مبشر زیدی، اخلاق اور ایک بداخلاق

مبشر زیدی، اخلاق اور ایک بداخلاق
رضا شاہ جیلانی
کچھ عرصہ قبل میری ملاقات ایک باغ و بہار شخصیت سے ہوئی اس شخصیت نے کانفرنس اور اس میں شریک تمام ہی شرکاء کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔انکی شخصیت کے کئی پہلو کئی زاویے ہوں گے ،مگر ایک ایسا پہلو جس سے میں ہمیشہ ہی بے حد متاثر رہا وہ انکا اندازِ گفتگو ہے.مبشر زیدی کو میں اس وقت سے جانتا ہوں جب میں نے صحافت کے میدان میں عملی طور پر پہلا قدم رکھا تھا۔
پاکستان سے باہر سو لفظوں کی کہانیاں کئی افراد لکھتے رہے ہیں اور لکھ بھی رہے ہیں مگر جب ہم پاکستان کی بات کریں تو پاکستان میں مبشر زیدی سو لفظی کہانیوں کے مؤجد مانے جاتے ہیں۔
ایسا بالکل نہیں کہ یہ کہانیاں کوئی اور نہیں لکھ سکتا ،بلکہ کئی لوگ اس فن میں ماہر ہیں اور روز مّرہ کئی افراد کہانیاں لکھ بھی رہے ہیں.مگر ہمیں جو بات مبشر زیدی کے قلم میں ملتی ہے شاید وہ کم ہی لکھنے والوں کے ہاں پائی جاتی ہے۔
سماجی مسائل ہوں یا پھر معاشرتی نا انصافیوں کی ان کہی داستانیں، بلکہ معاشی تنگدستی کے ہاتھوں پنکھے سے لٹکی ہوئی داستانیں بھی ہم نے مبشر صاحب کے قلم سے نکلتے دیکھی ہیں۔سماج کے دکھ درد کی کیفیت کو جس خوبی کیساتھ سو لفظوں کی مالا میں پرو کر مبشر زیدی پیش کرتے ہیں اس کیفیت کو اسی احساس کی آخری منزل پر جا کر لکھنا ہر لکھنے والے کے لیے بھلا ممکن بھی کیسے ہو سکتا ہے۔
اس ہی طرح انکی شفقت ہر چھوٹے بڑے خاص و عام کے لیے ایک سی ہوتی ہے اور اسکی وجہ انکا بے انتہا پرخلوص ہونا بھی ہے۔زیدی صاحب کی اپنے احباب کیساتھ محبت کچھ ایسی ہے کہ اب یار دوستوں نے تو انہیں باقاعدہ پیار سے پیر صاحب بھی پکارنا شروع کر دیا ہے۔
مکالمہ کانفرنس کے دوران میں نے کافی دیر سو لفظی کہانیوں کے پیر صاحب کے ساتھ وقت گزارا اور ہر گزرتے پل کیساتھ میرے دل میں مبشر زیدی کے لیے حد درجہ احترام کا رشتہ اور مضبوط ہوتا گیا گو کہ یہ میری انکے ساتھ پہلی ایسی تفصیلی ملاقات تھی جو کہ انعام رانا اور منصور احمد مانی بھائی ( پی ایف سی سی کے بانی ) کے توسط سے ہوئی۔کانفرنس میں انٹرویو سیشن کے دوران ہمارے پیر صاحب خاص طور پر توجہ کا مرکز تھے ، اس لیے شرکاء نے ان سے کئی سوالات کیے اور ہر سوال کا جواب مبشر صاحب نے مسکراتے ہوئے دیا ۔کسی لمحے بھی انہوں نے یہ تاثر نہیں دیا کہ کوئی سوال انہیں برا لگا،یا اس سوال کا جواب وہ نہیں دینا چاہتے۔میں تو کیا وہاں موجود ہر شخص انکے اخلاق کا گرویدہ ہوا اور کیا خوب ہوا کہ ان کیساتھ ایک ہی شخص کئی کئی بار تصاویر بنوانے آتا اور وہ بھی مسکراتے ہوئے تصویر بنوا لیتے۔
اس بات سے سب ہی متفق ہوں گے کہ ہمارے مبشر بھائی المعروف پیر صاحب کی سو لفظی کہانی ہو یا پھر انکی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ..وہ تمام کے تمام پڑھنے والوں کے لیے انتہائی قابل احترام ہوتے ہیں وہ اپنے اسٹیٹس سے لیکر کمنٹس کرنے تک میں بے انتہا آپ جناب کے قائل ہیں ۔شاید نہیں بلکہ یہ ایک انتہا درجے کی تربیت کا نتیجہ ہوتا ہے کہ آپ کسی سے بے اتنا مخلص ہو کر بات کریں اور اپنے لہجے میں معاشرتی کڑواہٹ کو حد درجہ سہنے کے باوجود بھی زبان و بیاں کو اخلاقیات کے اعلیٰ طاق پر رکھیں۔میں دعوٰی تو نہیں کرتا مگر میں نے پیر صاحب کی کئی کئی کہانیاں پڑھ رکھی ہیں اور ان کہانیوں کو مستقل پڑھنے والے بھی خوب جانتے ہیں کہ مبشر صاحب بذریعہ کہانی اگر کسی سے مخاطب ہوں تو کوئی حیلہ بہانہ نہیں ڈھونڈتے سیدھے سے آدمی ہیں سیدھی طرح مخاطب ہو جاتے ہیں۔
مگر کچھ روز قبل انکی ایک سو لفظی کہانی کو لیکر جس طرح ایک اینکر صاحب نے شور مچایا وہ بھی بڑا تعجب خیز ہے۔ انکا شور تو چلیں ایک جگہ مگر اس شور کے ساتھ ہی اینکر موصوف نے ایک عدد اپنی کہانی بھی سنا ڈالی جو کہ ایک عجیب ہی تاثر دے گئی۔موصوف اپنی کہانی میں کہنا سمجھانا کیا چاہ رہے ہیں؟ عام فہم ادراک والے پاکستانی کی سمجھ سے بہت اوپر والی سی بات ہوگئی..اس میں کوئی شک نہیں کے پاکستانی میڈیا پچھلے کچھ عرصے میں کافی تیزی سے پھلا پھولا ہے اور اس کے پھلنے پھولنے میں میڈیا کے اندر کام کرنے والے کارکنان کا بہت بڑا ہاتھ ہے مگر اس میڈیا کو کچھ عدالتی امور کا بھی سامنا کرنا پڑا اور اس میں بھی کسی اور کا نہیں بلکہ میڈیا میں ہی کام کرنے والے کچھ انٹرٹینرز ٹائپ اینکرز کا ہی ہاتھ بلکہ پورا کا پورا جسم ملوث رہا۔اکثر اینکرز کی زبان و بیان انکی کم علمی کی وجہ سے کئی چینلز کے اچھے بھلے پروگرامز کو اچانک سے کئی کئی ماہ پیمرا کی جانب سے پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑا بلکہ کئی اینکرز سمیت میڈیا ہاؤسز کے مالکان کو بھی عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑ گئے۔
دوسری جانب اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستانی میڈیا نے صحافتی دنیا کو کئی مایہ ناز پروگرام اینکرز دیئے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کئی چینل مالکان تو اینکرز کو اپنے پاس مستقل رکھنے کے لیے ہر وقت جتن ہی کرتے رہتے ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ قابل آدمی کی ہر جگہ مانگ ہوتی ہے اور قابلیت صرف اخلاق کی مرہونِ منت ہے،پر یہ بھی درست ہے کہ کچھ ایسے اینکرز بھی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر ٹی وی بند کرنا ہی اچھا لگتا ہے۔
ہم پاکستانیوں کی حالتِ زار پر اللہ ہی مہربانی فرمائے ہم کئی مسائل کے بوجھ تلے ایسے دبے ہوئے ہیں کہ سانس لینا بھی بعض اوقات دشوار لگتا ہے اور ایسے میں کچھ لوگ شام ہوتے ہی ٹی وی پر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر کسی کو دانشوری یاد آتی ہے تو کوئی محبِ وطنی کا سرٹیفیکیٹ (attest) کرنے بیٹھ جاتا ہے کسی کو حکومت جاتی نظر آتی ہے تو کسی کو بوٹوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں..
مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے کہ جو کل تک اپنے سابقہ ادارے سے تنخواہ لیتے تھے اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے تھے آج وہ ہی اسی ادارے اور اسکے مالکان کو برا بھلا کہتے نہیں تھکتے.اور اس برے بھلے کی تمیز میں وہ سب کچھ ہی بھول بھال جاتے ہیں کہ انکے کاندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری بھی ہے اور وہ یہ کہ انہیں آنے والی نسل کی اخلاقی تربیت اپنے اخلاق اپنے قول و فعل سے کرنی ہے۔
ناجانے کیوں ہمارے لائق فائق محبِ وطن میڈیا میں کام کرنے والے حضرات کے منہ سے اکثر اوقات ایسے ہیرے موتی کیوں جھڑتے ہیں جو نوجوان نسل کی اخلاقی تربیت تو دور کی بات خود ان کے لیے جگ ہنسائی کا سبب بن جاتے ہیں۔
جس وقت وہ ادارے میں کام کر رہے ہوتے ہیں تو اس وقت اُس ادارے کے مالکان انہیں حاجی صاحب لگتے ہیں اور وہ ان حاجی صاحبان کی قدم بوسی سمیت ان سے دوستی اور الفت کا دم بھرنے کے قصیدے کسی نا کسی طور اپنے ہر پروگرام میں لے ہی آتے ہیں..یہ الگ بات ہے کہ پھر مینجمنٹ سے اَن بَن ہوتے ہی وہ ایسے آنکھیں پھیرتے ہیں کہ الامان الحفیظ بلکہ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ پاکستانی سیاستدان بھی انکے آگے کچھ نہیں۔
مگر افسوس ہوتا ہے کہ ریٹنگ کے اس چکر میں کچھ اینکرز اس حد تک جنونیت کا شکار ہو جاتے ہیں کہ انہیں سمجھ ہی نہیں آتا کے وہ بات کر رہے ہیں یا چِلا رہے ہیں.ایسے ہی ایک صاحب اینکر بھی ہیں تو ہوسٹ بھی ،پروفیسر بھی ،تو عالم بھی اور کبھی اچانک ڈاکٹر بھی بن جاتے ہیں اور ایک بار تو موصوف سیاستدان بھی بنے ،مگر خدا جانے انکی سیاست کو کس کی نظر لگی کہ ایک ہی رات میں انہوں نے سیاست سے توبہ کرلی اور دوبارہ سے دانشوری کی اپنی وہی پرانی والی دکان نئی مارکیٹ میں کھول کر ریٹنگ کی ریس میں شامل ہو گئے..
مگر حیرانی اس بات پر ہوتی ہے کہ موصوف ہمیشہ اپنے سابقہ ادارے کے لیے اسکرین پر بیٹھ کر لائیو ہیرے موتی بکھیرتے پائے جاتے ہیں.اسکی کیا وجہ ہے اور وہ ایسا کیوں کرتے ہیں یہ تو سمجھ سے بالا باتیں ہیں اور ظاہر ہے یہ کروڑوں کی ٹرانسمیشن والی باتیں غریب پاکستانی کی سمجھ میں ویسے بھی نہیں آ سکتیں.موصوف کا لب و لہجہ اس قدر ترش نمکین اور بعض اوقات انتہا کا جارحانہ ہوتا ہے کہ اسے دیکھنے کی تاب کم سے کم ہمیں تو ہوتی نہیں وہ اکثر اوقات مختلف شخصیات کے خلاف کافی کچھ چیختے چلاتے پائے جاتے ہیں اور پھر ذرا ہی دیر میں اپنے مؤقف میں تبدیلی یا پھر جمے جمائے مورچے سے چند قدم پیچھے ہٹنے میں بھی دیر نہیں لگاتے۔
یہ بات بھی ماننے والی ہے کہ ایک وقت تھا کہ موصوف کا ہونا کسی بھی ٹرانسمیشن کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا مگر رفتہ رفتہ انکے رویے میں جانے کیا ایسی تبدیلی آئی کہ اب لوگ ان سے کنی کترا جاتے ہیں.انکے علم، انکی معلومات سے ہمیں اختلاف نہیں مگر کہتے ہیں کہ انسان کی زبان ہی اسے دھوپ میں بٹھاتی ہے اور یہ ہی زبان انسان کو چھاؤں میں..
ہماری تو دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جلد صحت یاب کرے اور وہ بھی مبشر زیدی کی طرح پختہ اور کام کی کہانیاں لکھ سکیں اور یہ بھی دعا ہے کہ وہ اپنے رویے کو ہمارے پیر صاحب کے لئےنرم رکھیں تا کہ لوگ ان کے اخلاق اور پیار محبت کے گرویدہ ہوں نا کہ انکی چیخوں کے جو آجکل وہ اسکرین پر دکھا رہے ہیں….

Facebook Comments

رضاشاہ جیلانی
پیشہ وکالت، سماجی کارکن، مصنف، بلاگر، افسانہ و کالم نگار، 13 دسمبر...!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply