ہم فیصلہ کرلیں

ہم فیصلہ کر لیں
ہادیہ علی
نیا سال ساری دنیامیں ایک تہوار کی طرح منایا جاتا ہے اور بالخصوص یورپ کی سب سے بڑی سماجی تقریب ہوتا ہے۔یورپ، امریکا، مشرق بعید، آسٹریلیا اور روسی ریاستوں میں نئے سال کی تقریبات کا شدت سے انتظار کیا جاتا ہے۔سنٹر آف دی ورلڈ لندن میں یورپ کی نئے سال کی سب سے بڑی تقریب ہوتی ہے،اور میں اس سال یہ تقریب بالاہتمام دیکھنے گئی ۔یہ لائف ٹائم تجربہ تھا ،اور مجھے اس تجربے کے دوران بے شمار چیزیں سیکھنے کا موقع ملا ،دسمبر کے آخری عشرے میں لندن کو خصوصی طور دلہن کی طرح سجا دیا جاتا ہے ایسے ہی تو اسے عروس البلاد نہیں کہا جاتا ۔شہر کی تمام عمارتوں میں مصنوعی کرسمس ٹری لگا دیئے جاتے ہیں ۔بازاروں، مارکیٹوں ،پارکس اور سڑکوں پر اضافی برقی قمقمےلگا دیئے جاتے ہیں ،یہ سلسلہ نئے سال کی تقریبات تک جاری رہتا ہے۔ لندن میں نئے سال کی سب سے بڑی تقریب دریائے ٹیمز کے کنارے منائی جاتی ہے ، لندن آئی پر فائر ورکس کیلئے ہوائیاں نصب کر دی جاتی ہیں ۔ لندن ائی کے سامنے بیس منزلہ عمارت ہے اس عمارت پر ملٹی میڈیا کے ذریعے دیو قامت گھڑی بنا دی جاتی ہے ۔ گھڑی کی سوئیاں پورے شہر سے دکھائی دیتی ہیں ، تقریب دیکھنے کیلئے پورے ملک ،یورپ اور دوسرے ممالک سے لوگ آتے ہیں ،ہوٹل مہینون پہلے بک ہوکر فل پیک ہو جاتے ہیں ۔لندن آئی وہ گھومتا ہوا جھولا لوگوں کا خصوصی ٹارگٹ ہوتا ہے ۔۔ دریا کنارے سب جمع ہوتے ہیں ۔ سپیکر کے ذریعے موسیقی کی دھنیں چلائی جاتی ہیں ۔ بارہ بجنے سے چند سیکنڈ پہلے یہ موسیقی بند ہو جاتی ہے ، لاکھوں لوگوں کی نظریں گھڑی کی سوئیوں پر جم جاتی ہیں ، اُلٹی گنتی گنی جاتی ہے اور ٹھیک بارہ بجے فضاء آتشبازی سے منور ہو جاتی ہے ۔ لندن آئی کے جھولوں سے لاکھوں پٹاخے ‘شُرلیاں، آتشی انار اور ہوائیاں چھوڑی جاتی ہیں اور آسمان بقعہء نور بن جاتا ہے، اسکے ساتھ ہی لوگ ناچتے کودتے اور تصویریں بناتے ہیں اور ہر طرف ہیپی نیو ائیر کی مبارک سلامت کا شورو غوغا شروع ہوجاتا ہے۔
اس 31 دسمبر بھی یہی ہوا ، شام سات بجے سنٹرل لندن کی تمام سڑکیں ٹریفک کیلئے بند کر دی گئیں ، لوگوں نے اپنی گاڑیاں سنٹرل لندن سے باہر کھڑی کیں ۔ پیدل دریائے ٹیمز کےکنارے کی طرف چلنے لگے ۔ شہر کی گلیاں لوگوں کا سمندر محسوس ہوتی تھیں۔سنٹرل لندن میں سیکیورٹی کا خاص انتظام اور خصوصی دستے دکھائی دے رہے تھے ۔ رات دس بجے دریا کیطرف جانے والے راستوں کو لوگوں کیلئے بند کر دیا گیا۔۔ لاکھوں لوگ لندن آئی سے چند گز دور ٹھہرنے پر مجبور ہو گئے، ان کے راستوں میں کراؤڈ سکیورٹی کے لوگ کھڑے تھے اور کسی کو بھی انہیں دھکا دینے یا کراس کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی ۔ ہم دس بجے لندن آئی کے قریب پہنچے تو راستے بند ہو چکے تھے ۔ ہم مایوس واپس پلٹنے لگے تو ایک پرائیویٹ سکیورٹی ادارے کے پاکستانی اہلکار نے مدد فراہم کی اور ہم لندن آئی تک پہنچ گئے ۔ لندن آئی اور دریائے ٹیمز کنارے تقریباً دس لاکھ لوگ جمع تھے ۔
یہ لوگ شراب بھی پی رہے تھے اور ہم ان شرابیوں کے درمیان کھڑے تھے لیکن مجال ہے کسی طرف سے کوئی دھکا پڑا ہو کسی نےچھیڑنے کی کوشش کی ہو یا تنگ کیا ہو۔ ہجوم میں عورتیں اور بچے بھی تھے اور یہ بھی بد مست لوگوں کے درمیان کھڑے تقریب سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔۔ لیکن انہیں بھی کسی سے گزند نہیں پہنچا ۔ دس لاکھ لوگوں کے مجمع میں کسی نے کسی کے پاؤں پر پاؤں تک نہیں رکھا ۔ لوگ نشے کی حد پار کرنے کے باوجود بھی تہذیب کے دائرے میں تھے ۔ اور میں انکے اس ڈسپلن پر انکو داد دیئے بغیر نہیں رہ سکی ۔ سب نئے سال کی آمد پر خوش تھے ۔مجمع میں جوان بھی تھے، بوڑھے بھی اور وہیل چیئر پر آئے ہوئے معذور لوگ بھی تھے ۔ آتش بازی ختم ہوئی تو یہ ہجوم آہستہ آہستہ سکون کیساتھ منتشر ہونے لگا ، کسی نے کسی پر بوتل نہیں پھینکی ، کسی نے کسی کو گالی نہیں دی ، کوئی کسی سے نہیں اُلجھا ۔لوگ آہستہ آہستہ ٹیوب سٹیشنوں کیطرف بڑھنے لگے ، لندن انتظامیہ نے لوگوں کو ان کے گھروں تک پہنچانے کیلئے بسوں کی خصوصی سروس کا اہتمام کیا تھا ۔ یہ بسیں مفت تھیں ،پورے لندن کیلئے چل رہی تھیں ٹیوب سروس بھی ساری رات رواں دواں رہی۔کسی بھی ایمرجنسی سے نپٹنے کے لئے فائر بریگیڈ اور ایمبولینس تیار حالت میں موجود تھیں مگر ان کو زحمت دینے کی نوبت ہی نہیں آئی کسی بھی طرح سے۔
میں نے واپسی پر بچے بھی دیکھے والدین بچوں کوپرام میں ڈال کر لیجا رہے تھے ۔ بچے ہجوم سے خوفزدہ تھے نہ ہی لوگ بچوں کو تنگ کر رہے تھے ۔ لوگ نشے میں دھت تھے لیکن ایک دوسرے کے بازو کیساتھ بازو مس ہونے یا راستہ رُکنے پر معذرت بھی کرتے اور چل پڑتے تھے۔۔ راستے میں کافی شاپس ریستوران چھوٹی دکانیں ،پیزا اور ڈسکو کھلے تھ۔ے ہجوم ان پر بھی کسی قسم کا حملہ نہیں کر رہا تھا۔ میں نےدس لاکھ کے مجمع میں کوئی بورڈ کوئی اشارہ کوئی شیشہ ٹوٹتے نہیں دیکھا۔ جیب تراشی کی واردات بھی نہیں ہوئی ۔ لڑائی جھگڑے کا نام و نشان تک نہیں تھا ۔ جس شائشسگی سے لوگ آئے تھے ویسے ہی ترتیب سے گھروں یا ڈسکوز میں چلے گئے۔
یہ وہ کریکٹر ہےجو تعلیم اور مسلسل تربیت سے نشوونما پاتا ہے ، بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا کریکٹر دکھائی نہیں دیتا ۔ ہماری حکومتوں نے کبھی ایسا شعور اجاگر کرنے کی کوشش نہیں کی ۔کاش کہ ملک کی ایک آدھ یونیورسٹی یا طالبعلم یہ ذمہ داری اُٹھا لیں، یہ ہجوم کو ٹرینڈ کریں ۔ ہمارے ہاں سیل یا ایکسپو لگے توہم بدنظمی کی سزا دکانوں کےشیشوں ، اپنے سگنلز اور اپنی پولیس کو دیتے ہیں اور اس عمل سے نقصان کس کا ہوتا ہے ؟ ظاہر ہے ہمارا اپنا ہی ہوتا ہے۔کاش یہ بچے مجمع اور ماحول کوصاف رکھنے کی ٹریننگ بھی دیں کہ ملک اسی سے ٹھیک ہوگا۔
ہمیں گوروں سے ہزاروں اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن جہاں تک انکی خوش رہنے اور خوش رکھنے کی عادت ہے تو ہمیں یہ ماننا پڑے گا یہ لوگ حقیقتاً خوشی کو سمجھتے ہیں جبکہ ہم لوگوں کو خوش ہونا آتا ہے نہ ہی ہم کسی کو خوش ہوتا دیکھ سکتے ہیں ۔ ہم نے زندگی کو قربان گاہ ، کمرہ امتحان یا کانٹوں کا بستر بنا لیا ہے ۔ اور اس اپروچ کی وجہ سے ہماری زندگی زندگی نہیں قید با مشقت بن گئی ہے ۔ نئے سال کی تقریبات میں کیا خرابی ہے اگر کچھ لوگ اسے منانا چاہتے ہیں تو نہ منانے والوں کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ لوگون کو روکیں جب قانون بھی اس سے منع نہیں کرتا،یہ ٹھیک ہے ہم اسے اپنی معاشرتی حدود میں رہ کر منائیں ۔ ہم مسلمان ہیں ہم شراب نوشی، ہلڑ بازی کی اجازت نہیں دے سکتے ۔
ہم ملک کے بڑے پارکس ،سٹیڈیمز میں اپنے میلے ، تہوار ، بسنت ، منائیں ۔ ہم آتش بازی کا مظاہرہ کریں ، بسنت کی حدود بھی طے کر دی جائیں، ملک بھر میں میلے بھی لگیں اور نمائشیں بھی ہوں ۔ ہم روزانہ بیسیوں لاشیں اُٹھاتے ہیں لیکن نئے سال کی اور بسنت جیسی چھوٹی چھوٹی معصوم خوشیوں پر پابندی ہے جبکہ پوری دنیا میں نیو ایئر نائٹ منائی جاتی ہے بشمول عرب ورلڈ ۔ آج ہم فیصلہ کر لیں ہم لوگ عقلمند ہیں یا پھر وہ لوگ ؟اسلامی تہواروں پر خوشی سے تو آقائے نامدار نے بھی منع نہیں کیا تھا۔ آیئے فیصلہ کرلیں۔

Facebook Comments

ہادیہ علی
تلاش کے سفر پر نکلی روح

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply