• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • نہتے مزدوروں کے قتل عام پر’’نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن‘‘کا نقطہء نظر

نہتے مزدوروں کے قتل عام پر’’نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن‘‘کا نقطہء نظر

تربت میں15نہتے محنت کشوں کا بہیمانہ قتل اتنا ہی قابلِ مذمت ہے جتنا ریاستی اداروں کے ہاتھوں بلوچوں کی پراسرار گمشدگیاں اور  ان کی تشدد زدہ لاشوں کا ملنا قابل مذمت ہے ۔پاکستان کی مزدور تحریک کے باشعور حصے نے ہمیشہ قوموں کے حقوق خصوصاََ بلوچوں کے حقوق کی پامالی کے خلاف   آواز بلند کی ہے اور ان کی جدوجہد کی غیر مشروط حمایت کرتے ہوئے سراپا احتجاج رہی ہے۔ لیکن قومی حقوق کی تحریک کو نسلی بنیادوں پر محنت کشوں کے قتل عام کی سطح پر لانے سے ریاست کے گمراہ کن پروپیگنڈے کو تقویت اور قبول عام کی سند ملتی ہے جو کسی بھی طورحقوق کی جدوجہد میں معاون ومددگار نہیں ہے ۔

تربت کا اندوہناک واقعہ اس طرح کے واقعات کا تسلسل ہے جس کے نتیجے میں مختلف قوموں کے محنت کشوں اور مظلوم بلوچوں کے درمیان نفرت کی خلیج بڑھی ہے ۔اس سے قبل اسی طرح نسلی بنیادوں پر بلوچستان میں نا صرف پنجابی بلکہ سندھی ، سرائیکی اور پشتون محنت کشوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ دنیا بھر کی ترقی پسند قومی تحریکیں جدوجہد کے کسی بھی موڑ پر محنت کشوں کے خون سے اپنے ہاتھ آلودہ کرتی نظرنہیں آئیں اورجدوجہد کے انتہائی پرتشدد مراحل اور طریقہ کار میں بھی غیر مسلح ،نہتے اور پرامن محنت کشوں کو ریاستی جبر کے جواب میں اس طرح نشانہ بنانے سے شعوری طور پراجتناب برتا گیا ۔

استحصال زدہ اورمظلوموں محنت کش طبقے کے افراد سے اس طرح کے سفاکانہ عمل کو روا رکھنا کسی طورکسی بھی فکروفلسفے اور نظریاتی زاویے سے درست ثابت نہیں کیا جا سکتا ۔ مزدوروں کے اس قتل عام کی مذمت کرنے کا کہیں بھی یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ یہ بلوچستان میں ریاست کے جاری جبراورلاقانونیت کی حمایت کے مترادف ہے ۔اور جو افراد یا گروہ اس گھناؤنے جرم کی تنقید کو شعوری طور پر ریاستی جبر کی طرفداری سے تعبیر کرتے ہیں وہ بنیادی طور پر بلوچ قوم کی حق پر مبنی جدوجہد اور بیانیے کو کمزور کرنے کا باعث بن رہے ہیں ۔بلوچستان میں دہائیوں سے جاری ریاستی جبر واستبداد اور بلوچ سیاسی کارکنوں کا قتل عام اور جبری گمشدگیاں ناقابل معافی جرم ہے جس کی مزدوروں سمیت سماج کی ترقی پسند قوتیں کبھی حمایت نہیں کرسکتی ۔

بالکل اسی طرح عام مزدوروں کو ان کی زبان ، نسل اورعلاقے کی بنیاد پر قتل کرنا، اس کی حمایت کرنا اوراس کا جواز تراشنا بھی ناقابل معافی جرم اور نظریاتی وسیاسی شعور کی توہین ہے ۔ مسافر مزدوروں کا یہ بہیمانہ قتل بلوچ قوم اورمحنت کشوں کے اس قتل عام اور بدترین جرائم کا تسلسل ہے جو ایک عرصے سے جاری ہے۔ ایک بار پھرمزدور طبقے اور مظلوم قوموں کے اتحاد پر کاری وار کر کے نسل پرستی اور نفرتوں کے چلن میں اضافے کی گھناؤنی کوشش کی گئی ہے۔ اس انسانیت سوز فعل کوایک طرف بلوچستان میں جاری ریاستی جبر میں مزید اضافے کا جواز بنایا جائے گا تو دوسری جانب ایسے واقعات کو بنیاد بناتے ہوئے بلوچ حقوق کے لیے بلند ہونے والی آوازوں اور ریاستی بیانیے سے مختلف سوچ رکھنے والوں کو دبانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی ۔ محنت کشوں اور عام شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے جس میں وہ کام کی جگہوں سے لے کر عام مقامات اور راستوں تک میں مکمل طور پر نا صرف ناکام ہو چکی ہے بلکہ یہ کہیں اس کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جبکہ سرمایہ داروں، جاگیر داروں کی تمام سیاسی ومذہبی جماعتیں ایسی صورتحال پر ہمیشہ محض بیان بازی اور چین کی بانسری بجاتے ہوئے اپنی بے حسی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ قوموں اور محنت کشوں کی منشا، امنگوں اور مفادات کے برخلاف ترقی کے نام نہاد غیر ملکی منصوبوں پر عمل درآمد کر کے ملک میں بسنے والی قوموں کے وسائل اور محنت کش طبقے کی بدترین لوٹ کھسوٹ کی جا رہی ہے ۔ چین سمیت عالمی مالیاتی اداروں کی سرمایہ کاری ایک ایسے جدید نوآبادیاتی نظام کا نقشہ پیش کر رہی ہے جہاں قوموں اور محنت کش طبقے کے بنیادی حقوق کو طاقت کے زور پر کچلنے کی روش جاری ہے اوراس کے جلو میں خطے اور یہاں کے لوگوں کو ایک نئی سامراجی پراکسی جنگ کا ایندھن بنایا جا رہا ہے ۔اس تباہ کن صورتحال میں ملک میں بسنے والی قوموں اور محنت کش طبقے کے اتحاد میں پڑنے والی دراڑوں کو تمام مظلوموں کے اتحاد اور مشترکہ جدوجہد سے ہی روکا جاسکتا ہے اور ریاست کے عوام دشمن بیانیے کو شکست دی جا سکتی ہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply