شاید پہلے بھی رہا ہو لیکن کم از کم میرے تجربے میں ہرگز نہیں آیا کہ محض اپنی بات یا نقطہ نظر سے مخالف رائے رکھنے پر آپ کو کسی مخصوص لیبل سے نواز دیا جائے۔ یہ بدعت میرے محدود علم کے مطابق صرف سوشل میڈیا پر ہی پیدا ہوئی اور یہیں پروان چڑھی کہ جس کسی کی رائے آپ کی رائے سے مطابقت نہیں رکھتی، اسے فوری طور پر ایک ٹیگ لگا کر مخالف کیمپ میں دھکیل دیا جائے۔ عمومی طور پر اس ٹیگ کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ آپ دلائل اور حقائق کے میدان میں ہار جاتے ہیں اور مخالف کو ایک لیبل لگا کر فرار کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ اس تکنیک، جسے تکنیک کہنا ہی زیادہ مناسب ہے، کا استعمال زیادہ تر “ہاف بیکڈ علماء” اور “کمرشل لبرلز” کے علاوہ اب سیاسی جماعتوں کے وہ “عظیم کارکن” بھی کرنے لگے ہیں، جنہیں کبھی کونسلر کے امیدوار نے بھی کنویسنگ کے قابل نہیں سمجھا۔
مثال کے طور پر اگر آپ نواز شریف یا ان کی حلیف جماعتوں کی سیاست کے ناقد ہیں تو آپ پر بوٹ پالش کا لیبل لگایا جائے گا۔ اگر آپ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی دخل اندازی کے خلاف ہیں تو آپ کو غدار قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ عمران خان کی سیاست سے متفق نہیں تو آپ یقیناً کرپٹ ہیں یا کرپشن کی حمایت کرتے ہیں وغیرہ۔ اسی طرح آپ کو مذہبی حوالے سے بھی حسب ضرورت کافر, قادیانی یا زندیق قرار دیا جا سکتا ہے۔
چونکہ اس وقت ملک سیاسی طور پر ایک کشمکش سے گزر رہا ہے، اس لیے لیبل لگانے کا یہ سلسلہ بھی عروج پر ہے۔ جہاں کسی نے اپنی رائے سے متصادم کوئی بات یا تحریر دیکھی، فوراً سے پیشتر اسے لیبل کرکے آگے بڑھ گئے۔ لیبل لگانے یا ٹیگ کرنے کا یہ عمل ہمارے غیر جمہوری اور غیر سیاسی رویے کا شاخسانہ ہے اور یہ رویہ کسی اور کا نہیں، سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کا اپنا پیدا کردہ ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ اس وقت جاری سیاسی کشمکش کو جمہوریت اور آمریت کی لڑائی سمجھ کر (صرف سوشل میڈیا پر) جانیں ہلکان کیے دے رہے ہیں جبکہ میری نظر میں یہ لڑائی صرف اور بالا دست طبقوں کے درمیان اپنے مفادات کے لیے ہونے والی کھینچا تانی سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔ اس لڑائی میں ایک طرف وہ ریاستی ادارے ہیں، جنہوں نے اس ملک پر نصف عرصہ حکومت کی تو دوسری جانب بھی انہی کے نطفہ سیاست سے جنم لینے والے وہ سیاستدان ہیں جو آج بھی جمہوریت اور اس کے بنیادی اصولوں سے بے بہرہ ہیں۔ آج اگر حکومت اور اس کی حلیف جماعتیں عمران خان کی جانب سے کی جانے والی تنقید پر آتش زیر پا نظر آتی ہیں تو انہیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ اس سے کہیں زیادہ بیہودہ زبان اور اخلاقی دیوالیہ پن کا مظاہرہ انہوں نے بے نظیر بھٹو کے معاملے میں کیا تھا۔
آج کے بعض نوجوان یہ نہیں جانتے کہ اس بے نظیر بھٹو کو سکیورٹی رسک قرار دینے کے لیے صحافیوں پر نوازشات کی بارش کی گئی تھی، جس نے اپنے پہلے دور میں پاکستان کے لیے 60 ایف سولہ طیاروں کے حصول کا معاہدہ کیا تھا۔ اسی بے نظیر بھٹو پر ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کا الزام لگایا گیا تھا جو اپنے دوسرے دور میں ایٹمی ہتھیاروں کی ڈیلیوری کے لیے شمالی کوریا سے میزائل ٹیکنالوجی لائی تھی۔ یہ نوجوان نہیں جانتے کہ چھوٹے صوبوں کے عوام کو صوبائیت کے طعنہ دینے والوں نے ہی سب سے پہلے بینک آف پنجاب قائم کیا تھا اور سرکاری طور پر صوبہ پنجاب کی تمام ٹرانزیکشن نیشنل بینک کی بجائے حکماً بینک آف پنجاب کو منتقل کی گئی تھی۔ بعض لوگوں کو اصرار ہے کہ یہ ہمارا وہ تاریک ماضی ہے جسے “میثاق جمہوریت” کے قالین تلے چھپا دیا گیا تھا لیکن اسے عمران خان دوبارہ زندہ کر رہے ہیں۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ آصف علی زرداری کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت واپس لانے، بھاٹی چوک پر گھسیٹنے اور مینار پاکستان پر الٹا لٹکانے، لوڈ شیڈنگ کے خلاف سرکاری سرپرستی میں جلوس نکلوانے کی باتیں میثاق جمہوریت سے پہلے کی نہیں، بعد ہی کی ہیں اور میمو گیٹ سکینڈل میں سیاہ کوٹ پہن کر بڑے میاں صاحب کا سپریم کورٹ میں پیش ہونا تو سب ہی کو یاد ہوگا۔ یہ دلفریب واقعہ بھی میثاق جمہوریت کے بعد ہی رونما ہوا تھا۔ سو جو کچھ آج حکومت اور حلیف جماعتوں کے ساتھ ہو رہا ہے، اس پر مظلومیت کا واویلا کرنے کی بجائے مکافات عمل سمجھ کر قبول کیجیے۔
اس وقت سیاسی منظر نامے پر سامنے اور پس پشت جو کچھ ہو رہا ہے، اس میں میرے لیے تشویش کی کوئی بات نہیں۔ یہ سب کچھ پہلی بار ہو رہا ہے اور نہ آخری۔ اس سے ملکی سالمیت پر کوئی قیامت ٹوٹ پڑنے کی بات صرف عوام کی ہمدردی سمیٹنے کے سوا کچھ نہیں۔ اگر ایک جانب مودی کا یار ہے تو دوسری جانب یہودی ایجنٹ ۔۔۔ اور میری نظر میں یہ دونوں لیبل سوائے ذہنی دیوالیہ پن کے کچھ نہیں۔ اس لیے سکون سے میچ دیکھیے کیونکہ یہ بالا دست طبقوں کی آپس کی لڑائی ہے، عوام کے حصے میں پہلے بھی صرف نعرے اور وعدے ہی آتے رہے ہیں اور اب بھی یہی آئیں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں