• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • داعش کی فکری شکست بہت ضروری ہے(حصہ اول)۔۔۔طاہر یاسین طاہر

داعش کی فکری شکست بہت ضروری ہے(حصہ اول)۔۔۔طاہر یاسین طاہر

وحشتوں کے ہر سفیر کا مقدر شکست ہے۔خواہ وہ القاعدہ ہو یا داعش،تحریک طالبان پاکستان ہو یا لشکر جھنگوی العالمی یا مقامی۔تاریخ انسانیت حسن بن سباح کے فدائین فتنے سے بھی آگاہ ہے۔ہر انسانیت کش کا انجام بالاآخر شکست و ندامت ہے۔اسلام امن و آشتی کا دین ہے،دین کے نام پر اٹھے والی کوئی بھی آواز صرف اسی صورت زندہ اور بیدار ذہنوں کو اپنی طرف مائل کر سکے گی جب اس آواز میں انسانیت کے لیے امن کا پیغام ہو گا۔تاریخ انسانیت ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے،سلیم فطرت انسانوں نے ہمیشہ حق کی آواز پہ لبیک کہا، البتہ درندہ صفت کج فہم انسان ہمیشہ قتل و غارت گری کو ہی اپنا ہنر مانتے رہے اور تاریخ کے چہرے پہ انسانوں کا خون ملتے رہے۔
کالم کا دامن کبھی بھی چار چھ پیرا گراف سے زیادہ نہیں ہوتا۔نہ ہی کسی بلاگنگ ویب سائٹ یا اخبار کا قاری کالم کے پردے میں مقالہ پڑھنے کا متحمل ہو سکتا ہے۔اللہ پاک توفیق دے اور ہنر بھی تو انشا اللہ، اسلام کے نام پر اٹھنے والی منظم اسلامی تحریکوں،ان کے نتائج، انتہا پسند تنظیموں، ان کی آبیاری،ان کے طرز فکر اور فتوئوں کی تلوار سے انسانوں کے ایمان جانچنے کی ساری کاریگریوں پہ ایک دقیق نظر ضرور ڈالوں گا۔کیا القاعدہ “باقاعدہ” اسلام کی سربلندی اور “جہاد” کا علم لے کر نہیں اٹھی تھی؟ اس کی طاقت اور تنظیم کا راز اب آشکار ہو چکا ہے۔مسلمانوں کو پہنچنے والی ہر تکلیف کو صرف استعمار کی سازش کہہ کر جان چھڑا لینا ایک سیاسی ہنر ہے، لیکن اس الم کا تجزیہ کرکے اسباب تلاش کرنا اہلِ دانش کی ذمہ داری ہے۔مگر افسوس کہ” اخباری  اورفیس بکی” دانش نے خود پسند پیدا کیے۔بالکل اسی طرح جیسے اسلام کی سربلندی کے نام پر انتہا پسندی تنظیمیں ظہور میں آئیں۔
خلافت ،عالم اسلام کے درمیان صدر ِ اسلام سے ہی ایک نزاعی مگر قابل توجہ موضوع رہا۔مسلمانوں نے اپنی موجودہ پسپائی اور تفرقہ بازی کا سبب یہ تلاش کیا کہ چونکہ امت خلافت سے دور ہو گئی یا خلافت امت سے دور ہو گئی اس لیے مسلمان پسماندہ ہیں۔اس لیے آپس میں نفرتیں ہیں اور ایک دوسرے کے قتل کے فتوے دیے جاتے ہیں۔اس بے چہرہ دلیل کا کوئی بھی ہوش مند کیا جواب دے؟فتویٰ گری تو کوئی چودہ پندرہ سو سال سے یونہی چلتی آ رہی ہے۔کیا امام حسین علیہ السلام اور آپ ؑ کے جانثار و باوفا اصحاب کے قتل کا فتویٰ نہیں دیا گیا تھا؟انسان کا حال جب بے حال ہو اور اسے مستقبل تاریک نظر آرہا ہو تو وہ اپنے ماضی میں پناہ تلاش کرتا ہے۔ماضی کے سہارے نئی دنیا تراشتا ہے اور اپنی امیدوں کے چراغ جلائے رکھتا ہے۔ یہی حال امت مسلمہ کے اس دھڑے کا بھی ہے جو دہشت گردی اور تکفیری رویوں کے سبب دوسروں مسلمانوں کو قتل کر کے” جنت کی دوڑ “میں لگے ہوئے ہیں۔
خود غرضی کی انتہا دیکھیے،اپنی گم گشتہ جنت کے لیے یہ ظالم اسلام کے نام پر دنیا کو ہی جہنم بنائے ہوئے ہیں۔ہاں مگر ہر عہد کے فرعون کے لیے اللہ رب العزت نے ایک موسیٰ ضرور پیدا کیا،ہر دور کے یزید کے لیے ایک حسینی موجود ہوتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم خوارج کے نرغے میں ہیں،اور مسلسل ان سے بر سرِ پیکار۔آخری فتح بے شک اہل حق کی ہی ہے،یہی اللہ کا پیغام ہے یہی اہل حق کے لیے نوید ہے۔جہاد یا اسلام کی سر بلندی،یا مسلکی برتری کا نعرہ اس قدر کشش رکھتا ہے کہ کج فہم اور ظواہر پرست لمحہ بھر میں اس نعرے کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ جدید تاریخ میں روس کے خلاف امریکی سرد جنگ کو بڑے ہنر کے ساتھ نام نہاد جہادی زاویے سے بیچا گیا۔ آج پاکستان، روس امریکہ سرد جنگ کے نتائج بھگت رہا ہے۔ بلکہ عالم اسلام کا ایک غالب حصہ بے مہار مسلح لشکریوں کے نرغے میں ہے۔
القاعدہ ایک بڑی دہشت گرد تنظیم کے طور پر اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوئی۔ کچھ مفکرین کا کہنا ہے کہ القاعدہ کا ہدف امریکہ کا سقوط تھا۔ مگر میرا ماننا ہے کہ القاعدہ کے فکری رویوں اور پالیسیوں نے افغانستان کو دو بار سقوط کرا دیا،عراق کو بھی ۔ القاعدہ سے طالبان،پھر النصرہ ، الشباب سے ہوتا ہوا یہ “فکری مغالطہ”داعش کی تخلیق تک پہنچا۔یہ سوال بڑا حیرت افروزہے کہ القاعدہ کی موجودگی میں داعش کیونکر بنی یا بنائی گئی؟النصرہ فرنٹ کیوں وجود میں آئی؟جبکہ ان سب تنظیموں کے فکری رویے تکفیری و انسان کش ہیں۔کیا القاعدہ کمزور ہو گئی تھی؟ یا ختم ہو گئی تھی؟یا اس کی مرکزیت کمزور ہو گئی تھی؟کئی سوالات طالب علم کے ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں۔ہاں البتہ داعش، القاعدہ، النصرہ،طالبان و الشباب و دیگر تمام دہشت گرد تنظیموں سے زیادہ سفاک اور وحشت ناک ہے۔اس تنظیم کو عراق و شام میں شکست فاش ہو چکی ہے۔اس کا شیرازہ بکھر چکا ہے اوراس کا نظریہ خلافت عراق و شام میں پاش پاش ہو گیا ہے۔یہ مگر سچ ہے کہ عرب بہار ہائی جیک ہوئی اور سامراج نے اپنے مقاصد کی گرہ لگائی۔داعش اسی گرہ کا ایک نام ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس تنظیم کی نئی منزل مگر کیا ہے؟یہ کہاں پڑائو کرے گی؟یا اس کے فراری کہاں پناہ لے رہے ہیں؟ یہ سوال  اہم بھی ہے اور فکر انگیز بھی۔داعش کی نئی پناہ گاہ افغانستان ہے اور اس کا تازہ ہدف افغان جنگ کو پاکستان لانا ہے۔سی پیک ان اہداف میں سے ایک ہے جو داعش کے ذریعے اس خطے میں پورا کرنے کے خواب دیکھے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے داعش کو “را”،این ڈی ایس اور ملا فضل اللہ کے طالبان کی حمایت حاصل ہے۔کیا داعش ایسا کر پائے گی؟میرا یقین ہے کہ پاک فوج داعش کو پاک افغان سرحد کے قریب سر نہیں اٹھانے دے گی۔داعش کے چند لوگوں کو پاکستان سے گرفتار بھی کیا گیا، لیکن ابھی بہت سا کام باقی ہے۔ مثلاً صرف داعش کے حق میں وال چاکنگ کرنے والے ہی نہیں بلکہ داعشی دہشت گردوں کو پاکستان آنے کے لیے ویڈیو پیغام جاری کرنے والوں کی فکری شکست بھی ابھی باقی ہے۔(جاری ہے)

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply