ماہ ربیع الاول سے متعلق چند گزارشات ۔ نبیل اقبال بلوچ

پاکستان کو اسلام کا قلعہ کہا جاتا ہے،ہمارے بزرگوں نے یہاں اسلامی تشخص قائم کرنے کے لیے اپنے خون سے شہادتوں کی فصل بو کر بے مثال قربانیاں دیں اور تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت سے گزرے، اسلام کے نام پر بننے والے اس خطے میں ہم نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عہد کیا کہ یہاں دین کو عملی طور پر نافذ کر کے ایک بہترین اسلامی فلا حی ریاست کا قیام عمل میں لائیں گے،جہاں حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ کو حاصل ہوگی اور قرآن ہمارا دستور ہوگا، مگر بد قسمتی سے اس خطے میں بسنے والے کلمہ گو شریعت کے تمام بنیادی عقائد سے لے  کر حُب رسول کے تقاضوں تک دین کی کسی ایک تشریح پر متفق نا ہو سکے،جس کے نتیجے میں اسلام کے نام پر بننے والا یہ ملک روز اول سے ہی مذہبی انتشار کا شکار رہا، بہرحال اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ہر خطے کے رہنے والوں کا اپنا ایک منفرد مزاج ہو ا کرتا ہے لہذا کئی لحاظ سے منفرد خصوصیت کے حامل اس ملک میں ایک اہم بات یہ ہے کہ یہاں کوئی بھی خاص سیاسی، مذہبی، یا قومی دن نہایت اہتمام سے منایا جاتا ہے لیکن اس ضمن میں بعض اوقات شرعی اور اخلاقی حدود سے بھی تجاوز ہو جاتا ہے جس کی واضح مثال بارہ ربیع الاول کا دن ہے۔

اس موقع پر دین کے تمام شرعی تقاضوں کو بالائے  طاق رکھتے ہوئے انتہائی توہین آمیز اور شرم ناک انداز اپنایا جاتا ہے جو نا صرف کسی بھی شخص کی دینی غیرت و حمیت بلکہ شعائر اسلام کے بھی خلاف ہے اور بدقسمی سے ا ب یہ صورت حال پاکستان کے تمام شہروں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اصل موضوع کی طرف آنے سے قبل یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ کوئی روایتی تحریر نہیں، بلکہ ایک فریاد ہے ان تمام مسلمانوں سے جو نا سمجھی میں اُن تمام خرافات کا حصہ بن چکے ہیں جو پچھلے چندبرسوں سے سامنے آرہی ہیں۔بارہ ربیع الاول پیمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ کا دن ہے۔بلا شبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبار ک انسان کی عظیم ترین سعادت ہے اور اس رو ئے زمین پر کسی بھی ہستی کا تذکرہ اتنا باعث اجرو ثواب اوراتنا باعث خیرو برکت نہیں ہو سکتا ہے جتنا سرور کائنات کا تذکرہ ہو سکتا ہے۔

لیکن بدقسمتی سے سیرت طیبہ کی ان محفلوں میں ہم نے ایسی بہت سی غلط باتیں شروع کر دیں جن سے ذکر مبار ک کے صحیح فوائد اور ثمرات حاصل نہیں ہوتے۔ سب سے پہلی اور سنگین غلطی یہ ہے کہ ہم نے ذکر مبار ک کو ایک خاص مہینے اور مہینے کے بھی ایک خاص دن تک محدود کر دیا ہے، یہ سیرت کے ساتھ اتنا بڑا ظلم ہے کہ اس سے بڑا ظلم کوئی اور نہیں ہو سکتا، یہ طریقہ ہم نے غیر مسلموں سے لیا، وہ اپنے بڑے لیڈروں کے دن مناتے ہیں، در حقیقت اُ ن لوگوں کی پوری زندگی کو قابل تقلید نہیں سمجھا جاتا اس لئے ان کی یاد تازہ کرنے کے لئے کوئی ایک خاص دن منایا جا تا ہے، جبکہ صحابہ کرام تابعین اور تبع تابعین کی پوری زندگی میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ انہوں نے 12ربیع الاول کو جشن منایا ہو، بلکہ صحابہ کرام کی زندگی کا ایک ایک لمحہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرے کی حیثیت رکھتا ہے،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ہر محفل ہر نشست سیرت طیبہ کی نشست تھی لہذا انہیں کسی رسمی مظاہروں اور فلک شگاف نعروں کی ضرورت نہ تھی، رسمی مظاہرہ صحابہ کی عادت ہی نہ تھی، بلکہ وہ دین کی اصل روح کو اپنائے ہو ئے تھے،

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں کیوں تشریف لائے؟ ان کی تعلیمات کیا تھیں اور آپ کی ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا کیا تھا؟ اس کے لیے صحابہ نے اپنی پوری زندگیاں وقف کر دیں، مگر افسوس ہم محبت اور عقیدت کے نام پر نمود و نمائش اور رسمی مظاہروں میں اس قدر آگے بڑھے کہ ہر جگہ جلسے جلوس نکالے جاتے ہیں ،حالانکہ صحابہ کی پوری تاریخ میں کسی ایک جلوس کی نظیر نہیں ملتی، چراغاں کیا جاتا ہے،گلی محلوں میں ہزاروں روپے خرچ کر کے تزین و آرائش کی جاتی ہے، پھر اُن میں آپس میں باقاعدہ مقابلے کرائے جاتے ہیں، اس سے بھی آگے بڑھ کر خانہ کعبہ اور گنبدخضرہ کی شبیہ بنائی جاتی ہے اور پھر عورتیں، بچے اور بوڑھے اسے متبرک سمجھ کر ہاتھ لگانے اور بوسہ دینے کی کوشش کرتے ہیں، ہزاروں لاکھوں روپے خرچ کر کے نعت خواں حضرات کو بلایا جاتا ہے، سیرت طیبہ کی محفل ہوتی ہے جس میں تیس چالیس سامعین کے لئے بڑے بڑے لاؤڈاسپیکر نصب کیے جاتے ہیں تا کہ پورے محلے میں آواز گونجے اور جب تک جلسہ ختم نہ ہو اس وقت تک کوئی بیمار، ضیعف یا معذور شخص سو نہ سکے۔

افسو س کہ منتظمین اس بات سے بے خبر ہیں کہ کسی مسلمان کو ایذا پہنچانا گناہ کبیرہ میں سے ہے جس کا انہیں احساس تک نہیں حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کے لئے اتنے دھیرے سے اٹھتے کہ عائشہ ؓ کی آنکھ نہ کھل جائے۔ بعض علاقوں میں باقاعدہ طور پر اس رات میں خواجہ سراؤں سے رقص کروایا جاتا ہے اور ہمارے نوجوان ان کے آگے دھمال ڈالتے ہیں، ربیع الاول  کے ماہ مقدس میں محبت اور عقیدت کے نام پر اس سے بڑا تمسخر اور کھلواڑ اور کیا ہو سکتا ہے، ان محافل میں ہماری نیت ہی یہ نہیں ہوتی کہ سیرت پر عمل کر کے اپنے ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے توبہ کی جائے اور آنے والی زندگی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کے مطابق گزارا جائے، بلکہ اکثر و بیشتر محافل میں سنانے والے تین چار گھنٹوں کا معاوضہ لے کر اگلی محفل کو چل دیے اور سننے والے اختتامی لنگر کے انتظار میں وقت گزاری کرتے رہے۔

اس تمام صورت حال کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ تمام مکاتب فکر کے علماء حق نے بار ہا ان غیر شرعی رسومات کے بارے میں لوگوں کی رہنمائی فرمائی   جس  کے نتیجے  میں  امت کا ایک بہت بڑا طبقہ  ان  رسمی مظاہروں میں اپنی توانائیاں صرف کرنے کی بجائے حقیقی معنوں میں سیرت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس ضمن میں مفتی منیب الرحمان صاحب ربیع الاول کی مجالس کے حوالے سے ۷۲دسمبر ۵۱۰۲ کو روزنامہ جنگ میں اپنا موقف بیان کر تے ہوئے فرماتے ہیں ”میلاد النبی کے جلوسوں اور جلوس کا محرکات، مکروہات سے پاک ہونا ہی رسول اللہ سے حقیقی محبت کا ثبوت ہے کہ آپ کی بعثت مبارکہ کا مقصد ظلمت و جہالت کو دور کرنا اور احکام الٰہی کا پابند بنانا ہے، لوگوں کی رزیل صفات کو حسن اخلاق میں بدل دینا ہے۔آ پﷺ کی ولادت با سعادت کے دن کا اکرام اُنہی شرعی تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی مجالس میں نظر آتے ہیں اس سے ہٹ کر کسی غیر شرعی امر کا ارتکاب دعویٰ  عشق و محبت رسول کے خلاف ہے۔ میلاد النبی کے جلوس نہ ظروریات دین سے ہیں اور نہ ہی ظروریات مسلک اہل السنہ والجماعہ سے، البتہ یہ برصغیر میں شائر اہلسنت سے ہیں یہ اگر محرکات، بدعات اور منکرات سے پاک ہوں تو زیادہ سے زیادہ استحباب و استحسان کے درجے میں قرار دیا جا سکتا ہے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے دینی امور کو قرآن و سنت میں بیان کردہ حقائق کی روشنی میں طے کرنے کی بجائے ،اپنی وظع کردہ عقیدتوں اور خواہشات کی نذر کر دیتے ہیں اور عقیدے و عقیدت کا تعین ایک ایسا طبقہ کرتا ہے، جو دینی فہم سے عاری و نابلد ہے۔محافل میلاد کے نام پر مقدس محافل کی آ ڑ میں بڑے بڑے کاروبار کیے جا رہے ہیں چند مقامات پر نعت خوانوں اورشعلہ بیان مقررین(جن کی اکثریت موضوع روایات کا سہارا لیتی ہے) کی ایجنٹوں کے  ذریعے لاکھوں میں بکنگ ہو رہی ہے، کسی زمانے میں شہر بھر میں سیاسی لیڈروں کی بڑی بڑی قدآور تصاویر لگائی  جاتی تھیں اب واعظین اور نعت خواں حضرات کی تصاویر صرف بازاروں اور چوراہوں تک محدود نہیں، بلکہ مساجد کے صدر دروازوں پر بھی آویزاں نظر آتی ہیں“۔

معزز قاریئن کرام! اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات شاہد ہے کہ اوپر جو کچھ بیان کیا اسکا مقصد کسی مسلمان کی دل آزاری یا تضحیک کرنا ہر گز نہیں، بلکہ مشاہد ے کو قلم کی نوک پر لانے کی کوشش کی گئی، اس تحریر سے ہر گز غلط فہمی کا شکار نہ ہو جائیں کہ آپ کا ذکر مبارک کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے بلکہ الحمد اللہ راقم پچھلے بیس سال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں نعت گوئی کی سعادت حاصل کر رہا ہے اوراللہ سے دعا ہے کہ زندگی کے آخری سانس تک یہ نسبت برقرار رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہمیشہ بلند رہے گا اور کسی بھی انسان کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرنا انسانیت کی سب سے بڑی معراج ہے لیکن ذرا ایک لمحے کے لئے غور فرمائیں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان محافل کو دیکھ لیں جو ان کے مبار ک نام پر منعقد کی جاتی ہیں تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پسند فرمائیں گے؟

خدارا ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہییں، کہیں ہم فائدے کی بجائے گھاٹے کا سودا تو نہیں کرنے جا رہے؟کہیں ہم محبت اور عقیدت کے نام پر معاذاللہ اُن کی تعلیمات کی توہین تو نہیں کر رہے؟آپ نے تو ہمیشہ امت کو رسمی مظاہروں سے اجتناب کی تلقین فرمائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پاک کا مفہوم ہے،ظاہری اور رسمی چیزوں کی طرف جانے کی بجائے میری تعلیمات کو اپنی زندگی میں اپنانے کی کوشش کرو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور محبت کا حق پہچاننے کی توفیق نصیب فرمائے اور ہر گھڑی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

Save

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply