• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • فرانسیسی سفیر کا معاملہ اسمبلی میں پیش لیکن؟.. طاہر یاسین طاہر

فرانسیسی سفیر کا معاملہ اسمبلی میں پیش لیکن؟.. طاہر یاسین طاہر

کام اس سے آ پڑا ہے کہ جس کا جہان میں
لیوے نہ کوئی نام ستم گر کہے بغیر
غالب نے اپنی مشہور غزل میں یہ شعر نہ تو چارلی ایبڈو کے ایڈیٹر کے لیے کہا تھا، نہ ہی فرانسیسی صدر، سفیر یا گستاخ کارٹونسٹ کے لیے کہا تھا، اس شعر کا ہدف پاکستان کا حکمران طبقہ یعنی اہل ِ حل و عقد بھی نہ تھے، یہ شعر معمول کا ایک غزلیہ شعر ہے،مگر مجھے اس شعر کا اطلاق آسٹریا، ہالینڈ اور فرانس سے لے کر پاکستان کے حکمران طبقے تک، سب پر یکساں ہوتا نظر آ رہا ہے۔صرف حکمران و اہلِ حل و عقد نہیں بلکہ مذہبی طبقات بھی اسی شعر کی تشریح کا جزوِ لازم ہیں۔
یہ بات بڑی واضح اور دوٹوک ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذاتِ والا صفات کا تمسخر اڑانے یا سرکارِ دو عالمﷺ کی نعوذ باللہ توہین کرنے والا مرتد اور لعنتی ہے اور اس کے لیے سزا متعین ہے۔مگر دنیا کے ہر کونے میں نہ تو اسلامی حدودو لاگو ہوتی ہیں نہ ہی پاکستان کا قانون لاگو ہوتا ہے ،پاکستان کا قانون تو قبائلی علاقہ جات میں بھی اپنی حیثیت کھو دیتا ہے۔ وہ جسے علاقہ غیر کہا جاتا ہے جہاں ریاستی رٹ جرگوں ، مَلکوں اور خانوں کے ذریعے بلکہ انھیں تاوان ادا کر کے قائم کی جاتی ہے۔ پھر بھلا، ہالینڈ،آسٹریا یا فرانس اورڈنمارک سے پاکستان کیسے اپنے تعلقات یکسرختم کر لے؟اس کے لیے کسی پالیسی اور کسی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔یہ بات واضح ہے کہ پاکستان اپنے معاشی و سیاسی قد کاٹھ میں اس قابل ہی نہیں کہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کر دے۔
کیا آپ کو علم ہے کہ فرانس سلامتی کونسل کے مستقل پانچ ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے؟حکومت و اپوزیشن کے سب لوگ نبی اکرم ﷺ کی ناموس پر جان نچھاور کرتے ہیں،مگر میری دانست میں جذبایت سے معاملہ سنبھلنے کے بجائے بگڑتا ہے۔تحریک لبیک پاکستان جسے حکومت نے کالعدم قرار دے کر پھر اس سے مذاکرات شروع کیےہیں،ان کے اخلاص اور نیک نیتی پر کسی مسلمان کو شک نہیں۔لیکن یہ امر بھی واضح ہے کہ ان کا طرزِ عمل نبوی تعلیمات ِ کے بالکل مختلف نظر آیا۔مجھ جیسا کم فہم مسلمان بھی یہ جانتا ہے کہ راستے روکنا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔

میرے لیے یہ بات تکلیف دہ ہے کہ ہم 57 اسلامی ممالک میں درجن بھر بھی ایسے اسکالر پیدا نہیں کر سکے جو یورپ ،امریکہ اور دیگر ملحدین کو اس امر پر قائل کر سکیں کہ آزادی اظہار رائے کے نام پر نبی اکرم ﷺ کی گستاخی سے مسلمانوں کے دل دکھی ہوتے ہیں۔کوئی دو چار اسکالر جو دنیا کو مقام ِ پیغمبر ِ آخر الزمانﷺ کی حقیقت سے آشنا کرا سکیں۔جو اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور دیگر عالمی فورمز پر اسلام کی علمی و عقلی نمائندگی کر سکیں۔ہم سب نے مگر فرقہ پرست پیدا کیے ہیں۔ جو اسلام کے بجائے اپنے اپنے فرقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ حیف صد حیف۔
موجودہ حکومت نے بھی اس حوالے سے انتہائی کج فہمی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔حکومت کو تو معاہدہ کرنا ہی نہیں چاہیے تھا،اگر کر لیا تھا تو پھر اس پر عمل بھی کیا جاتا۔ قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کی جاتی۔جو کام اتنے بندے مروا کر ،تماشا بنا کر کیا جا رہا ہے یہی کام پہلے کر لیا جاتا؟ مگر وہی بات جو کالم کے شروع میں شعر کی شکل میں رقم کی ہے۔
اس امر میں کلام نہیں کہ بیشتر لوگ چارلی ایبڈو کے بارے میں دو چار جملے بھی نہ جانتے ہوں گے۔ بی بی سی اردو کے مطابق” ” چارلی ایبڈو ایک ہفتہ وار رسوائے زمانہ فرانسیسی جریدہ ہے جس میں طنزیہ انداز میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کی جاتی ہے۔ کیتھولک، یہودیت اور اسلام کے بعض پہلوؤں کا تمسخر اڑانے کی وجہ سے یہ میگزین کافی عرصے سے تنازعات کو ہوا دیتا رہا ہے۔”اس میگزین نے 2015 میں بھی پیغمبر ِ اکرمﷺ کی شان میں پہلی بار گستا خانہ خاکوں کی اشاعت کی تھی،جس کے بعد پورے عالم ِ اسلام میں اس گستاخانہ عمل کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا تھا،جبکہ دیگر مذاہب کے ماننے والے عدل پسند افراد نے بھی میگزین کے اس عمل کی مذمت کی تھی۔

فرانسیسی جریدے چارلی ایبڈو نے پیغمبر اسلام ﷺکے وہ خاکے ستمبر 2020 میں پھر سے شائع کیےتھے جن کی بنا پر 2015 میں اس پر حملہ ہوا تھا۔چارلی ایبڈو پر یہ حملہ 7 جنوری 2015 کو کیا گیا تھا۔ جنوری 2015 کی سات تاریخ کو دو بھائیوں سعد اور شریف کواچی یا کوچی نے چارلی ایبڈو کے دفتر میں گھس کر فائرنگ کر دی تھی جس میں اس اخبار کے ایڈیٹر سٹیفن شربونیئر، چار کارٹونسٹ، دو کالم نگار، ایک کاپی ایڈیٹر اور ایک مہمان جو اس وقت وہاں موجود تھا، ہلاک ہو گئے تھے۔ اس ایڈیٹر کا محافظ اور ایک پولیس والا بھی فائرنگ کے دوران مارےگئے تھے۔پولیس نے جب حملہ آوروں کی تلاش شروع کی جو کہ آخر کار مارے گئے، تو پیرس شہر کے مشرقی حصے میں ایک اور واقعہ پیش آیا۔ ایمدی کولابلی جسے احمدی بھی لکھا جاتا جو کواچی برادران کا ایک ساتھی تھا، نے ایک پولیس خاتون اہلکار کو ہلاک کر کے کئی لوگوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ اس نے 9 جنوری 2015کو یہودیوں کی ایک سپر مارکیٹ میں چار یہودیوں کو قتل کر دیا اور خود پولیس سے فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہو گیاتھا۔ایک ویڈیو ریکارڈنگ میں احمدی نے کہا تھا کہ اس نے یہ حملہ دولت اسلامیہ کے نام پر کیا ہے۔

اس واقعہ کے دو چار روز بعد فرانس میں دہشت گردی کے متعدد واقعات ہوئے تھے جس کے باعث مسلم کمیونٹی پر عرصہ حیات تنگ ہوا تھا۔2018 میں جب ایک آسٹریائی خاتون نے پیغمبرِ اسلامﷺ کی شان میں گستاخی کی تھی تو یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق (ای ایچ سی آر) نے کہا تھا کہ پیغمبرِ اسلام کی توہین ‘آزادیِ اظہار کی جائز حدوں سے تجاوز کرتی ہے،، اور ‘اس کی وجہ سے تعصب کو ہوا مل سکتی ہے اور اس سے مذہبی امن خطرے میں پڑ سکتا ہے”بعد میں یہ سزا برقرار رکھی گئی تھی۔
اب جبکہ حکومت اور کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے درمیان گھمسان کے رن کے بعد مذاکرات کا تیسرا دور کامیاب ہوا تو حکومت فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے حوالے سے ایک قرارداد قومی اسمبلی میں لائی ہے جسے اپوزیشن نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ پیپلز پارٹی نے اجلاس میں شرکت ہی نہیں کی۔ کالعدم تحریک لبیک نے حکومت کے سامنے چار شرائط رکھی تھیں،کہ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی حمایت کے بعد فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کیا جائے۔ پارٹی کے امیر سعد رضوی کو رہا کیا جائے، پارٹی پر پابندی ختم کی جائے اور گرفتار کارکنوں کو رہا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف درج ایف آئی آرز بھی ختم کی جائیں بشمول فورتھ شیڈول کے۔

قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر اسمبلی اسد قیصر کی سربراہی میں ہوا، جس میں قرار داد کا متن پڑھ کر سناتے ہوئے رکن پی ٹی آئی امجد علی خان کا کہنا تھا “کہ فرانسیسی صدر نے آزادی اظہار رائے کا سہارا لے کر ایسے افراد کی حوصلہ افزائی کی، جو انتہائی افسوسناک عمل ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے پر بحث کی جائے، تمام یورپی ممالک کو اس معاملے کی سنگینی سے آگاہ کیا جائے، تمام مسلمان ممالک کو شامل کرتے ہوئے اس مسئلے کو بین الاقوامی فورمز پر اٹھایا جائے۔ان کا مزیدکہنا تھا کہ ‘ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ بین الاقوامی معاملات کے حوالے سے فیصلہ ریاست کو کرنا چاہیے کوئی گروہ اس حوالے سے دباؤ نہیں ڈال سکتا۔انہوں نے اس معاملے پر ایک اسپیشل کمیٹی کا بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ یہ انتہائی حساس معاملہ ہے اور اس کے لیے میری خصوصی درخواست ہے۔”
اس قراد داد کا متن معاہدے کی رو ح کے بالکل بر عکس ہے۔ معاہدہ تو یہ ہوا تھا کہ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کیا جائے، حکومت نے کہا تھا کہ اس حوالے سے قرارداد اسمبلی میں لائی جائے گی جو بالآخر حکومت رسوائی اٹھا کر لے آئی۔ لیکن متن مبہم ہے، کہیں بھی فرانسیسی سفیر کو نکالنے کا ذکر نہیں بلکہ اس پر بحث اور کمیٹی کا ذکر ہے۔ اب کمیٹیاں بنیں گی اور معاملات لٹکتے چلے جائیں گے۔ البتہ قرارداد میں اس بات کا واشگاف اعلان ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کا فیصلہ ریاست کی ذمہ داری ہے نہ کہ کسی گروہ کی۔سو جاتے بھی کھائے اور سو پیاز بھی۔ نتیجہ پھر بھی غیر مطلوب ہے۔وجہ؟ پاکستان کی عالمی برادری میں حیثیت ۔ ابھی گزشتہ دنوں ہی برطانیہ نے پاکستان کو 21 انتہائی خطرناک ممالک میں شامل کیا ہے، یعنی ہم صومالیہ، افغانستان، شام، یمن عراق کے ہم رکاب ہیں عالمی برادری کی نظر میں۔فٹیف کا الگ سے خنجر لہراتا رہتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ملک اسلام کے نام پر بنا ہے کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ بین الاقوامی معاملات ریاست کے بجائے مولویوں کے ہاتھ تھما دیے جائیں۔ ہاں اگر مذہبی جماعتیں انتخابی سیاست میں اکثریت لے کر پارلیمان میں آتی ہیں تو بسم اللہ۔ان کا حق ہے کہ وہ عوام الناس کے بین الاقوامی تعلقات کا فیصلہ کریں۔پاکستان کا مسئلہ جز وقتی سیاسی مفادات اور انتہا پسندانہ سماجی رویہ ہے۔یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ قومی اسمبلی میں پیش کی گئی قرارداد کا وہ نتیجہ نکل ہی نہیں سکتا جو کالعدم تحریک لبیک چاہتی ہے۔ممکن ہے کالم جب اخبار میں شائع ہو تو کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ کالعدم کا سابقہ ہی کالعدم ہو چکا ہو۔
مسلمانوں کو اپنے رویوں، اپنے معاشی و اخلاقی اور علمی و تحقیقی انحطاط پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ اپنے ملک کا نقصان کرنے کے بجائے اور حکومتیں اپنی طاقت اپوزیشن جماعتوں کو دیوار سے لگانے کے بجائے علم و عمل کی جانب قدم بڑھائیں۔ہمارے دانش وروںکے لیے ضروری ہے وہ انگریزی و فرانسیسی زبان کے جرائد و اخبارات میں آزادی اظہار رائے اور گستاخی کے فرق پر مضامین اور مقالے لکھیں۔ مغرب کو بتائیں کہ برگزیدہ ہستیوں کے تمسخر پر سزا کا ویسا ہی قانون کم از کم ہونا چاہیے جیسا ہولو کاسٹ کے حوالے سے منفی بات کرنے کا ہے۔محسن نقوی کے نعتیہ شعر اہلِ مودت و عقیدت کا حو صلہ بڑھانے کے لیے،
پہلے مَہ و خورشید کو تسخیر کروں میں
پھر اسم ِ محمدؐ کہیں تحریر کروں میں
معراج ِ عقیدت تری دہلیز کا بوسہ
جنت کو ترے شہر سے تعبیر کروں میں
مہکے جو ترے نام کی خوشبو سے ابد تک
ایسی کوئی بستی کہیں تعمیر کروں میں

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply