میڈیا سے پنگااور کھسیانی بلی کا کھمبا نوچنا

وھائٹ ہاؤوس کے نئے مکین کی جانب سے اپنے دشمنوں کی تعداد میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے۔ آنے سے پہلے اور وھائٹ ہاؤس کی دہلیز عبورکرتے ہی وہ ان میں مزید اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔ الیکشن جیتنے سے پہلے خواتین کو تو وہ پہلے ہی مخالفین کی صف میں کھڑا کر چکے ہیں، پہلی تقریر کے بعد انہوں نے صحافیوں کو بھی مخالفین کا درجہ دے دیا ہے۔ جس کا انھیں قطعًا اندازہ نہیں کہ یہ ان کے لیے کتنا بھاری ثابت ہوسکتا ہے۔ صحافی ترقی پذیر ملک کا ہو یا ترقی یافتہ ملک کا، جیسے رئیسانی صاحب نے فرمایا تھا کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے ایسے ہی صحافی صحافی ہوتا ہے اور اس کے اندر ایک منتقم مزاج شخص ضرور موجود ہوتا ہے جو وقت پڑنے پر کسی بھی حوالے سے خودپہ گزری کسی تلخی کا بدلہ ضرور نکالتا ہے۔ عام صحافی کی بات تو اس کے پاس سوائے قلم کے اور کچھ نہیں ہوتا (عام صحافی کی بات یوں کی ہے کہ اب اس میں بھی کیٹگریز بن گئی ہیں سنا ہے خاص صحافیوں کے پاس قلم کے سوا سب کچھ ہوتا ہے) خیر عام صحافی جس کے پاس قلم کے سوا کچھ نہیں ہوتا اس کے لیے اپنے قلم کی حرمت سب سے زیادہ مقدم ہوتی ہے، اور اس کے پاس قلم کے سوا کچھ نہ ہونے کا سب سے بڑا ثبوت بھی یہی ہے کہ اس نے ہمیشہ اپنے قلم کی حرمت کو ہرچیز پر ترجیح دی اور یوں دنیاوی فوائد سے محروم رہ کر عام صحافی کے طور پر زندگی گزار دی۔ ایسے صحافی ہمیشہ سچی بات کرتے ہیں، سچی بات لکھتے ہیں اور سچی بات کہتے ہیں۔ البتہ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں اب میڈیا کو باقاعدہ کسی پروپیگنڈہ ٹول اور ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ بابا ٹرمپ نے اپنی پہلی تقریر کے بعد بیان داغا ہے کہ میڈیا نے ان کی تقریب حلف برداری کی غلط رپورٹنگ کی ہے، انھوں نے صحافیوں کو سب سے زیادہ بے ایمان انسان قرار دیتے ہوئے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ میڈیا کو یہ غلط بیانی کافی مہنگی پڑے گی۔ لوجی! ہمارا خیال تھا کہ سیاست میں دھمکیوں کا چلن صرف ہمارے ہاں کی رائج ہے لیکن خوشی کے مارے دل بلیوں اچھل رہا ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ملک کی سیاست بھی ہم ترقی کے پیچھے بھاگتے ملک سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ وائس آف امریکہ اردو سروس کی رپورٹ کے مطابق بابا ٹرمپ نے ہفتہ کے روز امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کے صدر دفتر کے دورے کے موقع پر اپنے خطاب میں میڈیا پر دو بڑے اعتراضات اٹھائے، جن میں ایک ان کی تقریب حلف برداری کے وقت لوگوں کی تعداد کو ان کے بقول غلط بتانا اور دوسرا اوول آفس سے مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی مورتی کو ہٹانے کی غلط خبر چلانا شامل تھے۔ٹرمپ کا کہنا تھا کہ جب انھوں نے تقریر کی تو ان کے سامنے اندازاً دس ،پندرہ لاکھ نظر آرہے تھے۔(مسئلہ یہ ہے کہ خوشی میں تو ویسے بھی ایک کے دو دو نظر آتے ہیں اب کیا پتہ بابا ٹرمپ کو ایک کے چار چار یا آٹھ آٹھ نظر آ رہے ہوں)۔ ایک نیٹ ورک نے کہا کہ یہاں ڈھائی لاکھ لوگ آئے۔ ٹھیک ہے کہ یہ کوئی اتنی بری تعداد نہیں، لیکن یہ جھوٹ ہے۔ صدر نے دعویٰ کیا کہ ڈھائی لاکھ کے قریب لوگ تو مرکزی اسٹیج کے پاس موجود تھے جب کہ دیگر 20 بلاکس کے علاقے میں، واشنگٹن مونیئومنٹ تک کھچا کھچ بھرے تھے۔ٹرمپ نے کہا کہ ہم نے میڈیا کا جھوٹ پکڑ لیا اور میرا خیال ہے انھیں اس کی بھاری قیمت چکانا ہوگی۔ لیکن جب بابا ٹرمپ کے اس دعوے کی صحافیانہ تحقیقات کی گئیں تو ان کا دعویٰ غلط نکلا۔ جمعہ کو صدر کی تقریب حلف برداری کے موقع پر نیشنل مال کی تصاویر لی گئیں جنھیں 2009ء میں تقریب کے وقت لوگوں کے ہجوم سے ملایا گیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ لوگوں کا ہجوم واشنگٹن مونیئومنٹ تک نہیں تھا۔ اس کے بیچ بہت سی خالی جگہیں دکھائی دیتی ہیں۔ ڈسٹرکٹ آف کولمبیا میں واقع ہوٹلز سے بھی پتہ چلا کہ ان کے ہاں بھی کمرے خالی تھے جو کہ عمومًا نئے صدور کی افتتاحی تقاریب کے موقع پر بھرے ہوئے ہوتے تھے۔ واشنگٹن کے میٹرو نظام کے اعداد و شمار بھی یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ماضی کی نسبت جمعہ کو خاصی کم تعداد میں لوگوں نے سفر کیا۔ ٹرانزٹ سروس کے ٹوئٹر اکانٹ کے مطابق 20 جنوری کو دن 11 بجے تک ایک لاکھ 93 ہزار لوگوں نے سفر کیا ۔ آٹھ سال قبل یہ تعداد پانچ لاکھ 13 ہزار تھی جب کہ چار سال قبل جب براک اوباما نے دوسری مدت صدارت کے لیے حلف لیا تو یہ تعداد تین لاکھ 17 ہزار تھی۔ 2005 میں صدر جارج ڈبلیو بش کی افتتاحی تقریب میں دن گیارہ بجے اس ذریعے سے سفر کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ 97 ہزار بتائی گئی۔اس ساری صورت حال اور بابا ٹرمپ کی جانب سے بے سروپا اڑانے کے حوالے سے چاچا ٹوپک کا کہنا ہے کہ موصوف ابتدائے عشق میں ہی بوکھلا گئے ہیں پتہ نہیں آگے یہ بابا جی کون کون سے گل کھلائے گا۔ گل تو یہ جو بھی کھلائے لیکن صحافیوں سے پنگا خود اس کے لیے مہنگا ثابت ہوسکتا ہے۔ صحافیوں کو معاشرے کی نبض کہا جاتا ہے اور نبض سے بلاجواز چھیڑ چھاڑ طبیعت کی خرابی کا باعث بن سکتی ہے۔ خیر ابھی تو موصوف بہت ہی نئے نئے ہیں ذرا اس سفید گھر میں چند روز گزار لیں تو انھیں بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ ان کے کیے کرائے کو دنیا بھر کے سامنے لانے والا میڈیا ہی ہے۔ چاچا ٹوپک کا کہنا ہے کہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق بابا ٹرمپ نے اپنے خلاف ہونے والے مظاہروں کو جمہوریت کا حسن تو قرار دیا ہے لیکن کوئی ان کے دل سے پوچھے کہ کس دل سے قرار دیا ہے۔

Facebook Comments

عمران یوسف زئی
عمران یوسف زئی کا تعلق بنیادی طور پر ضلع شانگلہ کی تحصیل بشام سے ہے۔ پشاور میں شعبہ صحافت سے 16 سال سے وابستہ ہیں۔ کئی قومی اخبارات کے ساتھ وابستگی رہی۔ گزشتہ 8سال سے دنیا نیوز کے ساتھ بحیثیت رپورٹر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔گزشتہ دو دہائیوں سے بچوں کے لئے بھی ادب تخلیق کررہے ہیں۔دو کتابیں شائع ہوچکی ہیں ۔پشاور سے بچوں کا اکلوتا رسالہ 'ماہنامہ گلونہ' شائع کر رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply