نجف سے کربلا،میں نے اسے کہا۔۔۔ارشاد حسین ناصر

میں نے اسے کہا کہ یہ بات میں چیلنج سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ اس سفر کے دوران جو چیز بھی کھانا چاہیں گے، آپ کو ملے گی اور مفت ملے گی۔ ممکن ہے منت سماجت سے آپ کو پکڑ کے کہا جائے کہ مہربانی فرما کر کھا لو۔ میں نے اسے یہ بھی بتایا کہ اس سفر میں آپ کو جیب کٹنے کا ڈر نہیں ہوگا، جیسے ہم کسی میلے ٹھیلے یا رش والی جگہ پر جاتے ہیں تو پاکستان میں عمومی طور پہ یہ احتیاط کرنا پڑتی ہے۔ ہمارے ہاں تو جتنا بڑا جنازہ ہو، اسی قدر زیادہ جیب تراش تشریف لاتے ہیں۔ گذشتہ دنوں لاہور میں ایک سیاسی شخصیت کا جنازہ تھا تو بہت سے معروف سیاسی رہنمائوں کی جیبیں کٹ گئیں اور خوب تماشا لگا، میڈیا اور سوشل میڈیا پہ۔ میں نے اسے یہ بھی بتایا کہ اس سفر میں آپ کو کوئی بھی کھانے کی چیز ساتھ رکھنے کی ضرورت نہیں، میں نے بتایا کہ اس سفر میں آپ کو یہ بھی نہیں سوچنا کہ آپ کہیں گم ہو جائیں گے یا اپنوں سے بچھڑ جائیں گے، بس اپنے ہوٹل کا کارڈ ساتھ رکھ لو، منزل مل جائے گی اور پہنچ جائو گے۔ میں نے اسے یہ بات زور دے کر کہی کہ سخت سردی میں آپ کو سونے کی فکر نہیں کرنی کہ کسی ہوٹل میں جگہ ملے گی یا نہیں، آپ کو گرم بستر، گرم پانی، ٹوائیلٹ، باجماعت نماز اور کھانا ملے گا۔ میں نے اسے بتایا کہ آپ کو جوتا پالش کروانے، ٹوٹنے کی صورت میں جڑوانا، سلائی کروانا اور میلے کپڑوں کو دھونے کی فکر بھی نہیں کرنی، اس کا انتظام بھی ہو جائے گا، میں نے اسے بتایا کہ اس سفر میں آپ کو یہ فکر بھی نہیں کرنی کہ آپ ہاتھ کھول کر نماز ادا کرتے ہیں یا ہاتھ باندھ کر۔ آپ کو کھلی آزادی ہوگی کہ شلوار ٹخنوں سے اوپر کرکے ہاتھ سینے پہ باندھ کے نماز پڑھو، میں نے اسے آگاہ کیا کہ چار یا تین دن کے اس سفر میں آپ کو ایک پائی کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی، اگر خدا نخواستہ بیمار پڑگئے تو بہترین طبی سہولیات اور مفت دوائیاں میسر ہونگیں۔

میں نے اسے کہا کہ سفر میں تھکان فطری بات ہے، نوے کلو میٹر چلتے ہوئے بندہ آخر ریسٹ کرنا چاہتا ہے، آبلہ پائی اور سوجن ہو جاتی ہے، آپ ذرا تھک کر دکھانا، آبلے پڑ جائیں تو بس اشارہ کرنا آپ پر خدمت کرنے والے ایسے بچھ جائیں گے، جیسے آپ ان کے مائی باپ ہوں اور آپ ان کے بہت بڑے محسن ہوں۔ آپ کے بدبودار پائوں جو آپ کا بھائی اور سگی اولاد بھی چھونے سے کترائے، اسے چومیں گے، اسے آہستہ سے پکڑ کے جھولی میں رکھیں گے اور آہستہ آہستہ دبائیں گے، آپ کا ایسا مساج کریں گے کہ آپ کی تھکن کوسوں دور چلی جائے گی اور آپ اس عمل سے ایسا روحانی سکون بھی محسوس کریں گے، جو اس سے پہلے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا۔۔۔! میں نے اسے بتایا کہ کربلا جسے اب چودہ صدیاں ہو چلی ہیں، اسے ابھی تک کائنات اور زمانہ سمجھنے سے قاصر ہے، میرا چیلنج ہے کہ کربلا کو سمجھنا چاہتے ہو تو اس سفر کو اختیار کرو، میں نے اسے کہا کہ ہم نے اپنی زبان میں قربانی، ایثار، عزت، وقار، مہمان نوازی کا نام سنا ہے، شائد ان سے کبھی واسطہ بھی پڑا ہو، مگر اس سفر میں آپ کو ان الفاظ کی قیمت محسوس ہو جائے گی کہ یہ کس قدر بھاری الفاظ ہیں، ان پر پورا اترنا کس قدر مشکل ہے اور کون ہے جو اس دنیا میں یہ مثالی جذبے، سچے اور کھرے اقدار رکھتے ہیں، ان الفاظ کی قیمت اور حق ادا کر رہا ہے، میں نے اسے کہا کہ فاطمہ بنت محمد ۖ کے جائے کربلا میں تین دن کے پیاسے مارے جانے والے حضرت حسین ابن علی ابن ابی طالب علیھم السلام سے عقیدت، محبت، عشق، جنون رکھنے والوں کو اگر دیکھنا ہے تو اس سفر میں کروڑوں کی تعداد میں دکھا سکتا ہوں اور یہ بھی چیلنج ہے کہ انسانوں کا اتنا بڑا سمندر آپ کو دکھائوں گا کہ آپ نے کبھی نا دیکھا ہوگا اور نا ہی کبھی دیکھ پائیں گے۔ میں نے اسے بتایا کہ کربلا میں جتنی غربت اور بے بسی تھی، اس کے مقابل انسانوں کے دلوں پر راج اور ہر ایک کیلئے آزادی کہ جیسے چاہے اپنی عقیدت کا اظہار کرسکے۔ امام حسین واقعی حریت و آزادی کا امام ہے، یہ اس سفر میں معلوم ہو جائے گا۔۔۔۔۔

میں نے اسے کہا کہ میں آپ کو دکھائوں گا کہ کوفے والے کس قدر مہمان نواز ہیں، کس قدر باحیا اور غیرت والے ہیں اور نبی کے نواسے سے ان کی محبت کا کیا عالم ہے، میں نے اسے بتایا کہ آپ کو دکھائوں گا کہ شاہوں کے محلات کے نشاں مٹ گئے، مگر علی ولی کا گھر آج بھی منارہ نور بنا ہوا ہے۔ میں نے اسے کہا کہ تمہیں دکھائوں گا کہ جنہیں کفن نصیب نہیں ہوا تھا، ان کو صحرا کی مٹی اور پتھروں کے ڈھیر تلے دبا دیکھتے سیدہ زینب رسن بستہ شام چلی گئی تھیں، آج کیسے آباد ہیں۔ آج ان کے کربلا سے دنیا بھر کے کروڑوں لوگ اپنے لئے کفن خرید کر لے جاتے ہیں اور کفن خرید کر خوش ہوتے ہیں، کربلا کا ایسا تحفہ جسے کوئی بھی پا کر شادمان ہو جاتا ہے۔ میں نے اسے کہا کہ آپ کو اس شہر میں لے چلوں، جہاں کی خاک بھی تبرک سمجھی جاتی ہے اور لوگ اسے اپنے کفن کیساتھ کفن میں رکھوانا فخر سمجھتے ہیں۔۔۔۔ میں نے اسے بتایا کہ یہ واحد سفر ہوگا، جو ایک ایسے ملک میں کیا جاتا ہے، جس میں دہشت گردی کے سب سے زیادہ خطرات ہونے کے باوجود لوگ اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر دنیا بھر سے اکٹھے ہوتے ہیں اور اسے اپنے لئے سعادت سمجھتے ہیں۔ آخرت کا خزینہ سمجھتے ہیں، یہ سفر آپ کیلئے بھی توشہ آخرت ثابت ہوگا، میں نے اسے بتایا کہ یہ سفر اگرچہ نوے کلو میٹر ہے، مگر میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے اسے چودہ صدیوں میں ان گنت قربانیاں دے کے طے کیا ہے اور اہل عراق کی قربانیاں بھی ان گنت ہیں، جو وہاں جا کر ہی دیکھی جا سکتی ہیں۔ میں نے اسے بتایا کہ یہ عجیب سفر ہوگا، جس میں صرف ایک مذہب کے پیروکار ہونگے، ایک شخصیت کے ماننے والے، ایک ہستی پہ جان نچھاور کرنے والے، ایک انسان پر مر مٹنے والوں کا ان گنت سمندر، کسی کو کسی سے کوئی اختلاف نہیں ہوگا، کسی کو کسی سے کوئی دکھ اور رنج نہیں ہوگا۔ کسی میں کوئی تعصب، علاقائیت، لسانیت، قومیت نظر نہیں آئے گی، کسی کو منصب، عہدہ، اختیار اور طاقت کا گھمنڈ نہیں ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک ایسا سفر جو تمام فرق مٹا دے، جہاں دشمنیاں دوستیوں اور محبتوں میں ڈھلی نظر آئیں، جہاں ہر سو خوشحالی اور خوشدلی کا راج دکھائی دے، جہاں ہر ایک محبتوں کا سفیر بن جائے، جہاں سرحدیں مٹ جائیں اور سب حسینی سلطنت میں داخل ہو جائیں، جہاں زمین کا ٹکڑا جنت کا عملی نظارہ پیش کر رہا ہو، جہاں فرزند زہرا و بتول، پردہ غیبت میں موجود امام العصر کے زمانے اور انقلاب کی جھلک دکھائی دے، جہاں منتظرین کی آرزئوں اور تمنائوں اور تڑپ کا علاج ہوتا ہے، ایک ایسا سفر جس میں آپ اپنے امام غائب سے قرب محسوس کریں گے، میں نے اسے کہا کہ ایک ایسا سفر جس میں ایسے انتظام و انصرام ہونگے کہ آپ بلا تامل پکار اٹھیں گے کہ یہ کام انسانوں کا نہیں، یہاں فرشتے ڈیوٹیاں دے رہے ہیں۔ میں اسے بتاتا گیا اور وہ میری باتوں میں محو اور حیرت زدہ مجھے ایسے تک رہا تھا، جیسے میں اس دنیا کی باتیں نہیں کر رہا بلکہ کسی اور دنیا سے ہو کر آیا ہوں اور وہاں کے حالات سنا کر داد وصول کرنا چاہتا ہوں۔ وہ میرا بہت ہی قریبی اور عزیز دوست تھا، بچپن کا دوست، وہ اہل سنت تھا مگر میری قربت میں اسے بہت سے مواقع مل جاتے تھے، جہاں مجلس و ماتم کا ماحول ہو، دعا یا مناجات کی محفل ہو، وہ بلا تامل میرے ساتھ شریک ہوتا تھا، میں نے اسے جب یہ سب کچھ بتایا تو وہ اس دن سے دن گننے لگا کہ اربعین کب آئے گا، کب وہ دن آئے گا، جب وہ بھی جنت کے ٹکڑے میں جا کر نبی کے نواسے کو سلام عقیدت پیش کرنے اور اپنی محبتوں کا اظہار کرنے پیادہ رو نجف سے کربلا کا سفر اختیار کرے۔ بالآخر وہ دن آن پہنچا، ہم کربلا کے سفر پہ نکل چکے ہیں اور میرا دوست میرے ساتھ ہے۔۔۔ خداوند کریم مہربان تمام زائرین امام حسین و شہدائے کربلا کی مشکلات کو حل فرمائے اور دنیا بھر سے آنے والوں کی رکاوٹوں سے جلد نجات دے، تاکہ ہر ایک کے دل کا ارمان پورا ہو۔آمین

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply