وحی، عقل اور عصری مسائل کا حل۔مجاہد حسین

یہاں ایک اہم نکتہ سامنے آتا ہے۔ اسلامی فکر اس بات پر یکسو ہے کہ وحی کو عقل پر بالادستی حاصل ہے لیکن عملاً صورتحال یہ ہے کہ قرآن پاک کی تشریح کرتے ہوئے ایک ایک آیت کے معاملے میں بہرحال آخری فیصلہ ہماری عقل کرتی ہے۔ ہم چاہے جتنا بھی احادیث مبارکہ سے رہنمائی حاصل کریں یا پرانی تفاسیر سے مدد لیں، آخرکار جس سمت ہماری فکر رہنمائی کرتی ہے، ہم اسی کو ہی وحی کا منشا قرار دے دیتے ہیں۔ وحی ایک مستقل صورت میں ہمارے فہم و ادراک سے باہر یقیناً موجود ہے مگر اس تک رسائی صرف عقل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

اگر یہ مقدمہ درست ہے تو اس سے چند اہم نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جسے ہم اللہ کی مرضی قرار دے کر مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں، وہ دراصل انفرادی کاوشوں کا حاصل ہوتا ہے جس میں غلطی کا احتمال موجود رہتا ہے۔ اس لیے ہماری گفتگو میں حتمیت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ فارمولا امام غزالی اورعلامہ اقبال سے لے کر مولانا مودودی اور جاوید احمد غامدی جیسے نابغہ روزگار افراد پر بھی لاگو ہوتا ہے اور ان کے چاہنے والوں پر بھی۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ عقل کی فیصلہ کن حیثیت صرف قرآن کی تشریح تک محدود نہیں ہے۔ فقہی معاملات میں بھی فقیہ کی انفرادی عقل ہی آخری فیصلہ کرتی ہے۔ سماجی معاملات میں بالخصوص وحی کی تشریح کے لیے فکری صلاحیتوں کو وسیع میدان میسر ہوتا ہے۔

اگر شروع سے لے کر آج تک کے فقہا کا جائزہ لیا جائے تو ان کی تفہیم پر عصری مسائل کے اثرات واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک دور میں حکمران کا قبیلہ قریش سے ہونا ایک بہت بڑا سیاسی مسئلہ ہوا کرتا تھا جو کئی صدیوں تک مباحث کا حصہ رہا۔ آج یہ متروک ہو چکا ہے اور اس کی جگہ جمہوریت جیسے مسائل ہماری فکر کا محور ہیں۔

غلاموں کے حقوق و فرائض پرانے فقہ کا اہم حصہ ہوا کرتے تھے۔ آج یہ باب بند ہو چکا ہے کیونکہ اس کا ہمارے عصر سے کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ یہ اور اس جیسی بے شمار مثالیں یہ بات ثابت کرتی ہیں کہ اجتماعی معاملات میں وحی کی تشریح بدلتی رہتی ہے۔ خالق کائنات نے یہ فریضہ ہماری فکری صلاحیتوں کو سونپا ہوا ہے کہ وہ بدلتے زمانے کے مسائل حل کرنے کے لیے نئے رستے تلاش کرے۔

اس معاملے کا تیسرا پہلو البتہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم پچھلی کئی صدیوں سےاپنی عقل کو صرف ایڈجسٹ منٹ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ عصر حاضر کے تقاضوں کے سامنے جب ہم بے بس ہو جاتے ہیں اور انہیں تسلیم کیے بنا کوئی چارہ نہیں رہتا تو ہم وحی کی نئی تشریح کر لیتے ہیں۔ جب برطانیہ کے دباؤ پر سلطنت عثمانیہ نے اپنی قلمرو میں غلامی کے خاتمے کا اعلان کیا تو حجاز کے علماء نے اس حکم کے غیر اسلامی ہونے کا فتوی دے دیا۔ صورتحال اس قدر سنگین ہو گئی کہ بغاوت کا خطرہ پیدا ہو گیا اور سلطان نے گھبرا کر سرزمین حجاز کو اس حکم سے مستثنی قرار دے دیا۔ تاہم وقت کے جبر نے اپنی بات منوا لی اور سعودی حکومت نے 1962ء میں غلامی کو سرکاری طور پر غیر قانونی قرار دے دیا۔ جس معاملے کو علماء نے ایک صدی پہلے اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی قرار دیا تھا اب وہی عین منشائے اسلام قرار پایا۔

آج کنیز اور غلام کے معاملے پر جس عالم سے بات کریں، وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر تا ہے کہ اسلام بتدریج غلامی کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ کہ دور جدید سے پہلے کسی بھی فقیہ نے یہ بات نہیں کہی۔ یہ عصر حاضر کا جبر ہے جس کے سامنے بے بس ہو کر ہماری عقل نے وحی کی نئی تشریح کی۔ جدید سائنسی تحقیقات کو قرآن سے ثابت کرنا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اسی طرح بےشمار ایسے معاملات ہمارے سامنے ہیں جن میں سائنسی ایجادات کے استعمال کو شروع میں حرام قرار دیا گیا لیکن جب وہ زندگی کا ناگزیر حصہ بن گئیں تو پھر اپنی رائے تبدیل کر لی گئی۔ یہ عقل کا غیر فعال (Passive) استعمال ہے جو جرات سے بھی تہی ہے اور جس کی وجہ سے مسائل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کا حل بھی تلاش نہیں کیا جا سکا۔ یہ خوفزدہ، بےبس اور اپنے خول میں سمٹی ہوئی عقل ہے جسے زمانے کے تھپیڑے ادھر ادھر اڑائے پھرتے ہیں۔

ہم میں سے اکثر نے یہ منظر دیکھا ہوگا کہ بکری کےگلے میں رسی ڈال کر اسے زبردستی لے جانے کی کوشش کی جائے تو وہ مزاحمت کرتی ہوئی ایک ایک قدم گھسٹتی چلی جاتی ہے۔ روح عصر کے تقاضے بھی غیر فعال عقل کو اسی طرح گھسیٹ کر اپنی منزل تک پہنچا دیتے ہیں لیکن اس عمل میں بہت سی قیمتی توانائی ضائع ہو جاتی ہے، گلے پر نشان پڑ جاتے ہیں اور سانس بھی رکنے لگتی ہے۔ اس کے برعکس عقل کا فعال (Active) استعمال عصری مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور ان سے خود کو ہم آہنگ کرتا جاتا ہے۔ آج کے دور میں فکر کے فعال ہونے کا عملی رستہ علوم میں تخصیص کی صورت میں سامنے آیا ہے۔

دور قدیم میں ایک مذہبی عالم سماجی زندگی کے ہر شعبے میں مہارت کا دعویدار ہوا کرتا تھا کیونکہ سماج اپنی بنت میں بہت سادہ تھا اور علم کی حدود بہت مختصر تھیں۔ اس کے برعکس آج علم کی سرحدیں اس قدر وسیع ہو چکی ہیں کہ ایک انسان کے لیے تمام مسائل کا حل تلاش کرنا ممکن نہیں رہا۔ اس لیے اخلاقیات، عمرانیات، فلسفہ، سیاسیات، معاشیات، قانون اور دیگر تمام سماجی شعبہ ہائے جات میں تخصیص کے ذریعے ماہرین کی کھیپ تیار کی جاتی ہے۔ یہ جدید دور میں عقل کی فعالی حیثیت کی عملی شکل ہے۔

اسلامی دنیا ابھی تک دور قدیم میں رہ رہی ہے۔ ہمارا فقہ کا ماہر زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کرنا اپنا استحقاق سمجھتا ہے، اور چونکہ اسے مہارت تامہ حاصل نہیں ہوتی، اس لیے وہ معاملات کا سطحی تجزیہ کرتا رہتا ہے اور اپنے اس سطحی پن کو وحی کے مقدس پردے میں چھپا کر اسے تنقید سے بالاتر بنانے کی کوشش کرتا ہے۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے ماہرین تیار کیے جائیں جو کسی ایک شعبے میں نہ صرف ہماری تہذیب کے علمی ورثے سے آگاہ ہوں بلکہ اس مخصوص شعبے میں جو کام دور جدید میں ہوا ہے، اس پر بھی مکمل دسترس رکھتے ہوں۔ جس دن ہم نے اپنے تعلیمی اداروں کو اس بنیاد پر منظم کرنے کا فیصلہ کر لیا، اسی دن سے ہماری عقل فعالی صورت اختیار کر لے گی اور ہم تخلیقی انداز میں اپنے نظری اور عملی مسائل کا حل تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

اس وقت ہم لیفٹ اور رائٹ یا اسلامسٹ اور لبرل کی جس خوفناک تقسیم کا شکار ہیں، اس کی تہہ میں بھی یہی مسئلہ کارفرما ہے۔ جو لوگ صرف مغربی علوم معاشرت کے ماہرین ہیں، وہ ہمارے پورے تہذیبی اور علمی ورثے کو یک جنبش قلم رد کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اس سماج میں مضحکہ خیز حد تک اجنبی بن جاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں مذہبی تعلیم سے آراستہ طبقہ ہے جس کی جدید علوم سے آگہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان دونوں کی بے مقصد لڑائی نے ہماری فکر کو ایک مقام پر منجمد کیا ہوا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

انسانیت نے آج تک جتنی بھی ترقی کی ہے، اس میں ہر تہذیب نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ایک تہذیب جنم لیتی ہے، بنی نوع انسان کا ہاتھ تھام کر اسے کچھ فاصلے تک لے جاتی ہے، اور ایک وقت آتا ہے جب وہ تھک ہار کے ہانپنے لگتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک نئی تہذیب پرچم تھام لیتی ہے اور یہ سفر مسلسل جاری رہتا ہے۔ بابل اور نینوا سے لے کر یونانی، رومی اور مسلمان تہذیب تک، تمام نے نسل انسانی کے ارتقا میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ دور جدید میں یہ علم مغرب نے اٹھایا اور پچھلی تمام تہذیبی کاوشوں سے استفادہ کرتے ہوئے اسے آگے بڑھایا۔ آج مغربی تہذیب پر بھی تھکان کے اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ انسانیت کو ایک نئے رہبر کی ضرورت ہے۔ اب جس سماج نے بھی رہنمائی کے لیے آگے بڑھنا ہے، اسے مغرب کے علمی سرمائے سے فیض حاصل کرنا ہوگا کیونکہ یہ تاریخ کا بنیادی تقاضا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے اپنی تہذیبی بنیادوں کو بھی برقرار رکھنا ہوگا تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ مغرب کی زوال پذیر روایت کا ہی ایک تسلسل بن کر رہ جائے۔ اور یہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب عقل کو فعال انداز میں استعمال کیا جائے۔

Facebook Comments

مجاہد حسین
مجاہد حسین مکالمہ کے اولین ممبرز میں سے ہیں۔ آپ جذباتیت اور عصبیت سے پاک تجزیات کے ماہر ہیں اور اس معاشرے میں شعور کی شمع جلائے ہوے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply