عمران خان کا بیانیہ کیا ہے؟۔۔محمد منیب خان

انسان ہر کہانی کا اختتام دیکھنا یا پڑھنا چاہتا ہے لیکن بعض کہانیاں واضح اختتام لیے ہوئے نہیں ہوتیں بلکہ ان کا اختتام ایک نئی شروعات کا پیش خیمہ محسوس ہوتا ہے۔ یہ معلق اختتام یقیناً پڑھنے اور دیکھنے والے کو تجسس میں مبتلا کر دیتا ہے۔ لیکن اقتدار کی کہانیوں کے عنوان کتنے ہی دلکش کیوں نہ ہوں لازم نہیں کہ ان کا اختتام بھی دلنشین ہو۔ اقتدار کی کہانی کا اختتام واضح ہو اوراختتام میں معروف کردار کی رخصت بھی لکھ دی گئی ہو تو پڑھنے والوں کے لیے یہ منظر نامہ قطعاً خوشگوار نہیں رہتا۔ پاکستان کےسیاسی منظر نامے پہ بھی ایک کہانی اور ایک رومانس کا اختتام کچھ خوشگوار نہیں رہا۔ اس پہ مستزاد کہانی کا معروف کردارناخوشگوار اختتام کو قبول نہ کر سکا۔ انسان یا کوئی کردار اگر اپنے اختتام کو قبول نہ کر سکے تو بے چینی ہی مقدر ٹھہرتی ہے۔

عمران خان اقتدار سے کیوں رخصت ہوئے اس کے لیے ناسا سے کوئی تحقیق کروانا ضروری نہیں۔ اقتدار نہ تو کسی کا پیدائشی حق ہے اور نہ ہی یہ کسی کے پاس تاحیات رہتا ہے۔ اقتدار تو امانت ہوتا ہے، بادشاہوں کو بھی ایک روز اقتدار سے رخصت ہونا پڑتا ہے۔لیکن اگر کوئی اس زعم میں مسند اقتدار پہ براجمان ہو کہ اقتدار اس کا جنم جنم کا حق ہے اور وہ بلا شرکت غیر اگلے دس سال کاحاکم ہے تو یہ بات اقتدار کے زوال کا پہیہ تیز کر دیتی ہے۔ لہذا عمران خان کے اقتدار کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ وہ آخری بال تک اسی گمان میں رہے کہ کون ہے جو ان کو اقتدار کے حق سے محروم کر سکتا ہے۔

تحریک عدم اعتماد کے پیش ہونے کے بعد عمران خان کا جو پہلا بیانیہ سامنے آیا وہ یہ تھا کہ میری جماعت کے لوگ اور اتحادی جماعتیں بک گئی ہیں۔ یہ بات کرنے سے پہلے عمران خان کو کئی بار سوچ لینا چاہیے تھا کہ جن لوگوں پہ بکنے کا الزام لگا رہے ہیں وہ بھی دوسری جماعتوں سے آپ کے ساتھ شامل ہوئے تھے۔ تو کیا تحریک انصاف میں انکی شمولیت کسی خرید و فروخت کا نتیجہ تھی؟ اگر ایسا ہے تو جس اصول پہ آپ خود کاربند نہیں رہ سکے اس اصول پہ مخالفین کو کیوں جج کر رہے ہیں؟ جماعت کے منحرف  اراکین کو کہیں ڈرایا گیا کہیں بددعائیں دی گئی لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔

کہانی کا اختتام جب واضح ہو گیا اور وہ اختتام یقیناً صاحب اقتدار کے لیے تکلیف دہ تھا تو اس وقت ٹھیک بیرونی سازش کا ڈرامہ رچایا گیا۔ میں بیرونی سازش کو ڈرامہ نہ لکھتا اور اس کو مبینہ سازش ہی سمجھتا اگر اوّل ڈی جی آئی ایس پی آر دو ٹوک موقف  اپناتے ہوئے یہ نہ کہتے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے علامیہ میں سازش کا کوئی لفظ نہیں۔ دوم یہ کیسی سازش تھی جس کو بیس دن    تک وزیراعظم چھپا کے بیٹھے رہے اور اپنے لوگوں کو یقین دلاتے رہے کہ وہ سرپرائز دیں گے۔ بھلا سازشیں کب سے سرپرائز ہونےلگیں۔ لہذا جب سازش نہیں ہوئی تو مخالفین کو غدار کہنا بھی کسی طور درست نہیں۔

البتہ قوم کے ساتھ یہ مذاق ہوا کہ سازش کا بیانیہ دینے کے بعد انتقال اقتدار کے عمل کو پراگندہ کر دیا گیا۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں انتقال اقتدار کو پرامن ہونا چاہیے بالخصوص ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل ہونےکے دوران تو جنگ و جدل کی بالکل کوئی وجہ نہیں ہوتی۔ لیکن دراصل ہوا کیا انتقال اقتدار کے دوران آئین کی روح کو تار تار کیا گیا۔دنیا کے کسی مہذب معاشرے کی جمہوریت میں ایسا نہیں ہوتا ہے کہ وزیراعظم ایوان کا اعتماد کھو کر بھی لوگوں کو یہ کہے کہ میں آخری بال تک کھیلوں گا۔ ایسے جملے جنگوں میں جرنیلوں کے منہ سے سننا اچھے لگتے ہیں کہ انہوں نے جوانوں کا مورال ہائی رکھناہوتا ہے البتہ جمہوریت میں ایسے ڈھکوسلوں کی گنجائش نہیں نکلتی۔ جمہوریت میں پہلی اور آخری گیند عوام کا ووٹ ہوتی ہے اورآئین کے مطابق ہر پانچ سال بعد عوام کو انکا یہ بنیادی حق دیا جاتا ہے۔

جب بکاؤ اور غداری کے سرٹیفیکٹ دینے اور آئین سے کھلواڑ کرنے کے باوجود رات کو گیارہ بجے عمران خان کا اقتدار ختم ہوا تو چندروز کے وقفے سے وہ پشاور میں یہ سب باتیں زیادہ زور و شور سے دہراتے نظر آئے۔ البتہ پشاور کے جلسے میں انہوں نے ایک اوربات بتائی کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے بھی خطرے میں ہیں۔ کسی سابقہ وزیراعظم کے منہ سے نکلے ان لفظوں پہ دنیا ہماری پکڑ کرسکتی ہے۔ لہذا اس صورتحال کو بھانپتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے مکمل پریس بریفنگ دی جس کے بعد شاید ہی جاری سیاسی الزام تراشی کے لیے کوئی گنجائش بچی ہو۔ لیکن عمران خان اب کسی بات کو سننے کو تیار نہیں۔ وہ آخری وقت تک چاہتےرہے کہ یا تو اقتدار ان کے پاس رہے یا ماضی کی طرح سب کو گھر بھیج دیا جائے۔

ایک طرف عمران خان کے حامی اب اس چیز سے مبرا ہو چکے ہیں کہ حقائق کیا ہیں، دلیل کیا ہے اور سچ کیا ہے۔ وہ عمران خان کی زبان سے ادا ہوئے ہر لفظ کو سچ مان رہے ہیں چاہے وہ عقل کی کسوٹی پہ پورا نہ اترے۔ دوسری طرف عمران خان ہر حقیقت اور ہردلیل کی ٹانگ مروڑ کر اور بازو توڑ کر انکو عیب دار بنا کر یہ ثابت کر رہے ہیں کہ یہ عیب دار سچائی عین وہی ہے جو وہ بیان کر رہےہیں۔ لہذ لفظوں کے ہیر پھیر اور پروپیگنڈا کا کاروبار عروج پہ ہے۔

عمران خان اس وقت پاپولر نعروں پہ سیاست کر رہے ہیں۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ تین سال اور سات ماہ مرکزی حکومت میں رہنے کےبعد بھی انکے پاس اپنی کارکردگی بتانے کو کچھ خاطر خواہ نہیں ہے۔ اب وہ معصومیت سے جلسوں میں پوچھ رہے ہیں کہ انکاقصور کیا تھا جو عدالت رات کو کھلی۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ پاکستانی قوم کا قصور کیا تھا کہ اس کو اتنے دن ہیجانی کیفیت میں مبتلا رکھا گیا؟ اور قوم کو ایک آئینی بحران کا شکار کیا گیا۔ اب عمران خان جلسوں میں بتاتے ہیں کہ ان کے خلاف سازش ہوئی ہے۔ کیا ہم بھی اتنی معصومیت سے کہہ سکتے ہیں کہ اصل سازش تو آئین پاکستان کے خلاف ہوئی ہے۔ خان صاحب باور کرواتےہیں کہ وہ انٹی امریکہ نہیں۔ لیکن سچ میں اگر آج کی تاریخ میں پاکستان کا کوئی وزیراعظم انٹی امریکہ ہو بھی جائے تو امریکہ کواس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ویسے بھی گذشتہ اکیس سال سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات دفتر خارجہ سے زیادہ پینٹاگون کے ساتھ ہیں۔

خان صاحب اب جلسوں میں پھر اس بات کا اعادہ کر رہے ہیں کہ وہ انچوروںکو نہیں چھوڑیں گے۔ میں یاد دلا دوں کہ احد چیمہ جو آج کل پھر شہباز شریف کے ساتھ نظر آ رہے ہیں وہ تین سال سے زائد جیل میں رہے اور ان پہ ریفرنس دائر نہ ہو سکا، خودشہباز شریف 20-22 ماہ نیب کی تحویل میں رہے لیکن ان پہ فرد جرم عائد نہ کی جا سکی۔ لہذا جو کام وہ ان تین سال سات ماہ میں نہیں کر سکے وہ دوبارہ حکومت بناتے ہی کیسے کر لیں گے؟ بدقسمتی سے تحریک انصاف کا بنیادی ایجنڈا ہی ملک میں انصاف کا نظام قائم کرنا تھا لیکن دوران حکومت انصاف اور احتساب کا کوئی بہتر نظام لانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ البتہ احتساب کےاداروں کو مزید سیاست زدہ کیا۔

عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کے بعد جس طرح آئین کی کھلی خلاف ورزی کی گئی وہ کسی طور قابل ستائش نہیں۔ سپیکر اورڈپٹی سپیکر نے آئین اور قانون سے زیادہ جماعت کے ساتھ سیاسی وابستگی نبھاہ کر ایک سیاہ مثال قائم کی۔ اس پہ مستزاد صدرجیسے عہدے کا بھی پاس نہیں رکھا گیا۔ اب انہی خطوط پہ پنجاب میں بدامنی پھیلا کر آئین اور قانون کا راستہ روکا جا رہا ہے۔پہلے وزرات اعلی کے انتخاب میں ہر طرح سے رخنہ اندازی کی اور اب گورنر پنجاب وہی کردار ادا کر رہے ہیں جو مرکز میں سپیکر اورڈپٹی سپیکر کے بعد صدر نے کیا۔ اس سب میں خطرناک بات یہ ہے کہ پہلے سے نیم جمہوری روایات کے حامل ملک میں عوام کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ یہاں آئین اور قانون محض موم کی ناک ہیں۔ جو طاقتور جس طرح چاہے بگاڑ لے۔ آئینی عہدوں پہ براجمان اشخاص بھی سیاسی قیادت سے وابستگی ثابت کر کے لوگوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ آئین اور قانون کی بالادستی اہم نہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ ہر غلط کاری میں آپ اپنی سیاسی قیادت کے ساتھ کھڑے  ہوں۔

2014 میں جب عمران خان الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے بعد اسلام آباد کی ڈی چوک میں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے تو اس وقت بھی ایسی تشدد پسندانہ اور منافرت زدہ  سوچ کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ کبھی وزیراعظم کو گلے سے پکڑ کر وزیراعظم ہاؤس سے نکالنے کابیان دیا، کبھی سرکاری افسران کو نتائج سے ڈرایا، کبھی لوگوں کو سول نافرمانی پہ اکسایا اور کبھی ان کے دست راست شیخ رشیدنے جلا دو، مٹا دو کا نعرہ لگا دیا۔

اس منظر نامے سے پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میں صاحبان عقل و دانش مضطرب ہیں۔ البتہ فدایان سیاسی قیادت خوش ہیں اور ہر عمل کا جواز گھڑ رہے ہیں۔ وسعت اللہ خان نے لکھا تھا کہآئین شکنی ہماری قوم میں پروگرامڈ کر دی گئی ہے۔ عمران خان کے حالیہ سیاسی کردار پہ قوم کا رد عمل اس بات پہ مہر تصدیق ثبت کر رہا ہے۔ دوسری طرف ان واقعات کے تسلسل کے بعد فوادچوہدری نے خبردار کیا ہے کہ عوام  خانہ جنگی کی طرف جا رہے ہیں۔ میرا خیال ہے یہی عمران خان کا اصل بیانیہ ہے۔ جس طرح وہ ااپنے مخالفین کو دیوار سے لگا رہے ہیں اور آخری حد تک جاتے ہوئے نہ صرف انہیں غدار ثابت کرنے کی بھونڈی کوشش کر رہے ہیں بلکہ عوام کو جلاؤ گھیراؤ پہ اکسا رہے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہی ان کے بیانیے کی اصل روح ہے۔

جون ایلیا کی خوبصورت غزل پیش خدمت ہے؛

عیش امید ہی سے خطرہ ہے

دل کو اب دل دہی سے خطرہ ہے

ہے کچھ ایسا کہ اس کی جلوت میں

ہمیں اپنی کمی سے خطرہ ہے

جس کی  آغوش کا ہوں دیوانہ

اس کی  آغوش ہی سے خطرہ ہے

یاد کی دھوپ تو ہے روز کی بات

ہاں مجھے چاندنی سے خطرہ ہے

ہے عجب کچھ معاملہ درپیش

عقل کو آگہی سے خطرہ ہے

شہر غدار جان لے کہ تجھے

ایک امروہوی سے خطرہ ہے

ہے عجب طور حالت گریہ

کہ مژہ کو نمی سے خطرہ ہے

حال خوش لکھنؤ کا دلی کا

بس انہیں مصحفیؔ سے خطرہ ہے

آسمانوں میں ہے خدا تنہا

اور ہر آدمی سے خطرہ ہے

میں کہوں کس طرح یہ بات اس سے

تجھ کو جانم مجھی سے خطرہ ہے

آج بھی اے کنار بان مجھے

تیری اک سانولی سے خطرہ ہے

ان لبوں کا لہو نہ پی جاؤں

اپنی تشنہ لبی سے خطرہ ہے

جونؔ ہی تو ہے جونؔ کے درپئے

میرؔ کو میرؔ ہی سے خطرہ ہے

اب نہیں کوئی بات خطرے کی

Advertisements
julia rana solicitors

اب سبھی کو سبھی سے خطرہ

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply