوب واضح فرمایا ہے۔ جبکہ عاکف سعید صاحب نہ ہی انقلابی تزکیے سے اتفاق رکھتے ہیں بلکہ خانقاہی تزکیے کو فروغ دینے اور رُوبہ عمل لانے کیلئے یہ کام اُنہوں نے مفتی اویس پاشا قرنی صاحب کے حوالے کیا تھا۔ اور اِس بات کا اعتراف اُنہوں نے 8 جولائی 2018 کو حلقہ اسلام آباد کے امراء و معاونین کے ساتھ ملاقات میں بھی کیا تھا۔ اور بعد ازاں راقم کی جب اُن سے ملاقات 24 اکتوبر 2018 کو قرآن اکیڈمی لاہور میں ہوئی تو اُس دوران بھی اُنہوں نے یہ بات راقم سے کہی کہ “اویس پاشا کا کہنا تھا کہ فقہ کی روایت کی طرح تصوف کی بھی ایک روایت ہے جس سے ہمیں جُڑے رہنا چاہیئے۔ اور میں (عاکف سعید) اویس پاشا کی اِس بات سے متفق ہوں لیکن میں تنظیم میں اِس کو نہیں لانا چاہتا”۔ یہاں راقم  یہ بات واضح کرنا چاہتا ہے کہ جو شخص تزکیے جیسے فکری معاملے میں متشکّک ہو، یعنی اُس کے اندر کچھ ہو اور باہر کچھ، تو ایسے شخص پر اعتماد کیسے کیا جا سکتا ہے؟ مزید برآں خانقاہی طرزِ تزکیہ کو عملی جامہ پہنانے کے ضمن میں کچھ گواہیاں ہیں جو سامنے رہنی چاہئیں۔
‏i.    خالد محمود عباسی صاحب جو اغلباً پچھلی دو یا ڈھائی دہائیوں سے تنظیمِ اسلامی کی  توسیعی عاملہ کے رکن رہے ہیں اور فکری معاملات میں اُن کا مقام و مرتبہ مسلّم ہے۔ اُن کا اوّل روز سے عاکف صاحب پر یہ الزام ہے کہ عاکف صاحب انقلابی نہیں بلکہ خانقاہی طرزِ تزکیہ کو فروغ دے رہے ہیں۔ اور اِس کام کیلئے اُنہوں مختلف لابیوں کو استعمال کیا ہے۔ شروع میں یہ کام سابقہ مرکزی ناظمِ تربیت جناب شاہد اسلم صاحب کے سپرد کیا گیا جس سے اُنہوں نے انکار کر کے تنظیم کی رفاقت سے ہی استعفاء دے دیا (تفصیل کیلئے شاہد اسلم صاحب کا استعفاء دیکھا جا سکتا ہے)۔ پھر یہ کام سابقہ مرکزی ناظمِ تعلیم و تربیت جناب انجینئر نوید احمد صاحب مرحوم کے سپرد کیا گیا- اللہ تعالیٰ نے اُنہیں جلد ہی اپنے پاس بلا لیا۔ اور بالآخر یہ قرعہ مفتی اویس پاشا قرنی  صاحب کے حق میں نکلا اور اُنہوں  نے خوب حق ادا کیا اِس کام کا۔
‏ii.    کراچی کے جو رفقاء 2018 کے رمضان المبارک کے بعد تنظیم سے علیحدہ ہوئے اُن کا موقف اِس حوالے سے بڑا واضح ہے کہ ہم نے پچھلے کچھ عرصے میں تنظیم کو انقلابیت سے خانقاہیت کی طرف لے جانے میں  جو کام بھی کیا ہے وہ عاکف سعید صاحب کے حکم پر اور اُن کی آشیرباد سے کیا ہے۔ اگست 2018 میں راقم کی کراچی میں اویس پاشا قرنی  صاحب اور اُن کے متعلقین سے اِس ضمن میں ملاقات بھی ہوئی جس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ عاکف صاحب خانقاہی طرزِ تزکیہ ہی  کے قائل ہیں جبکہ خالد محمود عباسی صاحب انقلابی طرزِ تزکیہ کے قائل ہیں۔ اور تزکیے کےحوالے سے خالد عباسی صاحب اور ڈاکٹر اسرار صاحبؒ کا موقف ایک ہی ہے۔
‏iii.    تنظیمِ اسلامی کے زیرِ انتظام تربیتی کورسز میں جو کچھ ہوتا رہا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ سالانہ اجتماعات ہوں یا مرکز کے تحت لوکل سطح کے اجتماعات، ہر سطح پر خانقاہی طرزِ تزکیہ کو پھیلانے کا وافر انتظام کیا جاتا رہا۔ جس پر ذی شعور رفقاء چیختے رہے کہ خدارا ایسا نہ کریں لیکن بالائی نظم نے کسی بھی رفیق کی ایک بات تک نہ سنی۔
‏iv.    کئی مواقع پر عاکف سعید صاحب کی اپنی گفتگو سے، خاص کر تربیتی کورسز میں تنظیمِ اسلامی کی  قرار دادِ تاسیس کا مطالعہ کے دوران، یہ بات اظہر من الشّمس ہے کہ اُنہوں نے خانقاہی طرزِ تزکیہ ہی کی بات کی ہے۔ اِس کی ایک نمایاں مثال نومبر 2014 کا اجتماعِ ذمہ داران ہے جس کا انعقاد قرآن اکیڈمی فیصل آباد میں ہوا۔ اُس اجتماع میں قرآن اکیڈمی لاہور کے اُستاذ اور مرکز تنظیمِ اسلامی کے ریسرچ سکالر جناب مومن محمود صاحب نے مفتی شفیع صاحبؒ کی تحریر “دل کی دنیا” کا مطالعہ کرایا اور عاکف سعید صاحب نے تمام ذمہ داران کو یہ تاکید کی کہ گھر جا کر ہر ایک نے اِس کتاب کا مطالعہ کرنا ہے۔ یاد رہے کہ اِس اجتماع کی خاصیت یہ ہے کہ اِس میں تنظیمِ اسلامی کا اصل جوہر موجود ہوتا ہے، یعنی تمام امرائے مقامی تناظیم، تمام حلقہ جات کے امراء و ناظمین اور اُن کے معاونین، تمام نائبینِ ناظمِ اعلیٰ، اور ٹاپ کی مرکزی قیادت۔
‏v.    سندھ کے مشہور صوفی جناب محمد موسیٰ بھٹو صاحب جو ماہنامہ بیداری کے نام سے اپنا پرچہ نکالتے ہیں۔ اُنہوں نے دسمبر 2016 کے پرچے میں امیرِ تنظیمِ اسلامی حافظ عاکف سعید صاحب کی تعریف میں یہ بات لکھی ہے کہ عاکف صاحب بڑی حکمت سے تنظیم کو آہستہ آہستہ خانقاہیت کی طرف لے کر جا رہے ہیں۔
‏vi.    دو سے زائد دفعہ راقم نے خود عاکف صاحب سے یہ بات سنی ہے کہ اصل تزکیہ کسی”شخصیت” کے ذریعے سے ہی ہوتا ہے۔
اِن سب باتوں کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بانئ تنظیمِ اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا موقف اِس حوالے سے بہت واضح تھا کہ اصل تزکیہ قرآنِ مجید سے ہوتا ہے اور یہی انقلابی طرزِ تزکیہ ہے۔ جبکہ خانقاہی تصوّر میں تزکیہ کسی شخص کے ذریعے ہوتا ہے۔
4۔ منہجِ انقلابِ نبویﷺ کے تیسرے مرحلے کا عنوان “تربیت” ہے۔ تربیت میں پہلی شے “انقلابی نظریے کو ہر وقت مستحضر رکھنا” ہے۔ انقلابی نظریہ ہمارا عمرانی فکر ہے جس سے حال ہی میں جاری کردہ سرکلر کے ذریعے اختلاف کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اِسی تربیت کے مرحلے میں چوتھی شے کا عنوان تزکیہ ہے جس کے ذیل میں واضح طور لکھا ہوا ہے کہ ہمارا طرزِ تزکیہ خانقاہی نہیں بلکہ انقلابی ہو گا۔ اب جبکہ عاکف سعید صاحب تزکیے کے ضمن میں کچھ اور رائے رکھتے ہیں اور عمرانی فکر سے اختلاف کی گنجائش  بھی نکال بیٹھے ہیں  تو پھر منہج کی حیثیت کیا ہو گی؟
5۔ ہم نے تنظیم انقلاب کیلئے بنائی ہے نہ کہ محض اِصلاح کیلئے۔ اسی لیے منہجِ انقلابِ نبویﷺ کا پہلا مرحلہ “انقلابی نظریہ اور اس کی نشر و اشاعت” ہے۔ نظریہ ہمارا توحید ہے جس کی تنقیح سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام کے حوالے سے ہمارے سامنے آتی ہے۔ یہی ہمارا انقلابی نظریہ ہے جس کی ہم نے دعوت دینی ہے اور یہی ہماری عمرانی فکر ہے۔ مرکز تنظیمِ اسلامی  کی طرف سے جو تازہ سرکلر فروری 2019 میں جاری ہوا ہے، جو اصل میں فیصلہ ہے دسمبر 2018 کی مرکزی شوریٰ کا، اس میں یہ واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ ڈاکٹر اسرار صاحبؒ کی عمرانی فکر سے اختلاف کی گنجائش ہے۔ اب بظاہر یہاں واضح اعلانِ برات نہیں کیا گیا لیکن جو لوگ بھی مرکز کی طرف سے جاری کردہ سرکلرز سے واقف ہیں اور ناظمِ اعلیٰ اظہر بختیار خلجی صاحب (ناظمِ اعلیٰ) کے اندازِ تحریر سے واقف ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ جب مرکز نے کسی شے سے اعلانِ برات کرنا ہوتا ہے تو بات آغاز میں اِسی انداز میں کہی جاتی ہے کہ “اختلاف کی گنجائش ہے” یا پھر مجہول انداز میں بات کہی جاتی ہے۔ لہذٰاتنظیمِ اسلامی کی مرکزی  شوریٰ کے اِس فیصلے کی براہِ راست ضرب منہجِ انقلابِ نبویﷺ  پر پڑتی ہے۔ اب اگر عاکف سعید صاحب کو عمرانی فکر سے اختلاف ہو ہی گیا ہے تو پہلے اِس کا متبادل تو پیش کریں پھر چاہے ڈٹ کر اختلاف کریں۔ بر سبیلِ تذکرہ عرض ہے کہ اُن (عاکف سعید) کا متبادل روایتی طبقے کا تصوّرِ خلافت ہے۔
6۔ شخصی بیعت جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ بیعت منصوص، مسنون اور ماثور ہے اُس کا جو تصورتنظیمِ اسلامی کے  حالیہ بحران کے نتیجے میں سامنے آیا ہے کہ امیرِ تنظیم ہر قسم کے محاسبے سے مبرّا و منزّہ ہے۔ امیر پر تنقید کرنے کا مطلب بداعتمادی ہے جس کے نتیجے میں بداعتمادی کا اظہار کرنے والے رفیق کا تنظیم سے اخراج ہو جاتا ہے۔ اِس سے آگے بڑھ کر بیعت کا جو تصوّر تنظیم کی قیادت نے پیش کیا ہے اُس میں تو ناظمِ اعلیٰ کا بھی محاسبہ نہیں ہو سکتا۔ اِس کی نمایاں مثال اسلام آباد اور راولپنڈی کے وہ دس امراء و معاونین ہیں جنہوں نے ناظمِ اعلیٰ اظہر بختیار خلجی صاحب کے محاسبے کا مطالبہ کیا اور پورے دلائل سے ثابت کیا کہ ناظمِ اعلیٰ صاحب اب اس منصب کے اہل نہیں رہے، لیکن اس مطالبے کے نتیجے میں ان تمام ذمہ داران کو معزول کر دیا گیا۔ بیعت کے اِس تصوّر کے تحت مرکز کے نمائندے یہ کہتے ہیں کہ امیر نے کفرِ بوّاح کا ارتکاب تو نہیں کیا نا جو ہم  اُس کی بات نہ مانیں یا اُس کے محاسبے کا مطالبہ کریں۔۔۔؟ حالانکہ یہ بات بڑی واضح ہے کہ یہاں کفرِ بواّح زیرِ بحث ہے ہی نہیں۔ کیا مولانا مودودیؒ نے الیکشن کی سیاست میں قدم رکھ کر کفرِ بواّح کا ارتکاب کیا تھا کہ جس کی وجہ سے ڈاکٹر اسرار صاحبؒ اور بعض سینئر اراکین جماعتِ اسلامی چھوڑ گئے تھے۔ لہذٰا اپنے آپ کو بچانے کیلئے کفرِ بوّاح جیسی انتہائی نازک اور حسّاس بحث کا سہارا لینا انتہائی خطرناک ہے۔ قصّہ مختصر بیعت کا جو تصوّر مرکز تنظیم کی طرف سے آ رہا ہے اُس کی وجہ سے اب یہ مسئلہ محض فکری نوعیت کا نہیں رہا بلکہ خالص دینی و شرعی نوعیت کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اِس تصوّر کو قرآن و سنّت کی نصوص سے ثابت کیا جائے تو پھر کچھ بات بنے گی۔
یہ چند معروضات “تنظیم کی بنیادی و اساسی فکر” کے ضمن میں عرض کی ہیں کہ جن کے بارے میں تنظیمِ اسلامی کی جانب سے جاری کردہ  حالیہ سرکلر فروری 2019  میں یہ کہا گیا ہے کہ اِس بنیادی فکر سے تنظیم کی اعلیٰ قیادت کو اتفاق ہے۔ راقم کا کہنا ہے کہ اِن (مرکزی قیادت) کو اِس سے بھی اتفاق نہیں ہے بلکہ اِس وقت جو کچھ بھی فکر کی طرف رجوع دِکھ رہا ہے وہ خالد محمود  عباسی صاحب کا پریشر ہے جس نے مرکز کو پسپا کیا ہے لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ جونہی امیرِ تنظیم کو حالات سازگار ہوتے نظر آئے انہوں پھر اپنی صوفیت اور ملّائیت کی جانب پیش قدمی شروع کر دینی ہے جس کی تازہ مثال حالیہ سرکلر ہے۔ یہ تمام معروضات تمام اراکینِ شوریٰ کی خدمت میں بھی عرض ہیں کہ آپ نے جو فیصلہ ثبت فرمایا ہے کہ بنیادی و اساسی فکر سے اتفاق ہے تو ذرا مہربانی کر کے اِن نکات کی بھی وضاحت فرمائیں۔ تا کہ “بنیادی و اساسی” کے بعد “تفصیلی” پر بھی کچھ عرض کیا جا سکے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”بانی ء تنظیمِ اسلامی، امیرِ تنظیمِ اسلامی – فکرِ تنظیمِ اسلامی۔۔۔عمران ریاض

  1. السلام علیکم محتم
    بہت اچھی تحریر ہے آپ کی
    اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے امین
    مجھے آپ سے کچھ ڈسکس کرنا ہے ، تنظیم اسلامی کے تصوارت پر میرا تحقیقی کام ہے ، آپ کی تحریر دیکھی تو کافی چیزین نئی ملی ہیں
    کیا آپ یے رابطہ ہو سکتا ہے
    شکریہ
    عبد الخالق

Leave a Reply