معاصر عالم اسلام کو درپیش چیلنجز۔۔۔ طفیل ہاشمی

گفٹ یونیورسٹی میں اس عنوان سے تیسرا سالانہ سیمینار تھا، جس میں میں نے کلیدی خطاب کیا اور اپنی دانست کےمطابق قیادت کے بحران کو ذیلی عنوانات کے دس چیلنجز کی اساس قرار دیتے ہوئے اس کے اسباب پر نظر ڈالی.
عالم اسلام میں حقیقی قیادت کے بحران کا پہلا سبب
عوام کی ownership کا انکار ہے
کابل سے لے کر مراکش تک پورے عالم اسلام میں ریاستوں پر جعلی اور مصنوعی قیادتیں مسلط ہیں اور کہیں پر بھی عوام کو ان ممالک کا حق ملکیت یا حق اقتدار حاصل نہیں.پورے عالم اسلام پر نگاہ ڈالئے ، ہر ملک پر وہاں کا کوئی نہ کوئی طاقت ور طبقہ بیرونی آقاؤں کی آشیرباد سے مسلط ہے اور وہاں کے عوام ان کے ظلم و ستم میں دبے ہوئے کراہ رہے ہیں.
اسلامی نظم ریاست کے حوالے سے دیکھا جائے تو رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ پہنچتے ہی وہاں کے باشندوں کے ساتھ بلاامتیاز مذہب و ملت ایک معاہدہ عمرانی کیا جس میں دوطرفہ حقوق و فرائض کا تعین کیا گیا. یہ معاہدہ اس قدر موثر اور ذمہ دارانہ تھا کہ وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود ریاست نے سلسلہ مواخات کے ذریعے ہر فرد کی روٹی اور اس کے لئیے فوری شیلٹر کے ساتھ ساتھ روزگار کے حصول کے لیے ایک مقامی فرد کا تعاون فراہم کر دیا. اس کے ساتھ ہی داخلی اور خارجی امن کو یقینی بنانے کے لیے لائف سیکورٹی کے قوانین کی تجدید کر کے ہر یونٹ کی ذمہ داری کا تعین کر دیا گیا. اور دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے سربراہ ریاست نے خود چہار جانب دورے کر کے تقریباً ڈیڑھ سو قبائل کو دفاعی معاہدوں میں شامل کیا، ان میں نہ صرف یہ ہے کہ مختلف مذاہب کے قبائل شامل تھے بلکہ انہیں صرف ریاستی دفاع کے دوطرفہ معاہدوں میں شامل کیا گیا اور مذہبی لڑائیوں کو اس معاہدے سے باہر رکھا گیا. یہ معاہدے اس قدر موثر تھے کہ جب بنو نضیر اور بنو قینقاع کو ان کی خلاف ورزی پر جلاوطن کیا گیا اور بنو قریظہ کو بغاوت کی سزا دی گئی اس کے بعد بھی مدینہ منورہ میں یہود کے کئی قبائل مکمل امن و اطمینان سے رہتے رہے جس کی تفصیل آپ یہودی مصنفہ کرن آرمسٹرانگ کی تالیف میں دیکھ سکتے ہیں.
عوام کے حقوق پر پہلا شب خون خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کرکے مارا گیا .مختلف اوقات میں حکمرانوں اور ان کے نمائندوں کے خطابات جو آپ کو البیان والتبیین للجاحظ ،اور اسی قبیل کی عربی ادبیات کی مستند تالیفات میں ملیں گے، ان ریاستوں میں عوام کی بے بسی اور بے توقیری ہی نہیں بلکہ شہریوں کے خون کی ارزانی کی داستانیں بھی ملیں گی.سیرت نبوی کے برعکس پوری مسلم تاریخ میں کبھی بھی حقیقی قیادت میسر نہیں آئی جسے عوام نے کسی معاہدہ عمرانی کے تحت قبول بخشا ہو.
ایسے حالات میں اہل علم دو گروہوں میں منقسم ہو گئے. ایک گروہ نے سرکاری مفادات کے حصول کی خاطر قرآن کے قطعی حکم مشاورت اور رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مستقل سنت عمل بالمشورہ کو حکمران کی صواب دید پر مبنی قرار دے کر ریاست نبوی کے نظم میں بنیادی تبدیلی کی راہ نکال دی لیکن دوسرا گروہ اولواالعزم علماء کا ہمیشہ موجود رہا جنہوں نے فسادات سے بچنے کے لیے خود کبھی حصول اقتدار کی کوشش نہیں کی البتہ ہمیشہ اپوزیشن کا کردار ادا کیا، اس کے لئیے کوڑے کھائے، جیلیں کاٹیں، زہر خورانی کا شکار ہوئے لیکن کبھی مداہنت نہیں کی جن کا مختصر تذکرہ مولانا ابوالحسن علی ندوی کی تاریخ دعوت و عزیمت میں دیکھا جا سکتا ہے.
پاکستان کی مثال ہی لیجیے، جنرل ایوب خان نے عوامی نمائندوں کو ایبڈو کا شکار کر کے دس سال تک عوام کو اس ملک کی اونر شپ سے محروم رکھا، اس دوران میں تین دریا بھارت کو دے دئیے. اور جب عوامی ردعمل سے بے بس ہو کر چھوڑنے پر مجبور ہوئے تو آئینی تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے سول ایڈمنسٹریشن بھی جنرل یحیی خان کو دے کر روانہ ہو گئے. یحییٰ خان نے الیکشن کروائے لیکن ملک عوام اور عوامی نمائندوں کے سپرد کرنے کے بجائے دولخت کرنا قبول کر لیا لیکن عوام کو اونر شپ نہیں دی. باقی ماندہ پاکستان نے ققنس کی طرح اپنی راکھ سے نئی سیاسی زندگی حاصل کی اور عوام میں ایک بار پھر خود شعوری کا احساس پیدا ہونا شروع ہوا تو ایک نئے ڈکٹیٹر نئی ڈکشن اور عزم جواں کے ساتھ وارد ہوئے اور انہوں نے حیرت انگیز حد تک ایسی بنیادی تبدیلیاں کر دیں کہ عوام کی حقیقی قیادت کے پروان چڑھنے کے امکانات ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئے.
کیسے؟؟
قیادت تعلیمی اداروں سے تربیت حاصل کر کے عملی میدان میں آتی ہے. طلبہ تنظیمیں سیاسی حرکیات کی نرسری ہوتی ہیں. چنانچہ انہوں نے وہ سرچشمہ ہی بند کر دیا جہاں سے سیاسی فکر و فہم اور عمل و حرکت کی تخلیق کا امکان تھا. متبادل کے طور پر مصنوعی قیادت تخلیق کرنی شروع کردی. ایسے افراد منتخب کئے گئے جو فہم و فراست میں متوسط سے کمتر اور اطاعت شعاری میں ڈکٹیٹر کے ادارے کے حاضر باش ملازمین کی خو بو رکھتے ہوں. جنہیں حسب ضرورت نصب کرنا اور اٹھا کر پھینک دینا آسان ہو. جن کی عوام میں کوئی کریڈیبلیٹی نہ ہو. جب فیک قیادت نصب کی جائے تو چونکہ ان کی اونر شپ ہوتی ہے نہ ملک و قوم کے ساتھ کوئی کمٹمنٹ اس لئیے وہ صرف اپنی ذات کے حوالے سے سوچتے ہیں اور اپنی آئندہ نسلوں کو خوش حال کرنے کی راہ پر چل نکلتے ہیں کیونکہ ان کی عوام میں جڑیں ہوتی ہیں نہ انہیں اونر شپ حاصل ہوتی ہے.
اگلے ڈکٹیٹر نے سسٹم کو مزید مستحکم کرنے کے لیے تعلیمی نظام میں جوہری تبدیلیاں کر دیں. تعلیم کو خدمت یا فرض کے شعبے سے نکال کر انڈسٹری میں شامل کر لیا گیا، اب جو بچہ داخل ہو گا اور لاکھوں کی فیس ادا کرے گا لازما ڈگری لے کر جائے گا کہ طالب علم کو بھی معلوم ہے کہ میں خریدار ہوں اور کالج یونیورسٹی کو بھی معلوم ہے کہ ہم فروخت کنندہ ہے. پس سارا نظام تجارتی بنیادوں پر استوار ہو گیا ہے.
یہی نہیں بلکہ وہ مضامین جو کسی قوم میں تھنکرز، فلاسفرز، قائدین اور مستقبل دہندہ پیدا کرتے ہیں انہیں بے دخل کر کے ساری قوم کے تمام بچوں کو تاریں جوڑنے اور سکریو ٹائٹ کرنے کی تعلیم پر لگا کر یہ اطمینان کر لیا گیا کہ جو لاکھوں روپے خرچ کر کے ڈگری لے گا وہ ساری زندگی اپنی خرچ کردہ دولت کی واپسی کے لیے کوشش جاری رکھے گا اور ٹیکنیشن کبھی فکری امور کے بارے میں غور و فکر کر کے اپنا دماغ نہیں تھکائیں گے.
تعلیم کا دوسرا منھج دینی تعلیم اور اس کے اداروں کا ہے. ان کے بارے میں سید مناظر احسن گیلانی لکھتے ہیں
آج کے علماء اور مدارس کی مثال اصحاب کہف کی سی ہے ۔ اصحاب کہف نے جس طرح سماجی اور ریاستی جبر سے تنگ ہو کر غار میں پناہ لے لی ، اُسی طرح ہمارے علماء نے بھی عصری علوم کو جبر سمجھ کر دینی مدارس ، مساجد اور خانقاہوں میں خود کو مقید کرلیا اور جب وہاں کے فضلاء باہر جھانکتے ہیں تو انہیں سماج کی کوئی شے اس ماحول سے ہم آھنگ نظر نہیں آتی جس میں انہوں نے زندگی کے بہترین سال صرف کر دئیے.
تاہم اس امر کا اندیشہ تھا کہ وہاں سے کوئی مرد قلندر نکل آئے اور اپنا اور اپنے عوام کا حق مانگنے لگ جائے، اس لئیے ان کے لئیے ایک مختلف دام تزویر بچھایا گیا. ایک طبقے کو پرتعیش زندگی کی لذت آفرینی سے روشناس کروا دیا گیا دوسرے کو جہاد کے بزنس پر لگا کر دینی اور دنیوی طور پر مطمئن کر دیا گیا.
کیا علماء کرام نے کبھی اس پر غور کیا کہ جس جہاد کے لیے انہوں نے سارے دینی ادب اور ادبیات کو وقف کر دیا تھا آج اسی کو دہشت گردی قرار دینے کے لیے یہاں سے مکہ مدینہ تک پیام پاکستان پر دستخط کرنے کروانے میں پیش پیش ہیں.
کیا قوم آئندہ آپ کے فتاویٰ پر مطمئن ہو کر جان و مال کی قربانی کے لیے تیار ہوگی؟؟
آفرین ہے اس مرد حق کی دانش بے پناہ پر جس نے ایسا “کلہ” ٹھونک دیا ہے کہ اب کسی تعلیمی نظام سے کوئی قیادت پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں جو کسی بھی وقت انہیں چیلنج کر سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors

دینی قیادت
دینی قیادت بظاہر دینی اداروں سے آنی چاہیے لیکن یہ امر تحقیق طلب ہے کہ پاکستان میں واقعتاً دینی ادارے موجود ہیں؟ . جو ادارے دینی عنوان سے تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں بلاشبہ دنیا بھر میں اپنی نوعیت کی منفرد این جی اوز ہیں، جو غریب اور نادار خاندانوں کے بچوں کو لے کر پالتی، پڑھاتی اور جوان کر کے واپس کرتی ہیں اس دوران تمام تر پرورش، تربیت، رہائش، کھانے پینے اور تعلیم وکتب کے اخراجات بھی برداشت کرتی ہیں. یہ بہت بڑا کارنامہ ہے تاہم اس کا سائیڈ ایفکٹ یہ ہے کہ اس بھروسے پر کم آمدنی والے خاندان افزائش نسل میں کوئی احتیاط نہیں کرتے. سوال اگرچہ گستاخانہ ہے لیکن یہ بھی ہے کہ یہ تمام ادارے مسالک اور مکاتب فکر سے وابستہ ہیں اور مسلکی عصبیت کی بنا پر عقیدت اور نفرت کے سانچوں کے مطابق تعلیم دیتے ہیں. کیا یہی دینی تعلیم ہے. بجا ہے کہ ان سب اداروں میں تعلیم کا کچھ حصہ اصل دین سے متعلق ہوتا ہے لیکن تفاسیر، تشریحات اور حواشی و تعلیقات کا محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دین سے کتنا تعلق ہوتا ہے؟ اس کا تحقیقی تحلیلی اور تجزیاتی مطالعہ ضروری ہے.
نیز یہ بچے جب فارغ ہوتے ہیں تو ان کے خاندان منتظر ہوتے ہیں کہ اب یہ اپنے خاندان کی کفالت کی ذمہ داری سنبھالیں گے. کاش اگر دینی مدارس دینی تعلیم کے ساتھ اپنے ہاں کسی پیشہ ورانہ تربیت کی کوئی ورکشاپ بھی شروع کردیں تو فضلاء کے معاشی مسائل کے حل کی راہ نکل سکتی ہے.
جو بچے عقیدت و نفرت کی آغوش میں پرورش پاتے ہیں ان سے قائدانہ کردار کی امید رکھنا محض ابلہ فریبی ہے. یہی وجہ ہے کہ اس پس منظر سے وجود میں آنے والی دینی سیاسی جماعتیں دراصل صرف اپنے اپنے فرقے کی نمائندگی کرتی ہیں.
یہ امر بھی قابل غور ہے کہ دینی مدارس کے فضلاء غریب اور کم مایہ پس منظر سے آئے ہوئے ہوتے ہیں اور تاریخی تجربہ یہ بتاتا ہے کہ غربت سے آئے ہوئے افراد اور ناز و نعمت میں پلے ہوئے لاڈلے کبھی قیادت فراہم نہیں کر سکتے. دراصل افراد کے خاندانی پس منظر کو بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے جسے رسول اکرم نے فرمایا، تم میں سے جو دور جاہلیت میں بہتر تھے وہ اسلام سیکھنے کے بعد بہترین ہو گئے. یہی وجہ تھی کہ بعض قدیم ترین صحابہ کرام کبھی منصب قیادت پر فائز نہیں کئے گئے جبکہ خالد بن ولید اور عمرو بن العاص اسلام قبول کرنے کے چند دنوں بعد لشکروں کی قیادت کر رہے تھے.
ماضی میں گاہے گاہے ان کے اتحاد بھی قائم ہوتے رہے لیکن بقول شورش کاشمیری، انہیں مسائل نے نہیں، مصائب نے متحد کیا ہے. جیسے مدارس دینیہ کی تنظیمات کا اتحاد تعمیری یا قائدانہ کردار کے لئیے نہیں بلکہ اپنے اپنے بزنس انٹرپرائزز کے تحفظ کے لئے مدافعانہ اتحاد ہے.
. ملک و قوم کے لئے دینی قیادت کی فراہمی کے منھج کے حوالے سے تین مختلف طریقے رائج رہے
مجدد الف ثانی نے براہ راست سیاست میں آنے کے بجائے برسر اقتدار طبقے تک رسائی حاصل کر کے مطلوب تبدیلیوں کے لئے کوشش کی اور اب تک کے تجربات کی روشنی میں اسے کامیاب ترین تجربہ کہا جا سکتا ہے.
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ہمیشہ باہر کے حملہ آوروں کو دعوت دیتے ہوئے نظر آتے ہیں. یہی روش بعد میں مکتب دیوبند نے تحریک خلافت اور ریشمی رومال میں اختیار کی. اس کی خرابیاں جاننے کے لیے اس تحریک کے سب سے فعال رکن مولانا عبیداللہ سندھی کی یادداشتیں پڑھنے سے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں. باہر کے حملہ آور بالعموم آپ کے قابل انتقال اثاثوں کو لے کر واپس اپنے وطن لوٹ جاتے ہیں.
جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نے براہ راست انتخابات میں حصہ لے کر دینی قیادت فراہم کرنے کی راہ اپنائ. جماعت اسلامی نے 1970 کے انتخابات میں اپنی اتنی طاقت جھونک دی تھی کہ اسے اپنی کامیابی کا یقین تھا لیکن نتائج آنے پر اس کے پاس مغربی پاکستان سے صرف چار سیٹیں تھیں. عالم اسلام کے نامور دانش ور مولانا مودودی نے اسے بھاری پتھر سمجھ کر چھوڑ دیا اور باقی ماندہ جماعت اس وقت سے آج تک اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم کے طور پر دوسروں کی کالک اپنے روشن اور صادق و امین چہرے پر ملنے کی سعادت حاصل کر رہی ہے. جمعیت علمائے اسلام بھی اس خدمت میں پیش پیش رہی اور ان دونوں جماعتوں نے یہ زمینی حقیقت جان لی کہ دریا میں رہنے کے لیے مگرمچھ کی بندگی کے سوا کوئی چارہ کار نہیں.
ستر سال کا طویل تجربہ یہ جاننے کے لیے کافی ہے کہ دینی ادارے پاکستان کی حد تک قیادت فراہم کرنے کے سلسلے میں بانجھ ہو چکے ہیں.
پس موجودہ پس منظر میں رسمی تعلیمی ادارے اور دینی تعلیمی ادارے کسی قسم کی ملکی اور قومی قیادت فراہم نہیں کر سکتے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply