• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • فیصل عرفان کی تحقیق و تدوین،پوٹھوہاری  اکھانڑ تے محاورے۔۔۔ عبد الرحمٰن واصف 

فیصل عرفان کی تحقیق و تدوین،پوٹھوہاری  اکھانڑ تے محاورے۔۔۔ عبد الرحمٰن واصف 

تہذیب زمانوں کی پیداوار ہوتی ہے اور اس میں سانس لینے والی روایتیں ، رسوم، لفظ، محاورے اور ضرب الامثال کسی ایک دہائی یا صدی پر محیط نہیں ہوتیں بلکہ ان کی پیدائش اور تراش خراش کئی کئی نسلوں کا لہو پی کر جوان ہوتی ہے ۔پوٹھوہار، ہزاروں سالوں کی انسانی تہذیبی تپسیا کا گڑھ رہا ہے اور زمانہ ٹیکسلا اور اس کے نواح میں دریافت ہونے والے آثار سے بخوبی اس بات تک پہنچ گیا ہے کہ یہ خطہ سینکڑوں سال پہلے بھی تہذیب و تمدن کی روشنی چار دانگ عالم میں بکھیرتا رہا ہے اور ایک عرصہ دنیا کو تمدن اور آگہی کے چراغوں سے نورزار بناتا رہا ہے ۔
یہاں کے رسم و رواج ، زبان اور کلچر میں بلاشبہ چاشنی اور خوبصورتی کھلکھلاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔
 پوٹھوہاری رہتل اور اس میں موجود ایسی زریں علامات بھی اتنی ہی پرانی ہیں جتنی کہ خود یہ زبان ہے ۔ ان روایتوں، رسوم، محاورات اور ضرب الامثال میں بلاشبہ صدیوں کا عرق ہے اور جو ادوار اس تہذیب پہ بیتے ان کے مدہم نقوش بھی جا بجا ملتے ہیں ۔ پوٹھوہار کی دھرتی نے رسم و رواج اور سینکڑوں سالوں کی عرق ریزی کے نتیجے میں حاصل ہونے والے مشعل راہ محاورے اور ضرب الامثال کے جواہر کھوئے نہیں بلکہ اپنے سپوتوں کو منتقل کیے جو سینہ بہ سینہ ان جواہر کی حفاظت کرتے رہے اور بعد میں آنے والوں کے لیے یہ عظیم ورثہ چھوڑ گئے ۔
  یہ محاورات اور ضرب الامثال جن کی واضح خوبی یہی ہے کہ یہ آنکھ کی پتلی میں معانی اور تجربات کا  آسمان اور ہاتھ کی مٹھی میں لا محدود تہذیبوں کو بند کر سکتے ہیں۔ ان محاورات اور ضرب الامثال پڑھ کے محسوس ہوتا ہے کہ جامع الکلم کی اصطلاح عربوں نے بالکل سو فیصد درست کہی تھی ۔ ایک جملے میں ایک پوری تہذیب کو سمیٹ دینااور ایک ضرب المثل میں ایک پوری انسانی زندگی کے تجربات کا نچوڑ پیش کر دینا کارِ داد ہے ۔
فی زمانہ گلوبلائزیشن جس کی اثر پذیری سے نہ کوئی خطہ محفوظ ہے نہ کوئی ذہن، ہر جگہ تہذیبیں اس گلوبلائزیشن کے عفریت کے آگے نوں ہو کر دم توڑتی نظر آتی ہیں اور اس بلا نے کئی کئی تمدن اپنے پورے تشخص سمیت تاراج کر دیے ہیں ۔ ایسے میں فیصل عرفان نے اپنی دھرتی کے ساتھ کمٹمنٹ اور وفاداری کی لاج رکھتے ہوئے انتھک محنت کوشش اور لگن کے ساتھ اپنی زبان کے محاورات اور ضرب الامثال کو یکجا کر کے ایک خوبصورت اور نئی مثال قائم کی ہے جو آنے والی نسل کو اس ذخیرے اور اس کی اہمیت سے روشناس کرانے میں یقیناً بہت زیادہ اور مند ثابت ہوگی ۔
فیصل عرفان نے اس تھکا دینے والی تحقیق کو بہت دلچسپی سے چیلنج کے طور پر لیا اور پایہء تکمیل تک پہنچایا۔جس پر وہ داد کے مستحق ہیں ۔
یہ عظیم کام یقیناً عرق ریزی ، محنت اور لگن جیسے اوصاف کے بنا مکمل نہیں ہو سکتا تھا مگر اس جوان نے کر دکھایا۔ اللہ پاک فیصل عرفان کے علم و عمل میں برکتیں نازل کرے اور انہیں اپنی مٹی سے جڑت پر بہت نوازے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply