نیو جیئے مسجد۔محمد سلیم

سن 966 میں تعمیر ہونے والی بیجنگ کی قدیم ترین مسجد ہے جو کہ لیو خاندان کے دور حکومت (سن 916 سے 1125 تک پر محیط) میں بنی۔ اپنی زیبائش اور آرائش کے لحاظ سے چینی حُسن تعمیرات کا تحفہ ہے۔ انتظامی طور پر فعال اور نمازیوں کے سجدوں سے زندہ و سلامت ہے۔ مسجد علاقے کیلیئے مرکزی نقطے کی حیثیت رکھتی ہے جس نے بیجنگ کی سب سے بڑی دس ہزار سے زیادہ نفوس پر مشتمل مسلم آبادی کو اپنے آس پاس بسا رکھا ہے۔ مسجد کے اطراف میں مسلم آبادی، حلال کھانوں کی دکانیں اور مسلمانوں کے کاروبار اور ہوٹل ہیں۔

اگر آپ مسجد کا تصور ترکی طرز تعمیر یا اسلامی فن تعمیر جیسا سوچنا چاہتے ہیں تو یہ پھر یہ مسجد آپ کے لیے  چونکا دینے کی حد تک مختلف ہوگی۔ مسجد پر چینی ثقافت اور طرز تعمیر کا رنگ غالب ہے۔ مکمل لکڑی سے بنی ہوئی ہے، آرائش کو بہت زیادہ تھوپا گیا ہے اور رنگ انتہائی گہرے استعمال کیے گئے ہیں۔

مسجد کی ابتدائی شکل کیا ہوگی کے بارے میں کچھ نہیں کہا کہا جا سکتا کیونکہ اپنی تعمیر کے دو سو سال بعد منگولوں کے بیجنگ پر قبضے اور بیجنگ فتح ہونے کے بعد زمین بوس کر دی گئی، تاہم لوگوں کے دلوں سے محو نا ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ جب منگول قبلائی خان کا یہ طوفان تھما تو 1442 میں اسے مِنگ خاندان کے حکمرانوں نے دوبارہ تعمیر کرا دیا۔ مسجد اور مسجد سے جڑے مسلمانوں سے عقیدت کا اس بات سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سن 1696 میں چین پر حاکم چِنگ خاندان نے بھی اس مسجد کو اس کے مکمل رقبے (ڈیڑھ ایکڑ) کی دریافت کر کے اس کی اصلی اور بنیادی حیثیت سے بحال اور دوبارہ تعمیر کرادیا۔

مسجد کی اہمیت ابھی تک بھی مسلمہ ہے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت نے اسے شہر کی اہم ٹورسٹ مقامات میں شمار کر رکھا ہے اور جب کہ کوئی مسلمان حکمران یا مسلمان مندوبین بیجنگ کے دورے پر تشریف لاتے ہیں کو یہاں لا کر مسجد کی زیارت کرائی جاتی ہے۔ غیر مسلم فقط نماز کے لیے مخصوص ہال میں داخل نہیں ہو سکتے، ورنہ تو سارا دن کوئی نا کوئی ٹور گروپ آیا ہی رہتا ہے۔

مسجد باہر سے مکمل طور پر قدیم چینی    مگر اندر سے محرابوں کی حد مکمل عربی ثقافت کی عکاس ہے۔ اگر آپ نے فاربِڈن سٹی کے اندر تعمیر ہونے والے منگ خاندان کے محلات یا سمر پیلس میں چنگ عہد کی گزرگاہیں، آرائشی راستے اور لکڑی کا کام دیکھ رکھا ہے تو آپ اس مسجد کو کسی طور بھی ان سے کم نہیں پائیں گے۔ بادشاہوں نے یہاں بھی دل کھول کر وہی کام اور نقش و نگار بنوائے ہیں۔

مسجد پر ترکی کا صوفی ازم کھل کر طاری نظر آتا ہے۔ امام مسجد اور ان کے ساتھیوں نے پیچھے کمر پر لمبی سی لڑ لٹکائے سفید عمامے باندھ رکھے، اور خوبصورت کریم کلر کے مکمل اوور آل (عبائے) زیب تن کر رکھے ہوتے ہیں۔ امامت کے لیے امام صاحب اپنے پیچھے سات آٹھ پیش اماموں کی قطار لیے تشریف لاتے ہیں۔ نماز کے بعد ان ہی کی حرکات و سکنات سے میل ملا کر باقی کے نمازی اذکار اور تسبیح کرتے ہیں۔ منظر ایمان افروز اور پر شکوہ ہوتا ہے۔

مسجد (نماز کا مرکزی ہال) کا 600 مربع میٹر رقبے پر بنا ہوا ہے جس میں بیک وقت 1000 سے زیادہ مسلمان نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مشرق بعید کی رواج کے مطابق مسجد کے اندر اطراف میں معمر نمازیوں کے لیے  کرسیاں لگی ہوئی ہوئی ہیں جن پر بیٹھے وہ تلاوت قران  کرتے یا وقت ہونے پر نماز پڑھتے ہیں۔ مسجد کا ھال چوبی محرابوں کا مجموعہ ہے جن پر قرآنی آیات لکھی ہوئی ہیں۔ مشرق وسطی میں مسجد کا قالین بس اتنا ہی بڑا ہوتا ہے کہ جس پر نمازی قیام میں پاؤں رکھے اور سجدے میں گھٹنا یا جلوس میں بیٹھے۔ سجدہ اور سجدے کے لیے  ہتھیلیاں زمین (فرش) پر ٹکائی جاتی ہیں۔ تاہم اب وقت بدلا ہے تو فرش پر بھی ایک باریک قالین بچھایا جاتا ہے تاہم بنیادی قالین (قالینی صف) بس وہی چھوٹی ہی ہوتی ہے۔

چین میں مساجد کے لیے غسل خانے، طہارت خانے اور پاخانے تین مختلف چیزیں اور علیحدہ علیحدہ ہوتی ہیں۔ وضو خانے آرام دہ اور تھڑوں پر بیٹھ کر وضو کر سکنے والے  بنائے  ہوئے  ہوتے ہیں۔ اس مسجد میں یقینا ممکنہ جم غفیر کو ذہن میں رکھ کر مرد و زن کے کے لیے  کافی زیادہ انتظام کیا گیا ہے۔ خدام چست، ہنس مکھ اور دوستانہ رویے  والے ہیں۔

 

احاطے میں ایک علیحدہ بغیر چھت والے کمرے میں دو قبریں بھی بنی ہوئی ہیں، کتبوں پر درج معلومات کے مطابق یہ مسجد کے ابتدائی عہد کے  آئمہ کرام ہیں جو بالترتیب 1280 اور 1283 میں وفات پا گئے۔ قبروں پر پاس چند قالین سلیقے سے لپیٹ کر رکھے گئے تھے جن کی موجودگی کی مجھے پہلی نظر میں سمجھ نا آ سکی۔  مزار کے احاطے میں ایک دیو ہیکل  نحاسی اگربتیاں جلانے والا آتش دان بالکل ویسا ہی نصب تھا جیسا یہاں ہر بدھ مت عبادت خانے میں نصب ہوتا ہے۔

دیگر قابل ذکر تعمیرات میں عورتوں کی نماز کے دو ہال، چاند دیکھنے کا مینار، عید میلاد النبی پر پکوان پکانے کے لیے  مخصوص پیالہ نما دیگ، چینی سائنسدانوں کی ایجاد کردہ وقت پیما، امام صاحب کی رہائش، خدام کی رہائش، ہر دور کی تعمیر کے وقت نصب یادگاری مینار، یادگاری اشیاء خریدنے کا مرکزاور معلومات کا مرکز تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مسجد کی مکمل زیارت اور آگاہی لینے کے بعد اور اس میں ایک نماز ادا کرنے کے بعد واپس جاتے ہوئے جب مزار کے احاطے سے گزر ہوا تو ایک منظر نے میرے قدم روک لیے ۔ ماں باپ، بیٹا اور بہو لگنے والا ایک خاندان اپنے ساتھ لائے ہوئے ایک مولوی کے توسط سے اصحاب مزار کے سامنے بیٹھے فاتحہ خوانی کر رہے تھے۔ بیٹا اور بہو کے ہاتھ میں بدھ متی عبادتی انداز میں پکڑی ہوئی اگربتیوں کو دیکھ کر مجھے ایسے لگا جیسے سرکار علیہ افضل السلام والتسلیم کے صحابہ سرکار سے ضد کر رہے ہوں کہ کافروں کا بھی تو ایک درخت ہے جس پر برکت کے لیے وہ اپنی تلواریں لٹکاتے ہیں، ایک درخت ہمارا بھی تو مقرر کر دیجیئے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply