سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے

سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
ہارون الرشید
پروفیسر سلمان حیدر کا نام میں نے تب سنا جب اُنہیں اٹھا کر غائب کر دینے کا معاملہ منظرِعام پر آیا۔ یہ بھی تبھی معلوم ہوا کہ وہ فاطمہ جناح وویمن یونیورسٹی میں پڑھانے کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ سوشل میڈیا پر کافی متحرک تھے اور بلاگ بھی لکھتے تھے اور ان کے ساتھ تین یا چار اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور بلاگرز بھی اٹھا کر غائب کر دیئے گئے۔ اٹھائے گئے تمام لوگ سیکولر خیالات کے حامل افراد ہیں اور مبینہ طور پر فیس بُک پر بھنیسا،موچی اورروشنی،وغیرہ نامی پیجز چلاتے تھے۔ مجھے ان پیجز سے بہت زیادہ واقفیت تو نہیں ہے لیکن جب کبھی ان پیجز کی کوئی پوسٹ نظر سے گزری تو لایعنی سی ہی محسوس ہوئی۔ اِن افراد کے غائب ہونے کے بعد ایسی بہت سی پوسٹس سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں جن سے اُن افراد کا توہینِ مذہب اور معاذاللہ خود آقا کریم ﷺ کی توہین میں ملوث ہونے کا بھی پہلو نکلتا ہے جو یقیناً ایک حساس معاملہ ہے۔ میں یہ نہیں جانتا کہ یہ سارے افراد واقعییہ پیجز چلاتے بھی تھے یا نہیں اور توہینِ مذہب کے مرتکب تھے یا نہیں ،کیونکہ یہ سب باتیں سوشل میڈیا سے ہی پتہ چلی ہیں اور سوشل میڈیا پر آنے والی خبریں زیادہ تر بے بنیاد اور جھوٹ ہی نکلتی ہیں اور آجکل تو ایڈیٹنگ اور فوٹوشاپ کے ذریعے کچھ بھی ممکن ہے ، اِس لیے اِس سارے معاملے پر میں قطعیت کے ساتھ کوئی رائے اختیار نہیں کرنا چاہتا۔
میں معاملے کو ایک دوسرے پہلو سے دیکھ رہا ہوں۔ اٹھائے گئے افراد چونکہ سیکولر خیالات کے مالک تھے، اِس لیے اُن کے حق میں آوازیں بھی وہی لوگ بلند کر رہے ہیں جو خود کو سیکولر اور مذہب بیزار کہلوانا پسند کرتے ہیں جبکہ مذہبی لوگ اِس بات پر بڑے خوش نظر آرہے ہیں کہ چلو حساس اداروں کی نظر اِس بار اُن پر سے ہٹ کر اُن کے مخالفین پر بھی پڑی، اور بعض یہ بھی کہتے پائے گئے کہ اِن مذہب دشمنوں اور پاکستان مخالفوں کے ساتھ درست ہوا ہے اور اِن کے باقی حمایتیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ دوسری طرف جب کوئی مذہب پسند آدمی اٹھا کر غائب کیا جاتا ہے سیکولر حلقے بہت بغلیں بجاتے ہیں کہ یہ دہشت گرد اور شدت پسند جاہل تھے۔ جنہوں نے معاشرے میں انتہا پسندی کو پروان چڑھا کر ترقی کا راستہ روک رکھا ہے۔لہٰذا یہ اسی سلوک کے مستحق تھے اور ان بیچاروں کے حق میں اٹھنے والی آوازیں صرف مذہبی لوگوں کی ہوتی ہیں اور وہ آوازیں بھی گِنی چُنی کہ لوگ اُن کی حمایت کرتے ہوئے بھی خوفزدہ ہوتے ہیں کہ دہشت گردوں کی حمایت میں کہیں وہ بھی نہ دھر لیے جائیں۔ مذہبی لوگوں کو اٹھا لیجانے پر تو میڈیا پر بھی شور نہیں مچتا جبکہ سلمان حیدر اور کمپنی کے لوگوں کو اٹھائے جانے پر میڈیا میں بھی تشویش کی لہر پائی جاتی ہے۔ میری نظر میں یہ دونوں گروہ ہی شدت پسند اور انتہا پسند ہیں اور معاشرے میں انتہا پسندی اور شدت پسندی کو پھیلانے میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔ اِن دونوں گروہوں نے معاشرے کو دو انتہاؤں میں تقسیم کر رکھا ہے اور اعتدال کی سوچ رکھنے والے یا تو ہیں ہی بہت کم اور اگر تعداد میں زیادہ بھی ہوں تو اُس اثرورسوخ سے محروم ہیں جو اِن دونوں گروہوں کو حاصل ہے۔ گذشتہ دنوں پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر جناب اشتیاق احمد گوندل لاپتہ ہو گئے۔ وہ چونکہ سیکولر سوچ کے حامل نہیں تھے اس لیے نہ تو میڈیا نے شور مچایا اور نہ ہی سول سوسائٹی حرکت میں آئی اور نہ ہی سوشل میڈیا پر چرچا ہوا۔ یہ دہرے معیارات بھی معاشرے میں انتہا پسندی کو پروان چڑھانے میں بہت کردار ادا کرتے ہیں۔ معتدل افراد کے نزدیک پروفیسر اشتیاق احمد گوندل اور پروفیسر سلمان حیدر دونوں کو لاپتہ کیا جانا برابر قابلِ مذمت ہے۔
اعتدال اور انصاف دونوں کا تقاضا ہے کہ لاپتہ افراد کا تعلق خواہ کسی بھی گروہ اور نظریے سے ہو، اُن کو اس طرح غائب کر دینے کے بجائے انہیں انصاف کے اداروں کے سامنے پیش کیا جائے۔ ایک ملک اور جنگل میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے۔ حساس ادارے کسی مذہبی آدمی کو اٹھائیں یا کسی سیکولر سوچ کے آدمی کو، ظاہر ہے کہ وہ اُن کی نگرانی کے بعد ہی ایسا قدم اٹھاتے ہیں اور نگرانی کے دوران بہت سے ثبوت بھی اُن کے ہاتھ لگتے ہوں گے جن کی بنیاد پر وہ یہ اقدام کرتے ہیں، تو پھر یہ ادارے ایسا کیوں نہیں کرتے کہ اُن ثبوتوں کی بنیاد پر مقدمہ قائم کر کے وہ ثبوت عدالتوں میں پیش کر کے قانونی طریقے سے ایسے لوگوں کو سزا دلوائیں۔ امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے اِن لاپتہ افراد کے حق میں آواز اٹھانے نے اور بھی شکوک و شبہات کو جنم دے دیا ہے اور ایسی صورت میں تو حقائق کو منظرِعام پر لانا اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔ اگر سلمان حیدر اینڈکمپنی واقعی ہی وہ پیجز چلاتے تھے جن سے توہینِ مذہب کی کارروائیاں اور پاکستان مخالف سرگرمیاں جاری تھیں تو اس کے تو سارے ثبوت موجود ہوں گے، ایسی صورت میں عدالتوں کو وہ ثبوت مہیا کر کے نظامِ انصاف سے مدد طلب کی جانی چاہیے۔ لوگوں کو اس طرح لاپتہ کرنے سے حساس اداروں کی اپنی ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے اور ان اداروں کو بھی ایسے واقعات پر اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے۔ ہم ایک آزاد ملک میں رہتے ہیں، ہمیں یہ احساس نہ دلایا جائے کہ ہم کسی جنگل میں آباد ہیں۔ کہنے کو تو جنگل میں کوئی دستور نہیں ہوتا لیکن ایسا نہ ہو کہ لوگ یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے
تو وہ حملہ نہیں کرتا
درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا ہے
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
تو مینا اپنے بچے چھوڑ کر کوے کے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے
سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گر پڑے تو
سارا جنگل جاگ جاتا ہے
سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں
بئے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے
تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو پڑوسی مان لیتی ہیں
کوئی طوفان آ جائے
کوئی پُل ٹوٹ جائے
تو کسی لکڑی کے تختے پر
گلہری، سانپ، بکری اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
خداوندا!
جلیل و معتبر، دانا و بینا، منصف و اکبر!
میرے اس شہر میں
اب جنگلوں کا ہی کوئی قانون نافذ کر
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
کاش کہ ریاست، ریاستی ادارے اور خود عوام بھی اس آزاد نظم میں کی گئی تصویرکشی پر کبھی عمل کرنے کا سوچیں۔۔۔۔

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply