سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے خلاف سندھ اسمبلی کے سامنے جماعت اسلامی کے دھرنے کے 26 دن مکمل ہوچکے ۔ دھرنے کے آغاز سے احباب کی طرف سے ملی جلی آراء دیکھنے کو مل رہی ہیں ، کوئی مصر ہے کہ دھرنے کے دباؤ کے نتیجے میں سندھ حکومت کو پسپائی اختیار کرکے بل واپس لینا ہوگا جبکہ کچھ بضد ہیں کہ پیپلز پارٹی اسے اپنا تھوکا چاٹنے کے مترادف سمجھے گی اور چاہے دھرنا کتنا ہی طول کیوں نہ پکڑے ، اس بل کو کسی طور واپس نہیں لیا جائے گا اور یوں وہ سندھ حکومت کی ہٹ دھرمی کو استقلال سے تعبیر کرتے ہوئے گویا ہوتے ہیں کہ جماعت اسلامی کو منہ کی کھانی پڑے گی لیکن اگر غیر جانبدارانہ نظر دوڑائی جائے تو یہ کہنا محال نہیں کہ موجودہ تنازع جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کا ہر گز نہیں بلکہ یہ تنازع پیپلز پارٹی اور کراچی کے شہریوں کے مابین ہے۔
جماعت اسلامی کے مطالبے کے مطابق اگر 2001 یا 1972 کے بلدیاتی قانون کے مطابق مئیر کراچی کو اختیارات مل پائیں گے تو اس سے کراچی کے مکینوں کے ایک اچھے مستقبل کا امکان پیدا ہوگا جبکہ اختیارات حاصل نہ ہوسکنے کی صورت میں درپیش مسائل کراچی کے رہائشیوں کو ہی بھگتنے ہوں گے۔
اس لیے اس غلط فہمی سے نکل آنا چاہیے کہ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی دست و گریباں ہے ، ہاں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جماعت اسلامی کراچی کی آواز بن کر پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے سامنے سینہ سپر ہے۔ اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ دھرنے کے محاذ پر جماعت اسلامی کی ہار یا جیت کا انحصار بل کے نفاذ یا معطلی پر ہر گز بھی نہیں ، جماعت اسلامی بہر طور یہ محاذ جیت چکی ہے کہ اس نے بل پیش ہوتے ہی اپنی بیداری کا ثبوت دیا ہے ، اسمبلی اور عوام الناس میں جماعت اسلامی نے اسے رد کرتے ہوئے کالے قانون سے منسوب کیا ہے جبکہ عدالت میں اس کی منسوخی کی قانونی جنگ لڑنے کے لیے کھڑی ہوگئی ہے ، یہ جماعت اسلامی کی کامیابی نہیں تو اور کیا ہے کہ اس نے نہ صرف کراچی میں اپنے کارکنان کو منظم کیا بلکہ اپنے احتجاج کو پھیلایا ہے اور ملکی اور عالمی سطح پر اس بل کے خلاف اور کراچی کو حق دلوانے کے لیے ایک مزاحمتی تحریک پیدا کی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں