منی بدنام ہوئی زاہد تیرے لیئے ۔۔۔سید عارف مصطفیٰ

یہ بھی نہیں کہ مذاکرات نہیں ہوئے ، فیض آباد کے دھرنے والوں سے حکومت کی جانب سے کئی عاجزانہ ملاقاتیں بھی ہوچکی ہیں لیکن مقطع میں آ پڑنے والی سخن گسترانہ بات یہ ہے کہ وزیر قانون استعفیٰ دیں ۔۔۔ اور زاہد حامد جس ہستی کا نام ہے وہ تو شاید پیدا ہی وزارتوں کے لیئے ہوئی ہے ،، وہ کوئی معمولی سیاستدان بالکل نہیں، ورنہ مشرف دور کی وزارتوں کے مزے لوٹنے کے بعد اسکے کٹر دشمن کے مبینہ جمہوری دور میں بھی وزیر بن سکنا ہرگز کوئی معمولی کارنامہ نہیں ۔۔۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ چمار اور اختیار کی اکڑ نہیں جاتی ، اور بالآخر ایک کی سانس اور دوسرے کی دھانس پہ بن جاتی ہے تو یہی معاملہ یہاں بھی ہے۔۔۔ ایک طرف یہ عالی مقام وزیر یہ کہتا ہے کہ وزارت سے استعفیٰ کیوں دوں لیکن یہ بھی نہیں بتاتا کہ اسکی وزارت کے نیچے برپا کیے کھٹراک کا ذمہ دار وہ نہیں تو اور کون ہے ۔۔۔
دوسری طرف وہ حکومت کو ڈراتا ہے کے اسے ہٹانے سے اسکی اپنی ہوا اکھڑ سکتی ہے اوراسے حکومتی اعتراف جرم باور کرکے نون لیگ کے خلاف لعنت ملامت کی ہوائے ملک گیر بار دگر چل سکتی ہے ۔۔۔۔ اور تیسری طرف یہ چانکیہٴ دوراں یہ ظاہر کرتا ہے کہ میں تو استعفیٰ دینے کو پوری طرح تیار ہوں مگر خاقان اور خاقان اعظم نہیں مانتے۔۔۔ سنہ 2017کے اس چانکیہ کی چالاکیاں اپنی جگہ لیکن دنیا سب دیکھ رہی ہے کہ جڑواں شہروں کے بیچ کیا عالم ہے۔۔۔ حکومت کہاں ہے ؟؟ کم ازکم پنڈی اور دارلخلافہ کے سنگم اور فیض آباد کے اطراف تو دور دور تک ہرگز نہیں ہے کیونکہ وہاں جم کے بیٹھے ہزار پندرہ سو لوگوں نے تو اس بارے میں متعدد حکومتی حکم ناموں کو بھی پرزہ پرزہ کرڈالا ہے اور عدالتی فرمان کی بھی دھجیاں بکھیر دی ہیں اورقریباً تین ہفتوں سے ریاستی رٹ اور ملکی آئین و قانون کو چیلنج کیا ہوا ہے ۔ حکومتی طوطوں کا مگر اب بھی وہی عالم ہے کہ جو دھرنے کے پہلے دن تھا کہ مسلسل میٹنگوں کی چوری کھائے جاتے ہیں اور بہت جلد نپٹ لیں گے کی رٹ لگائے جاتے ہیں ۔۔۔ لیکن پنڈی اسلام آباد کے شہریوں کی زندگی کب کی اجیرن ہوچکی ، کیا تاجر اور کیا مزدور پیشہ دہاڑی دار ۔۔ بیشمار لوگ اپنے معاشی قتل عام پہ گلے میں روٹیاں لٹکائے ان دھرنا بازوں کےخلاف شدید احتجاج کرتے پھر رہے ہیں مگر محسن انسانیت کے نام پہ اکٹھ بنانے والے عملاً خود کو دشمن انسانیت ثابت کرنے کے سوا اور کچھ بھی ثابت نہیں کرپائے۔ حکومت مخالف سیاسی جماعتوں میں بیشتر نے اسے سیاست کرنے کا نادرموقع سمجھا ہے اور مذہبی جماعتوں میں سے بیشتر کے نزدیک ایسے موقع پہ منہ میں گھنگھنیاں ڈال کے بیٹھ رہنا باعث فضیلت ہے، رہے لبرل فاشسٹ اور جنونی سیکولر تو تین ہفتوں سے باربار بجا بجاکے انکی بغلیں پھٹنے کو ہیں کیونکہ انکی نظریں تو اس سارے ہنگام کے قائد خادم حسین رضوی پہ ہیں کہ جو گالیاں دینے کے وصف خاص کے باعث انکے گالی شریک بھائی کا درجہ رکھتے ہیں اور اس ہنر میں غیر معمولی صلاحیت کی وجہ سے ان کی جامعہ کا مقام پاچکے ہیں اوربلاشبہ رحمتہ اللعلمین کے مکارم اخلاق سے موصوف کا دور کا بھی تعلق واسطہ نظر نہیں آتا ۔۔۔
مگر انکے ہم مسلک سیاسی لوگوں میں سے کچھ کی نیت و نظر اس بحران میں سے اپنے لیئے پارلیمنٹ کی رکنیت کا چانس مل جانے پہ ہے سو اس آس کی لالچ کے شیرے نے انکے ہونٹوں اور آنکھوں کو چپکا رکھا ہے اور اس حوالے سے نہ انہیں کچھ دکھائی پڑتا ہے اور نہ ہی کچھ کہنے کی تاب ہے۔ البتہ چند ایسے ہیں کہ چلمن سے لگے بیٹھےہیں ۔۔ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں ۔۔ وہ انکے لیئے کیا رائے رکھتے ہیں اسے دوسرے کیا خاک سمجھیں گے کہ جب خود انہیں نہیں معلوم کہ وہ آخر اس بابت کہنا کیا چاہتے ہیں ۔ اور اب تو ان کے منصوبہ ساز انہیں امام مہدی ہونے کے دعوے داری کی سمت رواں دواں دیکھنے کی تدبیریں کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ عاشق رسولؐ ہونے کی دعویداری کے ساتھ خادم حسین رضوی جس قسم کے کردار کا مظاہرہ کررہے ہیں وہ تو باعث شرم ہے ہی لیکن یہ اپنے زاہد حامد بلائے بے درماں بنے اپنی وزارتی مسند سے چمٹے بیٹھے ہیں اور اڑیل ٹٹو بنے ہوئے ہیں تو انکی یہ ادا بھی اہل ظرف کے لیئے باعث ننگ و عار ہے ۔۔۔ لیکن اسکا کیا کیجیئے کہ پاکستان میں جو اشرافی کلچر فروغ پاچکا ہے اس میں کوئی بھی شے بھلے غیریقینی ہو لیکن ان جیسے ہی لوگوں کی بڑھوتری ہمیشہ یقینی رہتی ہے اور زاہد حامد کا سارا کیریئر ہی اس چھلانگتی پھلانگتی آسیبی ترقی کا مظہر ہے، واقعی زاہد حامد ایسے لوگ وہ ہوتے ہیں کہ دور کسی کا بھی کیوں نہ ہو ، انکی وزارت پکی ہوتی ہے کیونکہ کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ مشرف دور میں نواز شریف کے خلاف تمام مقدمے بازیوں اور غیرقانونی مشوروں کے مرکزی دماغ زاہد حامد کو نوز شریف آئندہ کبھی منہ بھی لگاسکتا ہے نہ کہ قانون جیسی اہم وزارت۔۔!! انہیں مشرف دور میں کبھی کبھی سائنس اور ٹیکنالوجی جیسی وزارت ملی تو کبھی قانون و پارلیمانی امور کا قلمدان ، موصوف اس سے قبل فوج میں بریگیڈیر کے منصب تک پہنچے تھے اور پھر سی ایس ایس کی سیڑھیوں سے گھوم کے وزارت خارجہ کے اہم عہدوں پہ تعیناتی میں کامران ہوئے تھے ۔ پھر انکا اس سے دل بھرا تو چوہدری شجاعت کی اقتداٗٗ میں سیاسی کیریئر کا شاندار آغاز کیا اور پھر نوبت آئی مشرف کی چوکھٹ پہ جبہ سائی اور نواز شریف سے نپٹنے کے تمام حربوں کو سکھانے کی ٹیوشننگ کی ۔۔ مگر مشرف کی رخصتی کے ساتھ ہی جمہوریت زندہ باد کے نعرے مارتے وہ جاتی امراٗ کی چوکھٹ پہ جاکھڑے ہوئے اور اب انکی ناک کا بال بن چکے ہیں ۔۔ اس مد میں چونکہ پہلے ہی سپریم کورٹ سوموٹو کیس کی سماعت شروع کرچکی ہے لہٰذا اگر وہ اس کو بامعنی بنانا چاہے تو حکومت کو زاہد حامد کو انکے بارے میں تحقیقات مکمل ہونے تک وزارت سے سبکدوش کرنے کا حکم دے بھی سکتی ہے ۔
یہ بھی ہے اگر زاہد حامد کو یہ لگے کہ ہم انکے برے میں یہ سب غلط اور اوٹ پٹانگ بک رہے ہیں تو انکے پاس ہمیں اپنی عظمت کردار کے ایک ہی نمونے سے لاجواب اور شرمسار کرنے کا بھرپورموقع موجود ہے ۔۔ وہ ہمت کریں ، آگے بڑھیں اوریہ کہتے ہوئے استعفیٰ دیدیں کہ میرے بارے میں کھلی تحقیقات کرائی جائیں او جب تک اسکے نتائج سامنے نہیں آتے ، عوام کے مصائب اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال کے پیش نظر میں استعفیٰ دے رہا ہوں ۔۔۔ لیکن امید ہے کہ اگر میں بے گناہ ثابت ہوا تو مجھے واپس اپنے منصب پہ لوٹنےسے کوئی نہ روکے گا۔۔۔ زاہد حامد اگرچاہیں تو اپنی ذات کے ایثار اور انا کی قربانی سے تین ہفتوں پہ مشتمل اس بے امنی کو لمحوں میں ختم کرسکتے ہیں اگرمبینہ طور پہ حکومت روک بھی رہی ہے تو روکتی رہے مگر حامد زاہد اگر چاہیں تو ازخود استعفیٰ دے کے اس خرابے کو منٹوں میں ختم کرسکتے ہیں اور یوں وہ اپنے لیئے ایک بڑی نیک نامی جو کبھی سے گمشدہ ہوچکی ہے کو پھر سے پاسکتے ہیں۔۔۔ ورنہ نون لیگ کی حکومتی “منی” تو ناحق ان کے لیئے بہت دنوں سے بدنام ہوئی تو بیٹھی ہی ہے ،مزید بدنام ہوئی تو جمہوریت اور اقتدار کی ہنڈ کلیا سمیت اغوا بھی کی جاسکتی ہے۔
Type a message…

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply