آٹھ امراء ،شودر دنیا اور رابن ہوڈ

آٹھ امراء شودر دنیا اور رابن ہوڈ.
بین الاقوامی اقتصاوی فورم میں پیش کئے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے آٹھ امراء دنیا کی آدھی دولت کے مالک ہیں۔ ان کے اثاثہ جات کی مالیت 426 ملین ڈالر ہے. اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہوا کہ دنیا کے 3 ارب 50 کروڑ لوگوں کے پاس جتنی دولت ہے اس کے برابر دولت کے مالک دنیا کے یہی آٹھ لوگ ہے. ایک طرف تو دولت کے انبار لگائے جا رہے ہیں ، تو دوسری طرف باقی 6 ارب 99 کروڑ 99 لاکھ 9سو99 شودر جو دنیا میں بستے ہیں ان کی حالات زار دن بدن زوال پذیر ہے. اس بہشت اہل ثروت میں جب ان امراء کے ڈائنگ ٹیبل رنگا رنگ کھانوں سے سج رہے ہوتے ہیں تو اسی اثناء میں ہر دس سیکنڈ میں ایک شودر کا بچہ بھوک سے ایڑیاں رگڑتا اپنی جان دے دیتا ہے ،اور اگر خوش ذائقہ اور خوشگوار دعوت کا عمل اگر 30 منٹ تک چلے تو اس اثناء میں 180 ماؤں کے جگر کے ٹکڑے روتے اور بھوک سے بلکتے ایک پر تکلف دعوت پر قربان ہو جاتے ہیں، جب ان امراء کی دولت اس معیار پر پہنچ چکی ہے کے ہندسے ان کا شمار کرنے سے عاجز ہیں تو دوسری طرف دنیا کے 89 کروڑ اور 60لاکھ کمی کمین 1.9ڈالر روزانہ پر اپنے جسم اور روح کا رشتہ جوڑے ہوئے ہیں۔
غربت کا یہ عالم ہے کے 79 کروڑ 50 لاکھ لوگوں کو بنیادی خوراک میسر نہیں. ہر سال 30 لاکھ حاملہ خواتین سے صحت کی بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے جینے کا حق چھین لیا جاتا ہے. جب یہ امراء چمکتے دمکتے بلوری گلاسوں میں جام لنڈھا رہے ہوتےہیں تو اس وقت 66کروڑ 30 لاکھ ان غلاموں کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں. جب یہ حکمران موسمی اثرات سے محفوظ محل نما غسل خانوں میں ہوتے ہیں تو اس وقت دنیا کے2 ارب 30کروڑ نیچ ذات کے لوگ انسانیت کے معیار سے گرے ہوئے حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں. سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے قصور کس کا ہے یہ کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کریں کس کو اپنا وکیل کریں. قصور وار کون؟ جس نے پیدا کیا یا وہ جو لوگوں کی گردن پر سوار ہوگئے. ان کی دولت دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کے من وسلویٰ آج بھی اترتا ہے ،لیکن کچھ لوگ مزدوروں کی ہڈیوں کی سیڑھیاں بنا کر اتنی بلندی پر پہنچ چکے ہیں کہ یہ درمیان سے ہی اس من وسلویٰ کو اچک لیتے ہیں۔ اب کسے کوئی مسیحا کرے یا کہاں سے وہ رابن ہوڈ آئے.
بین الاقوامی اقتصادی فورم میں پیش کی جانے والی یہ رپورٹ آج کے دور میں پیدا ہونے والی طبقاتی کشمکش کا ایک بھرپور اظہار ہے، جہاں ایک طرف کام نہ کربے والا حکمران اور سرمایہ دار طبقہ ہے تو دوسری طرف معاشرے کا پساء ہوا مزدور طبقہ۔ پہلے درجے میں سرمایادار ہر طرح سے مزدور طبقے کے استحصال میں مشغول ہے اور مزدور طبقہ جو دولت پیدا کر رہا ہے اس میں اس طبقے کو شامل کرنے کی بجائے اسے اپنے سرمائے کی کرشمہ سازی قرار دے کر اپنے بنک اکاونٹس میں منتقل کر رہا ہے، دوسری طرف حکمران وقت اس طرح سے ٹیکس عائد کر رہے ہیں جس سے مزدور کو ملنے والی اجرت کا بڑاحصہ ان بلواسطہ یا بلاواسطہ ٹیکسوں کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے اور اس طبقے کے پاس اتنی قابل تصرف آمدنی نہیں بچتی ہے کہ وہ اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کر سکے ،جس کے نتیجے میں وہ اپنی آمدنی میں اضافے کیلئے 12سے 14 گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اور اپنی شعوری اور اخلاقی تربیت کے لئے وقت نہیں نکال پاتے جس کے نتیجے کے طور پر مجموعی طور پر اس معاشرے کے اخلاقیات تباہ و برباد ہو جاتی ہے.۔
ایک طرف سرمایہ دار طبقہ کی دن بدن دولت جمع کرنے کی ہوس تو دوسری طرف حکمران طبقے کی اپنے اللے تللوں کے لئے بے جاء ٹیکسوں کا نفاذ معاشرے کی شیرازہ بندیوں کو ادھیڑنا شروع کر دیتا ہے ۔ایسے میں کہیں نہ کہیں بغاوت کی ایک چنگاری پیدا ہو جاتی ہے اور آہستہ آہستہ ایسا معاشرہ اپنے نیچے ایک بارود کا ڈھیر پیدا کر لیتا ہے ۔جس دن کسی رابن ہوڈ جیسے سر پھرے نے چقماق کا پتھر اس بارود کے ڈھیر کے قریب رگڑ دیا توپورا معاشرہ ایک آگ کی لپیٹ میں آ جائے گا اور کشت و خون کے ایک سیلاب سے غیر طبقاتی معاشرے کا قیام ناگزیر ہو جائے گا….

Facebook Comments

زوھیب نور
ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں کامرس لیکچرار.....

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply