دگرگوں ملکی حالات اور سیاسی فراست کا تقاضا۔حال حوال

گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران پاکستان کے سیاسی حالات میں نہایت تیزی سے جو اتار چڑھاؤ آئے ہیں ان کے پیش نظر حکومتِ وقت سمیت ملک کی سیاسی قوتوں کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔پاکستان کے جڑواں شہر راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر گزشتہ اٹھارہ دن سے دھرنے پر موجود مذہبی جماعت کے اہلکاروں سے بات چیت کی ناکامی کے بعد طاقت کے استعمال نے حالات کو جس کشیدگی کی جانب دھکیلا ہے اس کے نہ صرف فوری حل ہونے کا کوئی امکان نظر آ رہا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں مزید تباہی اور سماجی اتھل پتھل ہی نظر آ رہی ہے.

ہفتے ہی کے روز کوئٹہ میں بھی دہشت گردی کی ایک اور بڑی کارروائی کے نتیجے میں پانچ شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے. گوکہ دہشت گردوں کا نشانہ فورسز کی گاڑیاں تھیں لیکن عوامی مقام پر ہونے والی اس کارروائی کے نتیجے میں عوام ہی بڑی تعداد میں متاثر ہوئے. جس کے بعد دن بھر کوئٹہ میں ٹریفک جام کا بھی مسئلہ رہا. اسکول سے لوٹنےوالے بچے شام گئے گھر پہنچے.

دوسری جانب دھرنے والوں کے خلاف اسلام آباد میں ہوئی کارروائی کے بعد ملک بھر میں ان کے حامیوں نے دھرنے اور احتجاج شروع کر دیا جس کے نتیجے میں تادم تحریر سیکڑوں لوگوں کے متاثر ہونے کی اطلاعات ہیں. آخری اطلاعات آنے تک حکومت نے اسلام آباد میں فوج کو طلب کر لیا تھا جس کے بعد حالات کی بہتری کا کچھ امکان پیدا ہو گیا تھا.

بنیادی طور پر یہ حکومتی نااہلی ہی کہلائے گی کہ اٹھارہ روز تک ملکی دارالحکومت کا محاصرہ کیے چند سو افراد سے نمٹنے کی بہتر حکمت عملی مرتب نہ کی جا سکی. حالاں کہ اسی شہر میں ہزاروں افراد سیکڑوں ایام تک دھرنا دیے بیٹھے رہے. یوں لگتا ہے کہ حکومت مبینہ طور پر اپنے خلاف ہونے والے اقدامات کے نتیجے میں اس قدر بوکھلائی ہوئی اور گومگوں کیفیت کا شکار ہے کہ اس سے فیصلہ نہیں ہو پا رہا کہ اسے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں.حالیہ جھڑپوں میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں کا بڑی تعداد میں زخمی ہونا اور آپریشن کا گھنٹوں معطل ہونا اور پھر اس کے بعد فوج کو طلب کرنا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ حکومت نے آپریشن کا انتہائی اقدام بنا کسی حکمت عملی کے اٹھایا ہے.

بہرکیف، اب جب کہ طاقت کا حتمی استعمال کیا ہی جا چکا ہے تو اب حکومت کے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں. اب حکومت کو قانون ہاتھ میں لینے والے دھرنا مظاہرین کے ساتھ سختی سے ہی نمٹنا ہو گا. حکومت کی البتہ ذمہ داری ہو گی کہ اس میں جانی نقصان کا امکان کم سے کم ہو اور عام آدمی اس کے نتیجے میں کم سے کم متاثر ہو.اسلام آباد سے آنے والی خبروں کے مطابق اس سیاسی عدم استحکام کا بنیادی مقصد موجودہ حکومت کو بے بس کر کے مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات سے قبل کسی طرح اسے فارغ کرنا ہے، جس کے لیے موجودہ اسمبلیوں کو قبل از وقت توڑنا ضروری ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

بظاہر یہ لگتا ہے کہ اس منصوبے کو حتمی شکل دینے کا آغاز ہو چکا ہے. اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں پاکستان میں یقینا نوبالغ جمہوری عمل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا، جس کے اثرات یقینا بلوچستان پر بھی مرتب ہوں گے.اس لیے یہ وقت ہے کہ ملک کی تمام سیاسی قوتیں اتحاد و فراست کا مظاہرہ کریں اور کسی صورت غیرجمہوری قوتوں کو مضبوط نہ ہونے دیں. موجودہ حالات میں اس کم زور جمہوری عمل کا تعطل پاکستان سمیت اس خطے کے لیے مضر ثابت ہو گا.

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply