مری کے سیاحتی مسائل کا ایک جامع حل۔۔محمد اشفاق

یوں تو ہر شہر کی طرح مری کے بھی چھوٹے بڑے کئی مسائل ہیں، لیکن سیاحتی حوالے سے دیکھا جائے تو دو بڑے مسئلے ہیں۔

1- سیاحوں کیلئے رہائش کی کمیابی یا عدم دستیابی

2- گاڑیوں کی پارکنگ کی عدم دستیابی

اب ان دونوں مسائل کی جڑ ایک ہی ہے یعنی جگہ کی قلت۔

پارکنگ کیلئے جو وسیع و عریض میدان یا کثیر المنزلہ عمارت درکار ہوتی ہے، وہ بنانے کی جگہ نہیں ہے اور ماحولیاتی مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے نئی عمارات کی تعمیر پر پابندی ہے، جو بالکل جائز ہے۔یہاں تک آپ یقیناً متفق ہوں گے، کیونکہ ہم سب نے یہ مان لیا ہے کہ مری میں جگہ نہیں بچی۔

لیکن کیا آپ میری اس بات پر یقین کریں گے کہ ہمیں مری میں اب بھی شہر کا چالیس فیصد رقبہ دستیاب ہے، جسے ہم ان دونوں مسائل سے ہمیشہ کیلئے چھٹکارا پانے کو استعمال کر سکتے ہیں؟جب مسائل قابو سے باہر ہونے لگیں تو ان کا آؤٹ آف باکس حل نکالا جاتا ہے۔ مجھے جو آؤٹ آف باکس حل سمجھ آیا، وہ پیش خدمت ہے۔

دیکھیں مری گوروں نے سیاحت کے فروغ کیلئے نہیں بسایا تھا۔ انہوں نے اسے سرکاری اور فوجی مقاصد کیلئے ہل سٹیشن کا درجہ دیا تھا۔ انگریزوں کے دور میں تین سال مری پنجاب حکومت کا سرمائی دارالخلافہ رہا ہے۔ جبکہ برٹش انڈین آرمی کی ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ کا یہ ہیڈکوارٹر ہوا کرتا تھا۔ قیام پاکستان تک تو یہاں مال روڈ پر مقامی باشندوں کا داخلہ ہی ممنوع تھا۔لیکن  اب مری کی واحد پہچان بلکہ یوں کہہ لیں کہ اس کا وجود ہی سیاحت سے جڑا ہوا ہے۔ اب سیاسی یا فوجی مقاصد کا تو مری سے کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔ پنجاب حکومت اب لاہور سے چلائی جاتی ہے اور سرمائی دارالخلافہ والی نزاکتیں گورے اپنے ساتھ ہی لے جا چکے۔ فوج کی ایسٹرن کمانڈ یا کہہ لیں کہ ٹینتھ کور کمانڈر اب راولپنڈی میں قیام پذیر ہوتے ہیں۔

تو اب مری میں چھاؤنی کی کیا ضرورت ہے؟

کالم نگار/محمد اشفاق

نہ صرف یہ کہ ضرورت یا افادیت کوئی نہیں، بلکہ لاکھوں سیاحوں اور ہزاروں گاڑیوں کی موجودگی فوجی تنصیبات کی سکیورٹی کیلئے بھی رسک ہے اور فوجی نقل و حمل میں بھی بہت بڑی رکاوٹ۔جبکہ مری سے صرف تیس کلومیٹر پہ چھتر کا پورا پہاڑ فوج کے زیر ِاستعمال ہے۔ یہاں ڈیفنس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی آرگنائزیشن کا ہیڈکوارٹر ہے، اس کے اندر اور گردونواح میں وسیع اراضی دستیاب ہے،جہاں چھاؤنی کہیں زیادہ محفوظ اور جدید زمانے کی ضروریات کے مطابق بنائی جا سکتی ہے۔

آرمی انٹیلی جنس سکول میں یقیناً کچھ ایسا نہیں پڑھایا جاتا جو صرف مری میں ہی پڑھنا ممکن ہو، اسے باآسانی چھتر شفٹ کیا جا سکتا ہے۔ ایسے ہی گھڑیال کیمپ۔ 12ویں انفنٹری ڈویژن زیادہ تر کشمیر اور کچھ ہزارہ ڈویژن میں تعینات ہے۔ اس کا ہیڈکوارٹر چاہے تو مظفرآباد لے جائیں یا چھتر۔ کیا فرق پڑتا ہے؟ اسی طرح یہ ادارے نکل جائیں تو سی ایم ایچ بھی چھتر شفٹ کر دی جائے۔

اب آپ کہیں گے کہ فوج کے محدود وسائل میں نئی چھاؤنی کی تعمیر کی گنجائش کہاں نکلتی ہے؟

تو اس کا حل بھی موجود ہے۔

چھاؤنی مری کا قریباً چالیس فیصد ہے۔ قانونی طور پر تو فوج اسے خالی کرتی ہے تو یہ جگہ پنجاب حکومت کو مل جاتی ہے۔ لیکن فوج بیشک اسے اپنے تصرف میں رکھے۔ صرف ان خالی ہو جانے والی عمارات کو گیسٹ ہاؤسز، ہوٹلز اور بیچلر ہوسٹلز میں بدل دے۔ اس طرح مری کی جو اکاموڈیشن کپیسیٹی ہے یہ کم از کم دگنا ہو جائے گی۔

اور اس کیلئے نئی تعمیرات کی بھی ضرورت نہیں۔ پہلے ہی سے ان عمارات میں گیسٹ ہاؤسز موجود ہیں جہاں افسران کی فیملیاں آ کر ٹھہرتی ہیں۔ اسی طرح فوجی بیرکوں کو بیچلر ہالز بنایا جا سکتا ہے۔ جبکہ خالی ہونے والی دیگر دفتری و رہائشی عمارات کو فیملی لاجز یا ہوٹلز کی شکل دی جا سکتی ہے۔

آپ اندازہ کریں کہ فوج کو اس سے ہر سال اربوں روپے کا ریونیو حاصل ہوگا، جو چھتر یا کسی بھی دیگر مناسب مقام پر چھاؤنی کے اخراجات بھی پورے کرے گا اور ایک مستقل آمدنی بھی، جو فوجیوں کی فلاح و بہبود میں خرچ کی جا سکتی ہے۔

یہ جو بیس بیس، تیس تیس ہزار میں پرنائٹ کمرے ملنے والا مسئلہ ہے یہ بھی ختم ہو جائے گا۔ ہوٹل مالکان بھی آسمان سے زمین پر اتر آئیں گے۔ سیاح بہت بڑی زحمت اور تکلیف سے بچ جائیں گے، جس سے سیاحت کو مزید فروغ حاصل ہوگا۔

اب پیچھے رہ جاتا ہے مسئلہ گاڑیوں کا۔ یہ بھی ساتھ ہی حل ہو جائے گا۔ کیونکہ ان فوجی تنصیبات میں بہت بڑا ایریا خالی پڑا ہے، جو جوانوں کی بھاگ دوڑ وغیرہ میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ پارکنگ کپیسیٹی کو دگنا کر دے گا۔لیکن اس سے بھی بہتر حل یہ ہے کہ آپ گھڑیال کیمپ میں پارکنگ بنائیں جو صرف بسوں اور منی بسوں کیلئے مختص ہو۔

ایسی ہی ایک پارکنگ آپ قائد اعظم یونیورسٹی کے قریب کہیں بنائیں۔ یہاں حکومت کو سینکڑوں کنال اراضی میسر ہے۔

مقامی لوگوں کی گاڑیوں کے علاوہ مری میں چھوٹی گاڑیوں کے داخلے پر مکمل پابندی لگا دی جائے۔ قائد اعظم یونیورسٹی والی پارکنگ میں لوگ گاڑیاں کھڑی کریں۔ یہاں سے بسیں اور منی بسیں انہیں گھڑیال پہنچائیں اور وہاں سے واپس آنے والوں کو لیتی ہوئی اسلام آباد آ جائیں۔

یہ بسیں اور منی بسیں حکومت یا فوج کو خود چلانے کی ضرورت نہیں۔ سینکڑوں ہزاروں گاڑیاں درکار ہوں گی، ٹرانسپورٹ کے شعبے میں بھونچال آ جائے گا۔ پرائیویٹ ٹرانسپورٹرز بہترین گاڑیاں لائیں، حکومت ان سے صرف پارکنگ اور ٹرمینلز کا کرایہ لے۔

یہ سروس چوبیس گھنٹے دستیاب ہو۔

سیاحوں کو آرام دہ اور محفوظ سفر ملے۔

ان کی گاڑیاں محفوظ مقام پر کھڑی رہیں۔

مری میں آلودگی، رش اور شور شرابہ کم ہو۔

اور روزگار کے ہزاروں نئے مواقع میسر ہوں۔

اس تجویز میں حکومت اور عوام دونوں کا فائدہ ہے۔

اور ان دونوں سے بڑھ کر فوج کا۔

اس طرح سیاحوں کے دو سب سے بڑے مسائل بھی حل ہو جاتے ہیں۔

انتظامیہ کے سر سے بھی بہت بڑا بوجھ اتر جائے گا۔

اور یقیناً فوج بھی سکھ کا سانس لے گی۔

اس ملک میں ہماری بہادر مسلح افواج سے بڑھ کر مقدس اور محب وطن اور کوئی نہیں ہے۔

مجھے یقین ہے یہ تجویز ان تک پہنچ جائے تو وہ اس کا خیر مقدم کریں گے کیونکہ حساس فوجی تنصیبات کا ایسے گنجان سیاحتی مقام پر ہونا ان کیلئے مستقل پریشانی کا سبب ہے۔سردیوں میں خصوصاً سیاحتی رش اور برفباری ان کی نقل و حمل ناممکن کر دیتی ہے۔اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو پھر کم از کم گوروں کی طرح مری میں سیاحوں کا داخلہ بند کر دیں۔کیونکہ چھاؤنی میں سیاحت نہیں ہو سکتی اور سیاحت میں چھاؤنی نہیں ہو سکتی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ کا کیا خیال ہے؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply