کینسر (94) ۔ اگلے چیلنج/وہاراامباکر

کینسر کے تیرہ پہاڑوں کی دریافت یا تو بہت اچھی خبر ہے یا بہت بری۔ اگر آپ یاسیت پسند ہیں تو گیارہ سے پندرہ مرکزی پاتھ وے کی دریافت کینسر کے علاج کے محققین کے لئے بڑا چیلنج ہے۔ کیا اونکولوجسٹس کو اس کا علاج کرنے کے لئے تیرہ الگ ادویات کی ضرورت پڑی گی تا کہ اس کو نارمل کی طرف واپس لایا جا سکے؟ اور یہ جس قدر طرح روپ ڈھالنے والی بیماری ہے، جب ایک خلیہ ایک کمبی نیشن کے خلاف مزاحمت حاصل کر لے، تو پھر کیا نئی تیرہ ادویات کی ضرورت پڑے گی؟

Advertisements
julia rana solicitors

جبکہ دوسری طرف رجائیت پسند کہے گا کہ تیرہ زیادہ بڑا عدد نہیں۔ اس پر سکھ کا سانس لیا جا سکتا ہے۔ جب تک ووگلسٹائن نے ان کلیدی پاتھ وے کی شناخت نہیں کی تھی، اس وقت تک یہ لامتناہی لگتے تھے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ان جین اور پاتھ وے کی ہائیرارکی کی صورت میں تنظیم یہ اشارہ دیتی ہے کہ اس سے گہری تنظیم بھی موجود ہو سکتی ہے۔ شاید، چھاتی اور تلی جیسے پیچیدہ کینسرز میں بھی ان تمام تیرہ الگ پاتھ وے پر الگ الگ حملہ نہ کرنا پڑے۔ اور ٹھیک حملہ اس قدیم موذی کو طویل عرصے کے لئے پیچھے دھکیل دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک کے بعد اگلی جین اور ایک کے بعد اگلے پاتھ وے کے بعد ہمارے پاس کینسر کی بائیولوجی کے بارے میں غیرمعمولی نظارہ موجود ہے۔ میوٹیشن کے کئی نقشے (پہاڑیاں، وادیاں اور پہاڑوں سمیت) مکمل کئے جا چکے ہیں۔ کئی کور پاتھ وے مکمل طور پر سمجھے جا س کتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ ایک قدیم محاورہ ہے کہ پہاڑوں کے آگے مزید پہاڑ ہیں۔ میوٹیشن کی شناخت ہو جانے کے بعد، میوٹنٹ جین کا خلیاتی فزیولوجی میں فنکشن ڈھونڈا جانا ہے۔ اور یہ علم کے سائیکل کو ایک اور نیا چکر ہو گا۔ اناٹومی سے فزیولوجی سے تھراپی تک۔ کینسر جینوم سیکونسنگ کا پراجیکٹ اناٹومی کا ہے۔ اور جس طرح ورچو نے انیسویں صدی میں ویسالیس کی اناٹومی کے علم سے لیس ہو کر کینسر کی فزیولوجی کی طرف جست لگائی تھی، ویسے ہی مالیکیولر اناٹومی سے مالیکیولر فزیولوجی کی طرف سے لگائی جائے گی۔ یہ پراجیکٹ ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ میوٹنٹ جین “کونسی” ہیں۔ اگلا بڑا چیلنج یہ جاننا ہے کہ میوٹنٹ جین “کرتے کیا ہیں”۔
اور فنکشن بائیولوجی کی طرف ہونے والا یہ سفر کینسر میڈیسن میں تین راستے کھول سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلا کینسر تھراپی کی سمت ہے۔ ایک بار کسی کیسنر میں کلیدی ڈرائیور میوٹیشن کی شناخت ہو جائے تو ہمیں اس کے مطابق خاص حدف والی تھراپی کی تلاش کرنی ہو گی۔ اور یہ ناممکن نہیں۔ ایسے چند ایجنٹ پہلے ہی کلینک میں داخل ہو چکے ہیں۔ ابھی ان سے ملنے والے ریسپانس کا ریٹ بہت اچھا نہیں۔ چیلنج ٹھیک کمبی نیشن ڈھونڈنے کا ہے تا کہ نارمل خلیات کو متاثر کئے بغیر کینسر کا خاتمہ کیا جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔
ڈی این اے دریافت کرنے والے جیمز واٹسن نے 1969 میں امریکی کانگریس کے سامنے “کینسر کے خلاف جنگ” پر اپنی رائے دیتے ہوئے بڑے سخت الفاظ استعمال کئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مضحکہ خیز امید ہے اور اپنے وقت سے بہت پہلے کیا جانے والا پراجیکٹ ہے۔ اس کے چالیس سال بعد 2009 میں اپنی رائے دیتے وقت وہ اپنا خیال تبدیل کر چکے تھے۔ ان کے الفاظ میں، “ہم جلد ہی کینسرز کے بارے میں جینیاتی تبدیلیوں کو جان لیں گے۔ ہمیں پہلے سے ہی علم ہے کہ ان کے اہم پاتھ وے کونسے ہیں۔ وہ سگنل کیا ہیں جو خلیات میں حرکت کرتے ہیں۔ ایسی ادویات ہیں جن پر کلینکل ٹیسٹ کئے جا رہے ہیں۔ ہرسپٹین اور ٹارسیوا جیسی ادویات کو منظوری مل چکی ہے اور عام استعمال کی جا رہی ہیں”۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply