ٹورسٹس ٹریپس۔۔میاں ضیا الحق

سیاحوں کو دھوکہ فریب یا لالچ دے کر لوٹنے کا پیشہ بہت قدیم ہے۔ وطن عزیز کے بڑے شہروں میں خاص کر پارکس بس سٹینڈ یا ریلوے سٹیشن کے گرد اس طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ مداری شعبدہ باز اور اس طرح کے مجمع لگانے والے جیب کتروں کی  مدد سے لوٹتے ہیں۔

سیاحت میں بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ مسافر مقامی بندہ نہیں ہوتا جو زیادہ دیر رک سکے اور تھانہ کچہری کیسز وغیرہ کے چکر میں پڑے اس لئے سیاح ہمیشہ آسان شکار ہوتے ہیں۔
بطور سیاح میں جہاں بھی گیا جانے سے پہلے اس علاقے میں ہونے والے واقعات اور سیاحوں کو جال میں پھنسانے والی تمام دستیاب معلومات کو ضرور دیکھ لیتا ہوں کہ دیار غیر میں پیسے چھن جائیں یا پاسپورٹ نکال لیا جائے تو واپسی بہت مشکل ہوجاتی ہے اور ٹور الگ سے برباد ہوتا ہے۔
اس بروقت احتیاط کی وجہ سے میں نے شاید ہی کبھی نقصان اٹھایا ہو لیکن پھر بھی کہیں نا کہیں وہ داؤ  لگا ہی جاتے ہیں۔
یوٹیوب پر اگر آپ شہر کا نام اور ٹورسٹ ٹریپس لکھیں گے تو بہت سی ویڈیوز نظر آجائیں گی جن سے مدد لی جاسکتی ہے۔
اس وقت دنیا میں سب سے بڑا ٹورسٹ ٹریپ ٹیکسی ہے۔
اگر میٹر والی ٹیکسی ہے تو یہ روٹ لمبا کردیں گے اور ایسے ظاہر کریں گے جیسے شاید آج ہی ٹیکسی چلانی شروع کی ہے۔ باتوں میں لگا کر جان بوجھ کر ٹریفک میں کھڑے رہیں گے تاکہ میٹر چالو رہے۔
اگر میٹر والی نہیں ہے تو پھر یہ آپ کو کہیں بھی لے جا کر لوٹ سکتے ہیں یا طے شدہ رقم سے زیادہ کا تقاضا کرکے جھگڑا شروع کر دیں گے۔ کئی واقعات میں بقایا رقم میں جعلی نوٹ دے دیں گے۔ اس لئے پورا پورا کرایہ ہاتھ میں رکھیں۔ ہر ٹیکسی والا ایسا نہیں ہوتا لیکن احتیاط لازم ہے۔
اس سے بچنے کے لئے آپ اس میزبان ملک کی سم خرید کر کال اور ڈیٹا پیکیج خرید لیں۔ جہاں جانا ہے وہاں کی لوکیشن لگائیں اور دوران سفر ساتھ ساتھ ٹریس کریں کہ ٹیکسی مجوزہ روٹ سے ہی جارہی ہے یا نہیں۔ فاصلے کے حساب سے آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہاں جانے کے کتنے ڈالرز یوروز یا درہم بنتے ہیں تاکہ اوور چارجنگ سے بچ سکیں۔
اوبر اور کاریم ہر ملک میں دستیاب ہیں ان ایپس کا استعمال کریں تاکہ ٹیکسی اور اس کے ڈرائیور کو بعد میں بھی مانیٹر کیا جاسکے۔ جہاں یہ ایپس نہیں ہیں وہاں گورنمنٹ کی سروس استعمال کریں جو ٹیکسی بس یا ٹرین ہوسکتی ہے۔
گوگل میپس اور گوگل سرچ دنیا کے تقریباً تمام ٹورسٹ شہروں کی لائیو ٹریفک روٹس فاصلہ دستیاب ٹرانسپورٹ اور وقت بتاتا ہے کہ اس جگہ سے وہاں جانے کے لئے آپ کو فلاں سٹاپ تک پیدل جانا ہوگا پھر اس نمبر کی بس دس بج کر بائیس منٹ پر آئے گی جو آپ کو اس چوک میں اتارے گی پھر آپ یہاں سے یہ نمبر بس پکڑیں اور گیارہ بجے منزل مقصود پر پہنچ جائیں۔
گوگل میپس آمد و رفت کا تقریباً درست وقت بتاتا ہے اور اس کا درست استعمال ٹیکسی سے آپ کی جان چھڑا سکتا ہے جو پبلک ٹرانسپورٹ سے مہنگی ہوتی ہے۔
اٹلی میں ایسا ہوا تھا کہ پرائیویٹ ٹیکسی والے نے درست راستہ لینے کی بجائے لمبا راستہ جو تقریباً مخالف سمت جارہا تھا لیا لیکن فوراً ہی اس کو بتایا کہ یوٹرن کرو اور درست راستے سے جاؤ۔
اس سے پہلے کہ ٹیکسی والا آپ کو باتوں میں لگائے اور کچھ پلان کرے آپ اس کو باتوں میں لگائیں اس سے شہر کے بارے میں پوچھیں اچھے مقامات اور واقعات دریافت کریں۔ اس کو ظاہر کریں کہ آپ یہاں نئے نہیں ہیں۔
ٹیکسی والے آپ کو ان مقامات یا ٹورسٹ لوکیشن پر لے جانے کی کوشش کرتے ہیں جہاں ان کا کمیشن ہوتا ہے اور دوسرے ٹور ایجنٹس کے حوالے کردیں گے۔ مصر میں ٹیکسی والا اہرام مصر کے مرکزی دروازے پر لے جانے کی بجائے ایک ٹور ایجنٹ کے پاس لے گیا جو انتہائی مہنگا ٹور پیکیج دے رہا تھا۔ ادھر سے ہی گوگل کرکے انٹری پوائنٹ ڈھونڈا اور اس سے چار گنا کم خرچ کرکے خود ہی فرعون سے ملاقات کرکے حالات و واقعات دریافت کئے۔
اجنبی افراد سے ملیں ضرور لیکن ان کے ساتھ کبھی کہیں نہ  جائیں یا دعوت قبول کریں کہ وہ اچھے اخلاق اور مدد کا کہہ کر لوٹ سکتے ہیں۔
مصر میں ہی ایک خوش لباس مصری نے خود کو میوزیم کا ڈائریکٹر متعارف کروایا اور ساتھ ہی بنے اپنے چھوٹے سے دفتر میں لے گیا اور چائنا کی بنی پرنٹڈ پینٹنگز کو اپنی خود کی بنائی ہوئی پینٹنگز کہہ کر سب پر میرا نام لکھ دیا کہ یہ تمہارے لئے گفٹ ہے ۔ قیمت تو ایک ہزار ڈالر بنتی ہے تم 3 سو دے دو تاکہ اس فلاحی کام کو جاری رکھ سکوں۔ منع کرنے کے باوجود جب نام لکھے جا چکے تھے تو انکار کرنا بھی ممکن نہ  تھا۔
جب آس پاس کھڑے دو بدمعاش نما افراد کھڑے دیکھے تو اسے کہا کہ بھائی میں غریب بندہ ہوں پچاس ڈالر دے کر جان چھڑائی۔ پینٹنگ اچھی تھیں لیکن بیس ڈالر سے زیادہ معلوم نہیں ہوتی تھیں۔ قہوہ اچھا تھا لیکن پینا نہیں چاہئے تھا کہ اس میں کچھ بھی ہوسکتا تھا۔
سری لنکا میں ٹک ٹک والا بارہا کوشش کرتا رہا کہ ہم اس کی منتخب کردہ دکان سے شاپنگ کریں۔ ہم چائے کی خریداری کرنا چاہتے تھے لیکن وہ مرکزی مارکیٹ کی بجائے ایک ایسی دکان پر لے گیا جو اس علاقے میں ایک ہی تھی اور صرف ان گاہکوں کو چائے بیچ رہی تھی جو رکشے والے یا ٹیکسی والے لارہے تھے۔ آتے ہی ہمیں چائے پیش کی گئی لیکن خوبصورت پیکنگ میں مہنگی چائے ہم نے پی تو لی لیکن زیادہ نہیں خریدی اور بطور نشانی آدھا کلو کا پیکٹ لیا ورنہ ارادہ تو پانچ دس کلو لینے کا تھا۔
ایک قابل ذکر ٹریپ رینٹ اے کار کا ہے۔ بعض ٹورسٹ حضرات انٹرنیشنل ڈرائیونگ لائسنس ہوتے ہوئے بس ٹرین پر سفر کرنا معیوب سمجھتے ہیں اور اس ٹریپ کا شکار ہوتے ہیں۔ دبئی سمیت ہر ٹورسٹ شہر میں چپے چپے پر رینٹ اے کار کھلی ہیں جو سستی ترین آفرز کے ساتھ یہ بتاتی ہیں کہ بس کی بجائے کار استعمال کرو۔ 24 گھنٹے کے 30 درہم یا 30 ڈالرز۔
ان کا ٹریپ طریقہ کار منفرد ہے۔ یہ کریڈٹ کارڈ سے 2 سے 3 ہزار درہم یا 500 ڈالرز کاٹ لیتے ہیں کہ یہ سکیورٹی ڈپازٹ ہے اور کار کی واپسی پر ریٹ کے پیسے کاٹ کر باقی ریٹرن کر دیں گے۔
کار کی واپسی پر یہ پہلے سے موجود نشانات یا سکریچز کا بہانہ بنا کر پیسے کاٹ لیتے ہیں یا پھر آپ سے کہیں گے کہ آپ جائیں آپ کے بقایا پیسے آپ کے کارڈ میں چند دن تک آجائیں گے جو بار بار رابطہ کرنے پر بھی نہیں آتے یا مہینوں بعد آتے ہیں۔ اچھی اور قابل بھروسہ رینٹ اے کار کمپنیاں بھی سکیورٹی رکھتی ہیں لیکن وہ معمولی ہوتی ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں پیسے واپس کر دیتی ہیں جبکہ فراڈ کمپنیاں ٹورسٹ کو بہت خوار کرتی ہیں اور ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
اگر خدانخواستہ آپ سے ایکسیڈنٹ ہوگیا تو پھر یہ آپ سے لمبی رقم وصول کریں گے مختلف بہانے بنا کر۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر آپ نے واقعی ہی کار کرائے پر لینی ہے تو سب سے پہلے اس شہر میں پارکنگ کی سہولیات، پارکنگ چارجز، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانے کی لسٹ اور سب سے اہم اچھی اور قابل بھروسہ رینٹ اے کار کا انتخاب کریں۔ آن لائن ریویوز سب کچھ بتا دیتے ہیں ان کو پڑھیں اور کوشش کریں کہ اس کمپنی کا انتخاب کریں جو آپ کے اپنے ملک میں بھی سروس دے رہی ہو تاکہ بعد میں ہونے والی مشکل سے مقامی طور پر بھی نمٹا جاسکے۔
میں نے جوہانسبرگ میں Avis کمپنی کی کار رینٹ پر لی تھی جو ایک بین الاقوامی کمپنی ہے اور 3 دن چلانے کے بعد واپس کی تو بغیر کسی حیل و زحمت واپس لے لی گئی۔ ایڈوانس کاٹی گئی رقم بھی 7 دن کے اندر واپس مل گئی تھی۔ اس کے بعد کسی ٹور میں انٹرنیشنل ڈرائیونگ لائسنس ہونے کے باوجود کار کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ بس اور ٹرین جیسی عوامی سواری میں جو مزہ ہے وہ الگ ہی ہے۔
ریسٹورنٹس عموماً بہتر رویہ رکھتے ہیں لیکن بہتر یہ ہے کہ غیر ملک میں جا کر اپنی دیسی خوراک ڈھونڈنے کی بجائے مقامی کھانے ٹرائی کریں جو نسبتاً سستے تازہ اور ہر جگہ موجود ملیں گے۔ دیسی کھانے مہنگے ملتے ہیں کہ خریدار کم ہوتے ہیں۔ یورپ ٹور میں زیادہ تر سپر مارکیٹ سے ملنے والے ریڈی میڈ سینڈوچز کھائے یا پھر کے ایف سی یا میکڈونلڈز جن کے ریٹس مقرر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی پھل فروٹ بھی کھایا جاسکتا ہے۔ یورپ میں چیری سیب اورنج وافر ہوتا ہے جبکہ سری لنکا میں ناریل، کیلا، سٹار فروٹ، شریفہ اور لیچی عام دستیاب ہے۔
ظاہری طور پر خوبصورت اور مہنگے ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کی بجائے چھوٹے اور سادہ ریسٹورنٹ میں کھانا کھائیں تو پیسے کی بھی بچت ہوگی اور تازہ کھانا بھی ملے گا۔
تھائی لینڈ کا ایک مشہور ٹورسٹ ٹریپ واٹر سکوٹر ہے جو آپ ایک گھنٹے کے لئے کرائے پر لیتے ہیں اور وہ بیچ سمندر جاکر خراب ہوجاتا ہے۔ یہ آپ کو واپس ساحل پر لائیں گے اور سکوٹر کی مینٹیننس کا بھاری بل ادا کرنے کا کہیں گے جو ہزاروں ڈالرز تک جاتا ہے۔
مزاحمت کرنے والے افراد کے لئے فوری طور پر پولیس بلوائی جاتی ہے جو وصول کئے گئے پیسوں میں سے اپنا حصہ لے کر چلتی  بنتی ہے۔
جہاں تک ممکن ہو اپنے ٹورز کو سادہ رکھیں، شاپنگ کم کریں اور ہر کام سوچ سمجھ کر غیر جذباتی ہوکر کریں تو سیاحت مزے کا کام ہے۔
کچھ ٹریپس الفاظ کی پکڑ میں نہیں لائے جاسکتے اس لئے تصویری شکل میں واضح کیے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply