داعش کے خاتمے کی قیمت؟؟؟ڈاکٹر ندیم عباس

داعش ایک طوفان کی طرح شام اور عراق میں داخل ہوئی، ہزاروں ڈبل کیبن گاڑیوں پر سوار راکٹ لانچر تھامے لمبی داڑھیاں رکھے یہ لوگ دنوں میں موصل جیسے بڑے شہر پر قابض ہوگئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کے سامنے کوئی مزاحمت نہیں ہوئی اور یہ لوگ بغداد اور کربلا کے بھی نزدیک ترین پہنچ گئے۔ سامراء کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ وہ معجزانہ طور پر بچ گیا، ورنہ داعش وہاں داخل ہو جاتی۔ داعش عراق و شام کے لوگوں پر ایک عذاب بن کر آئی، جس نے ان کی زندگیوں کو تبدیل کر دیا۔ اس کی تباہ کاریاں اور فکری انحرافات کے خلاف ایک لمبی جنگ کی ضرورت رہے گی۔ اس جنگ کی قیمت پورے خطے نے ادا کی ہے۔ کل کا دن لگ رہا ہے کہ موصل میں سینکڑوں شیعہ کیڈٹس کو ذبح کر دیا جاتا ہے، جن کی لاشیں موصل پر عراقی افواج کے قبضے کے بعد ملی ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں موصل اور دیگر علاقے کے رہنے والے اہلسنت عوام اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ان پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد  کربلا اور نجف میں آتی ہے، جہاں انہیں پناہ دی جاتی ہے، دنیا بھر کا میڈیا اس جنگ کو فرقہ واریت کی جنگ قرار دینے پر تلا ہوا تھا، مگر ان کی یہ تمام کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں۔
شام خطے کا ایک خوشحال ملک تھا، جہاں تمام مذاہب و مسالک کے ماننے والے لوگ انتہائی آرام و سکون سے زندگی گزار رہے تھے۔ پچھلے چند سالوں میں  پانچ لاکھ کے قریب شامی جنگ کا لقمہ بن گئے، شام کی ایک بڑی آبادی شام چھوڑنے پر مجبور ہوگئی، اس وقت لبنان، اردن اور دنیا بھر کے ممالک میں بڑی تعداد میں شامی مہاجرین موجود ہیں، جو انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ دربدر کی ٹھوکریں کھاتے یہ مظلوم لوگ جہاں بھی گئے، وہاں پر کئی قسم کے مظالم کا شکا ہوئے۔ ترکی، لبنان اور اردن وغیرہ میں شامی خواتین کے ساتھ زیادتیوں کی بہت سی خبریں بین الاقوامی میڈیا پر آئی ہیں۔ دمشق سے لیکر حلب تک پورے شام کو کھنڈرات کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے۔ بین الاقوامی استعمار نے مقامی حکمرانوں سے ملکر  اپنے مفادات کے لئے پورے خطے کو آگ و خون میں نہلا دیا۔
شام اور عراق پر مسلط کردہ اس جنگ کے کئی پہلو  ہیں۔
اس جنگ نے ان دونوں ممالک کے معاشرتی نظام کو درہم برہم کر دیا ہے۔ ایک بڑی تعداد میں نوجوان جن کو یونیورسٹی جانا چاہیے تھا، جن کی کالج کی عمر تھی، وہ وطن کے دفاع کے لئے یا بے گھر ہو کر یا یونیورسٹی کالج تباہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سے دور چلے گئے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے جنگ کی تربیت حاصل کی ہے، جو کسی بھی معاشرے کے لئے ایٹم بم کی حیثیت رکھتی ہے، ان تمام جوانوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ ایسے مواقع پر میدان میں جیتی جنگیں باہمی خانہ جنگی کی وجہ سے ہار میں بدل جاتی ہیں، افغانستان اس کی بڑی مثال ہے، جہاں اتنی بڑی طاقت کو شکست دے دی گئی، مگر آج تک وہاں امن نہیں آسکا، ایک قابض قوت سے جان چھوٹی تو کئی میں پھنس گئی۔
یہ جنگ عراقی عوام کی بے پناہ قربانیوں اور عراقی مرجعیت کی دانش و حکمت سے جیتی گئی، ایران اور حزب اللہ کا کردار بھی بہت اہم رہا، جنہوں نے شام میں براہ راست اپنے جنگجو بھیجے اور یہ کہتے ہوئے باقاعدہ جنگ میں شمولیت اختیار کی کہ اگر ہم نے انہیں شام میں نہ روکا تو کل ہمیں بیروت کی گلیوں میں ان سے لڑنا پڑے گا، لہذا ہم ان کے بیروت آنے کا انتظار نہیں کریں گے، بلکہ ان کے مورچوں پر جا کر ان کے خلاف لڑیں گے۔ ایران نے عراق اور شام دونوں جگہ داعش کے ناسور کے خلاف جنگ میں قائدانہ کردار ادا کیا، روس نے شام میں داعش کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ دنیا بھر کی جہادی قوتوں کو جمع کرکے ہنستے بستے ممالک کو تباہ کر دیا گیا، مگر ان ممالک کی عوام کے عزم مصمم نے ان تمام قوتوں اور ان کے منصوبوں کو ناکام کیا۔
جنگ قربانی مانگی ہے، جنگ تباہی لیکر آتی ہے، جنگ ایک خوفناک حقیقت کا نام ہے، جنگ شہروں کو تباہ کر دیتی ہے، جنگ آبادیوں کو ویران کر دیتی ہے، جنگ نفرتوں کے بیج بوتی ہے، جنگ وحشت کے اثرات چھوڑ جاتی ہے، جنگ موت کا نام ہے۔ یہ تمام اثرات آج اس پورے خطے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ بغداد سے حلب تک قبرستان آباد ہیں اور شہر ویران ہیں۔ اس عہد کے مسلمانوں کی سادگی پر آنے والے مسلمان نوحہ کناں ہوں گے کہ کس طرح دشمن تماشہ دیکھتا رہا اور ہم باہم دست و گریبان ہوگئے۔ وہ قوت، وہ طاقت جو انسانیت کے دشمنوں، ظلم ڈھانے والوں اور ستمگروں کے خلاف استعمال ہونی چاہیے تھی، وہ طاقت ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوئی۔
داعش اب عملی طور پر ایک غیر مؤثر تنظیم ہے، اس کا ڈھانچہ تباہ کر دیا گیا ہے، اس سے تمام علاقے چھین لئے گئے ہیں، اس کی قیادت یا مار دی گئی ہے یا روپوش ہوگئی ہے، ان کا کمانڈ اینڈ کنٹرول کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے۔ چند صحرائی علاقوں کے علاوہ اب اس کے لئے کوئی پناہ گاہ نہیں ہے۔ اب شام اور عراق کی حکومتوں کو حساب لگانا ہے کہ اس جنگ میں کیا کھویا اور کیا پایا۔؟ یقیناً ان دونوں حکومتوں اور ان کے اتحادیوں کی ایک بڑی کامیابی ہے، مگر اس کی کیا قیمت ادا کی گئی۔؟ شہر تباہ ہوگئے، جوان شہید ہوگئے، ذرائع آمد و رفت بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے۔ سب سے اہم بات قوم کے کئی سال جنگ کی نظر ہوگئے۔ اب اسی جنگی جذبے کے ساتھ اس پورے ڈھانچے کو دوبارہ تعمیر کرنا ہے، شہروں کو دوبارہ بسانا ہے، پلوں، سڑکوں، ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کو دوبارہ تعمیر کرنا ہے، تاکہ لوگ پہلے سے بہتر زندگی گزاریں اور اپنی آنکھیں اور دماغ دونوں کو کھلا رکھنا ہے، تاکہ کوئی ایسی چال دوبارہ نہ چلی جائے، جس کہ بھاری قیمت ادا کرنی پڑے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply