• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستان کا نظام تعلیم فرد کی کردار سازی میں ناکام

پاکستان کا نظام تعلیم فرد کی کردار سازی میں ناکام

تعلیم وہ اجتماعی عمل ہے جس کے ذریعے نوخیز نسلوں کو بامقصد تصورِ حیات سکھایا جاتا ہے، عقائد و اقدار کو انکے اذہان میں راسخ کیاجاتا اور اخلاق و آداب سے روشناس کروایا جاتا ہے۔ بامقصد نظام تعلیم کے لئے پروردہ دنیا میں پرامن اور عادلانہ انقلاب برپا کرتے اور صالح معاشرہ کی بنیاد رکھتے ہیں۔ تعلیم دینا اور تعلیم حاصل کرنا مسلم معاشرہ میں فرض عین سمجھا جاتا ہے۔ اسلام کی رو سے حصول علم ایک عبادت ہے اور اس عمل کے دوران معلم اور تعلم دونوں عبادت میں مصروف ہوتے ہیں۔ آج اس عبادت کو ہم نے تجارت بنا لیا ہے،ہمارے تعلیمی ادارے پیسہ بنانے کے کارخانے بن چکے ہیں۔ معلم ہو یا تعلم ہر ایک کا مقصد صرف وہ تعلیم دینا اور حاصل کرنا ہے جو مال بنانے کے لئے کار آمد ہو۔فرد کی شخصی اور اخلاقی تربیت کی جانب کوئی توجہ نہیں دے رہا۔

ہم نے اپنے نظام تعلیم میں بہتری کی خاطر پرائیویٹ سیکٹر کو آگے لایا،اپنی آئندہ نسلوں کی تربیت انکو سونپی ۔ یہ عمل ایسے ہی ہے جیسے ہم اپنے ملک کی سرحدیں دشمن کے لئے کھول دیں۔ اس صورتحال کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری قوم میں فکری وحدت اور ذہنی یکسوئی مفقود ہے،انسان مقصد انسانیت سے عاری ہوچکا ہے،معاشرہ مادیت پرستی کی انتہاء کو چھو چکا ہے اور اخلاقی بے راہ روی کا شکار ہوچکا ہے۔ پندرہ سال کا طالب علم اپنی استانی سے عشق لڑاتا ہے اور پھر ناکامی کا اظہار خودکشی سے کرتا ہے۔یہ ہیں مخلوط نظام تعلیم کے ابتدائی ثمرات، مخلوط نظام تعلیم ہونا چاہیے لیکن اس کے لئے چند حدودقیود کی پابندی لازم ہونی چاہیے۔ آج ہم تعلیم کے نام پر ایک ایسی زہر قاتل لے رہے ہیں جو آئندہ نسلوں کو شعوری اور عقلی طور پر موت کے گھاٹ اتار دے گی۔

آج پاکستان کا نظام تعلیم کئی ابہامات کا شکار ہے۔یہاں فرد کے کردار کی تعمیر ناممکن نظر آتی ہے۔تعلیمی ادار صرف ڈگریاں بانٹ رہیں۔تعلیم اب طبقاتی درجات میں بٹ چکی ہے۔ سرکاری ادارے،نجی ادارے اور مدارس شامل ہیں۔ پاکستان میں جس کے پاس پیسہ ہو وہ اپنے بچوں کو نجی اداروں میں تعلیم دلواتا ہے،جو مڈل کلاسیا ہو وہ سرکاری اداروں سے رجوع کرتا ہے اور جو مکمل غریب ہو وہ اپنے بچوں کو مدارس میں ڈال دیتا ہے۔ اس ساری صورتحال میں تعلیمی نصاب بھی درجات میں تقسیم ہے۔تمام اداروں اور تنظیموں کا اپنے اپنےتعلیمی نظریے کےمطابق نصاب ہے جس سے طبقاتی اور فکری درجہ بندی بڑھ رہی ہے۔ اس وقت پاکستان میں انگلش میڈیم کا بول بالا ہے اور ہر جگہ اگلش میڈیم کے سائن بورڈ لگے نظر آتے ہیں۔

اس معاملے پر بھی ہم ابہام کا شکار ہیں۔آج طالب علم ہو یا والدین یا پھر استاد سب اسی کشمکش کا شکار ہیں کہ آخر کیا کیا جاۓ؟ ہمارا نظام تعلیم ”ملٹی شیڈ” ہوچکا ہے،یہاں مختلف بےکار سرگرمیاں جاری ہیں۔ ڈگریاں تو دی جارہی ہیں،میرٹ اور نمبروں کا بھی مقابلہ ہے،فرسٹ ،سیکنڈ اور تھرڈ ڈویژن کا بھی مقابلہ ہے لیکن اچھی تعلیم کردار سازی میں زیرو ہیں۔ آج کا طالب علم خود ذہنی طور پر پریشان ہے کیونکہ نصاب انگریزی میں پڑھتا ہے،سوال اردو میں پوچھتا ہے اور گھر میں مادری زبان سے ابلاغ کرتا ہے۔ آج کا طالب علم یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اصل میں کونسی زبان آسان اور درست ہے؟ انگریزی پڑھوں تو سوال کونسی زبان میں کروں؟ اردو پڑھوں تو نصاب کو کہاں پھینکوں؟ یاپھر گھر والوں کا زبان و بیان کیسے درست کروں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارا المیہ ہے کہ جہاں پر تعلیمی ادارے تعلیم کے نام پر مال بٹور رہے ہیں، وہیں والدین اپنے بچوں کے اندر یہ احساس پیدا کرتے ہیں کہ اساتذہ آپ کے نوکر ہیں اور آپ ان کے آقا۔کیونکہ ہم فیسیں دیتے ہیں، ہم آپ پر انویسٹ کررہے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں طلباء کے اندر استاد کی اہمیت اور عزت دن بدن کم ہوتی جارہی ہے اور ایک نئی بدتمیزی کی تہذیب جوان ہورہی ہے۔ دوسری طرف طالب علموں کے نزدیک نمبر لینا ضروری ہیں، تعلیم حاصل کرنا نہیں۔ جس سے انکی اخلاقی اور روحانی تربیت تباہ ہورہی ہے۔ آج تعلیمی ادارے بجاۓ فرد کی شخصیت نکھارنے کے ایک ڈگری ہولڈر گدھا بنا کر دے رہیں ۔ جس کا مقصد صرف اور صرف نوکری کرنا ہے اور کچھ نہیں۔

Facebook Comments

محمود شفیع بھٹی
ایک معمولی دکاندار کا بیٹا ہوں۔ زندگی کے صرف دو مقاصد ہیں فوجداری کا اچھا وکیل بننا اور بطور کالم نگار لفظوں پر گرفت مضبوط کرنا۔غریب ہوں، حقیر ہوں، مزدور ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply