الجزیرہ کی خاتون صحافی رپورٹنگ کے دوران اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں ہلاک

(نامہ نگار :فرزانہ افضل)آج صبح گیارہ مئی 2022 کو الجزیرہ چینل کی رپورٹر خاتون شیریں ابو اقلیح کو ایک اسرائیلی فوجی چھاپے کی رپورٹنگ کے دوران چہرے پر گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ 51 سالہ صحافی خاتون شیریں ابو اقلیح جو فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے جنین کے پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی ریڈ کی کوریج کر رہی تھیں، کہ اسرائیلی فوجیوں نے ان پر گولی چلائی جبکہ وہ پریس کی جیکٹ بھی پہنے ہوئے  تھیں۔ ایک اور فلسطینی صحافی علی الصمادی کی کمر میں زخم آئے ہیں مگر ان کی حالت مستحکم ہے۔
ایک عینی شاہد اور فلسطینی صحافی مجاہد السعدی نے اس افسوسناک واقعے کا حال سناتے ہوئے کہا کہ وہ جنین پناہ گزین کیمپ میں جانے والے صحافیوں کے گروپ کا حصہ تھے اور اس اسرائیلی حملے سے قبل وہ اپنے ساتھیوں کا وہاں پہنچنے کا انتظار کر رہے تھے۔ ” ہم مہاجرین کیمپ میں داخل ہونے سے پہلے ساتھی صحافیوں کا انتظار کر رہے تھے جس کے لیے ہم نے ایسی جگہ کا انتخاب کیا جس میں اسرائیلی فوج اور مسلح جنگجوؤں کے درمیان کوئی محاذ آرائی نہیں تھی۔ ہم شیریں کا انتظار کر رہے تھے کہ وہ اپنا حفاظتی لباس پہن لے۔ اس کے بعد وہ ہم تک پہنچی اور ہم چند میٹر کے فاصلے تک آگے بڑھے۔ پھر چند سیکنڈوں کے اندر پہلی گولی چلائی گئی، میں نے انہیں بتایا کہ ہمیں نشانہ بنایا جا رہا ہے جس میں ہم پر گولی چلائی گئی ہے، میں مڑا تو شیریں کو زمین پر پایا، جبکہ ہماری ساتھی شتھا( حنائیشا ) ایک درخت کی آڑ میں چھپی ہوئی چیخ رہی تھی، یہ فائرنگ تین منٹ سے زیادہ جاری رہی۔ الجزیرہ کے صحافی علی الصمودی زخمی ہوگئے مگر وہ سڑک عبور کر کے محفوظ مقام تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، شتھا کی طرف گولیاں چلتی رہیں جو  درخت کے نیچے کھڑی تھی۔ ہم شیریں کو ابتدائی طبی امداد نہیں دے پائے، گلی میں موجود چند نوجوان مدد کے لئے ہماری طرف بڑھے اور شیریں کو اٹھانے کی کوشش کی مگر ان پر بھی فائرنگ کی گئی، جب بھی کوئی مدد کے لئے آگے بڑھتا ان پر گولیاں چلائی جاتیں۔”
الجزیرہ کے یروشلم کے بیوروچیف ولید العماری نے کہا ،”شیریں پر گولی اسرائیلی سنائپر سے چلائی گئی اور عینی شاہد نے بتایا،” گولی اس مقام سے چلائی گئی جہاں اسرائیلی قابض فوجیوں کا ٹھکانہ تھا ۔”
فلسطین ٹی وی کی نامہ نگار کرسٹین رناوی نے کہا ،” شیریں صحافت کی دنیا میں چشمے کی مانند تھیں۔ میں بارہ سال سے زائد عرصے سے یروشلم میں صحافی ہوں ، میں نے نہ صرف صحافت بلکہ ہر معاملے اور ہر سطح پر شیریں سے سیکھا ہے۔” ریناوی نے الجزیرہ کو بتایا ،”ہم نے شیریں کو کھو دیا کیونکہ فلسطینیوں کا قتل معمول کا واقعہ ہوکر رہ گیا ہے، شیریں کے قتل کے دکھ سے تمام فلسطینی اور عرب صحافی گزر رہے ہیں اس درد کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں، خصوصاً وہ لوگ جنہوں نے شیریں کے ساتھ کام کیا اور اس کی اعلیٰ پیشہ ورانہ مہارت اور آداب کو دیکھا ہے۔” رناوی نے کہا،” صحافی اب خبر دینے کی بجائے خود ایک خبر بن کر رہ گئے ہیں ، یہاں پر صحافیوں کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔” انہوں نے مزید بتایا کہ وہ خود بھی ڈیڑھ سال کے عرصے میں نوبار اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں گرفتار ہو چکی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

الجزیرہ چینل کے بیان کے مطابق شیریں ابو اقلیح کا “سفاکانہ قتل” کیا گیا ہے اور اس نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے وہ اسرائیلی فوج کو اس فعل کا ذمہ دار ٹھہرائے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک بیان میں اسرائیل کے فلسطینیوں کے غیر قانونی قتل اور ان کی نسل پرستی کے دیگر جرائم کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کے ڈائریکٹر صالح حجازی نے کہا ،” تجربہ کار صحافی شیریں ابو اقلیح کا قتل اس مہلک نظام کی ایک خونی یاد دہانی ہے جس میں اسرائیل فلسطینیوں کو تالے میں بند کر دیتا ہے۔ احتجاجی مظاہروں کو روکنے، تلاشی اور چھاپوں کے دوران اسرائیلی فوجیوں کے طاقت کے بے جا استعمال کے نتیجے میں فلسطینی قتل اور زخمی ہوئے ہیں ایسے غیر عدالتی جرائم بین الاقوامی قانون کے تحت آتے ہیں۔”
شیری ابو اقلیح کے قتل کے بعد اسرائیلی فوجیوں نے شیریں کے گھر پر بھی ریڈ کی۔
شیریں ابو اقلیح 1971 میں یروشلم میں پیدا ہوئیں اور 1997 میں الجزیرہ کے لئے کام شروع کیا اور باقاعدگی سے مقبوضہ فلسطین کے علاقوں سے رپورٹنگ کرتی رہیں۔ وہ عرب دنیا کے ہر گھر میں اسرائیل، فلسطین تنازعے کی کوریج کے باعث مقبول تھیں۔ وہ فلسطینیوں کی آواز اور ان کا پیغام تھیں۔ شیری ابو اقلیح کے قتل سے پورے فلسطین میں غم و غصے کی چنگاریاں بھڑک اٹھی ہیں اور ملک بھر میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply